• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان، جب وزیراعظم نہیں تھے تب انہوں نے جنوری 2018ء کو ٹویٹ کیا تھا کہ ’’کتنی شرمناک بات ہے کہ 2018ء کے شروع میں حکومت نے غریب لوگوں پر پیٹرول بم گرا دیا ہے۔ ٹیکس زیادہ اکٹھا کرنے اور منی لانڈرنگ کو روکنے کے بجائے حکومت عوام پر بوجھ ڈالتی ہے۔ اس دفعہ پیٹرول میں ایک بڑے اضافے کے ساتھ‘‘۔

اس وقت پیٹرول کی قیمت 4.06روپے بڑھی تھی اور پیٹرول 81اعشاریہ 53روپے کا ہوا تھا۔ اِس کے علاوہ بھی بار بار وزیراعظم عمران خان جب وزیراعظم نہیں تھے تو یہی کہتے تھے کہ پیٹرول کی قیمت تب بڑھتی ہے جب اُوپر چور بیٹھا ہوتا ہے۔

اسی پر اسد عمر صاحب نے ٹویٹ کیا تھا کہ ’’حکومت عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بڑھنے کا بہانہ بنا رہی ہے۔ عوام کو یہ نہیں بتا رہی کہ ڈیزل پر 26روپے اور پیٹرول پر فی لیٹر 21روپے ٹیکس وصول کرے گی اِس ماہ۔ اِس حکومت کا ہاتھ ہمیشہ عوام کی جیب میں جاتا ہے۔ نہ طاقتور سے ٹیکس لیتے ہیں نہ منی لانڈرنگ روکتے ہیں‘‘۔

اب انہی ٹیویٹس اور بیانات کو سامنے رکھ کر عوام پوچھ رہے ہیں کہ اُس وقت 21روپے فی لیٹر ٹیکس پر تنقید کی جا رہی تھی، اب 44اعشاریہ 55روپے ٹیکس کا کوئی مسئلہ نہیں ہے؟ اس وقت عالمی منڈی کا بہانہ تھا اور اب بھی عالمی منڈی ہی ہے؟

اس وقت 4روپے بڑھا تھا اور اب 25روپے۔ وہ بم تھا، یہ کیا نیوکلیئر بم ہے؟ اِس کے جواب میں بہت سارے جواز پیش کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن عوام‘ جو پہلے پیٹرول نہ ملنے پر خوار ہو رہے تھے، اب مہنگائی کی چکی میں پسیں گے، کچھ بھی سننے کے لیے تیار نہیں لگتے۔ پھرجس طرح اچانک قیمت بڑھائی گئی ہے۔

وہ بھی 4دن پہلے، اِس نے بھی بہت سے سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ اگرچہ پریس کانفرنس میں ان سوالات کے حکومتی نمائندوں نے جواب دینے کی کوشش کی ہے لیکن دراصل تحریک انصاف کا اِس وقت مسئلہ جواز اور دلیل نہیں بلکہ ان کا اصل مسئلہ کچھ اور ہے۔

عمران خان ایک پاپولسٹ لیڈر بننے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کی ہر تقریر اور ہر بیان، ان کی پارٹی کے لوگوں کی بھی ہر تقریر اور ہر بیان، اسی کی عکاسی کرتے رہے۔ پاپولسٹ لیڈر عوام میں مقبول تو ہوتا ہے لیکن حقیقت کے برعکس بھی ہوتا ہے۔ پیٹرول 50‬روپے کا ہونا چاہیے، یہ بات مقبول تو بہت ہو گی لیکن حقیقت میں ایسا کرنا شاید مشکل ہی نہیں، ناممکن بھی ہو گا۔

تاہم اس طرح کی باتیں کر کے، اور ان خوابوں کی تعبیر نہ پا سکنے کا قصوروار کرپشن اور دوسرے سیاستدانوں کو ٹھہرا کر ہی عمران خان نے سیاست شروع کی اور جب انہیں حکومت ملی ان کے وہی وعدے، وہی پاپولسٹ ایجنڈا، جس نے انہیں عوام کے ایک طبقے میں مقبولیت دی تھی، ان کے گلے پڑ رہا ہے۔ کیونکہ وہ خواب نہ تعبیر سے ہمکنار ہو سکتے تھے اور نہ ہی حقیقت پر مبنی تھے۔

