• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عام انتخابات میں اب صرف چار ہفتے ہیں  مگر لگ یوں رہا ہے جیسے ہمیں ایک طویل اور کٹھن سفر ابھی طے کرنا باقی ہو۔ اِس اعصاب شکن احساس کا بڑا سبب بعض قومی قائدین کے وہ بیانات اور تقریریں ہیں جن میں انتخابات کے خلاف خفیہ سازشوں کا بار بار ذکر ہو رہاہے  حالانکہ انتخابی عمل آئینی ضابطوں کے مطابق مراحل طے کرتا جا رہا ہے۔ یہ الگ بات کہ ہم اِسے ایک مثالی عمل قرار نہیں دے سکتے۔ دراصل شفاف انتخابات کے حوالے سے ذہنوں میں شکوک و شبہات نگران حکومتوں کے قیام سے پیدا ہوئے ہیں جن کے بارے میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ بہت کچھ پہلے ہی اندرون خانہ طے پا چکا تھا اور ایسے گم نام افرادکے حصے میں اہم وزارتیں آ گئی ہیں جو ٹھیکے دار ہیں اور ایک سامری شخصیت کے منظورِ نظر ہیں۔ سندھ کابینہ میں سیاسی آلائشوں کی بدبو پھیلی ہوئی ہے اور سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ ابھی تک سرکاری پروٹوکول کے لطف اُٹھا رہے ہیں اور الیکشن کمیشن کی گرفت پر طیش میں آ گئے ہیں  وہاں نگران وزیر اعلیٰ وہ صاحب ملی بھگت سے منتخب کیے گئے جن کے بارے میں ایک دنیا جانتی ہے کہ وہ پچھلے دنوں تک مظفر ٹپی کے قدموں میں بیٹھنے کی سعادت حاصل کرتے رہے۔ اِس نگران حکومت نے الیکشن کمیشن کا حکم تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جس میں پنجاب کے چیف سیکرٹری جناب ناصر محمود کھوسہ کو سندھ میں چیف سیکرٹری تعینات کیا گیا تھا جو ایک نہایت راست باز اور غیر جانب دار بیوروکریٹ کی شہرت رکھتے ہیں۔ وہ اگر سندھ کی انتظامیہ کے سربراہ لگ جاتے تو سارا جما جمایا سلسلہ تلپٹ ہو جاتا  اِس لیے اُنہیں صوبے میں آنے نہیں دیا گیا۔ وہاں سے یہی خبریں آ رہی ہیں کہ درپردہ سارے معاملات وہی لوگ چلا رہے ہیں جو برسوں سے چلاتے آ رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اِس حکومت نے ایک سیاسی جماعت کے اُمیدواروں کی سفارش پر آٹھ ہزار افراد پولیس میں بھرتی کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
اِس کھلی جانب داری سے انتخابات کی شفافیت پر بہت سارے سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ شفاف انتخابات کے ذمے دار کلیدی اداروں کے مابین باہمی تعاون کا فقدان ہے۔ خاص طور پر الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں کے درمیان پوری ذہنی اور عملی ہم آہنگی دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ الیکشن کمیشن غیر جانب دارانہ اور منصفانہ انتخابات پر زور دے رہا ہے جبکہ وفاقی وزیرِ داخلہ جناب ملک حبیب ایسی گفتگو فرماتے چلے آ رہے ہیں جو سیاسی جانب داری کی شاہکار ہے۔ اِس کے خلاف بعض سیاسی جماعتوں میں شدید ردِعمل پیدا ہوا اور جناب چیف الیکشن کمشنر کو اُن کی گفتگو پر نوٹس لینا پڑا۔ خود نگران وزیر اعظم کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ وہ صدر زرداری کی منصوبہ بندی سے آئے ہیں۔ کچھ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ جناب نجم سیٹھی غیر جانب داری کا سکہ جمانے میں کچھ زیادہ ہی پرجوش دکھائی دیتے ہیں۔ اُنہوں نے تین روز پہلے مدیرانِ جرائد سے عشائیے پر کھل کر باتیں کیں جو اُن کی قوتِ ارادی کی آئینہ دار تھیں۔ صوبائی انتظامیہ کے