اِس لیے اکثر جو بھی قدم حکومت اُٹھاتی ہے، صحیح یا غلط، اس کے لیے ان کا کوئی نہ کوئی پرانا بیان اس بات کی نفی کرتے ہوئے اور اسی اقدم کی تنقید کرتے ہوئے موجود ہوتا ہے۔ اور پھر جب اس چیز کا جواز پیش کیا جاتا ہے یا کوئی دلیل دینے کی کوشش کی جاتی ہے تو عوام سننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے۔ وجہ یہ ہے کہ آپ نے ہی ان کو وہ سنہری خواب دکھائے جن کی تعبیر اب آپ کے بس کی بات نہیں ہے۔

حکومتی اور پارٹی میٹنگز میں اکثر عمران خان نے یہ گلہ کیا کہ ہم صحیح طرح اپنا کیس نہیں لڑ پا رہے، عوام کو سمجھا نہیں پا رہے۔ مگر وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ عوام کو خود بھی سمجھ ہے، آپ کے خوشنما وعدوں اور دعوئوں نے ہی تو ان کی امیدیں آپ سے وابستہ کیں، جنہوں نے اپنی تمام تر امیدوں کا مرکز آپ کو بنایا وہ کیسے یہ جواز، یہ دلیلیں سننے کوتیار ہو جائیں؟

آپ خود ہی تو یہ کہتے رہے کہ اُوپر ایماندار آدمی ہو تو کرپشن نہیں ہوتی اور سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔ کبھی اہلیت، قابلیت اور صحیح منصوبہ بندی پر تو بات کی ہی نہیں گئی، پھرآڈیٹر جنرل کی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ آپ کے اپنے دورِ حکومت میں اِس سال 270ارب کی کرپشن ہوئی۔

یہ وہ مسئلہ ہے جو تمام پاپولسٹ لیڈرز کو درپیش ہوتا ہے۔ مخالفین پر تنقید میں وہ اتنا آگے چلے جاتے ہیں کہ جس چیز کا وہ مطالبہ کر رہے ہوتے ہیں، وہ ان کے اپنے اختیار میں بھی نہیں ہوتا۔

اِس حکومت کے ساتھ اور عمران خان کے ساتھ مسئلہ شاید یہی ہوا ہے اور اسی لیے وہ چیزیں بہتر کرنے کے بجائے بگاڑ کی طرف زیادہ چلے گئے ہیں جس نے عوام کو مزید مایوس کر دیا ہے۔ اب بھی اگرچہ ان کے کافی حمایتی ہیں لیکن اگر معاملات اِسی طرح چلتے رہے تو وہ بھی زیادہ دیر ساتھ نہیں دیں گے۔

جو دنیا کے حالات بن رہے ہیں بالخصوص کورونا وائرس کی وبا کے تناظر میں، انہوں نے دنیا بھر کے پاپولسٹ لیڈرز کی قابلیت اور اہلیت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ چاہے امریکا کے ڈونلڈ ٹرمپ ہوں، انڈیا کے مودی ہوں یا برازیل کے صدر جیر بولسونارو، پاپولست لیڈرز کی کارکردگی عوام کے لیے مایوس کن رہی ہے اور زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اپنی اصلاح کرنے کے بجائے سارا ملبہ میڈیا اور تنقید کرنے والوں پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

جو دنیا کے حالات بن رہے ہیں، ان سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ پاپولزم کی جو لہر آئی تھی، اب واپس ہو رہی ہے۔ پاپولسٹ لیڈرز نے لوگوں کے ارمان پورے نہ کر کے اور اپنے اُس وقت کے قول اور آج کے فعل کے تضادات سے لوگوں کو سخت مایوس کیا ہے۔

اِس کا واحد حل ڈیلیوری اور ان خوابوں کی تعبیر ہے جو عوام کو دکھائے گئے تھے، ورنہ عوام اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ آپ میں اور اُن باقی لیڈروں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے، جن کی آپ تنقید کرتے تھے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین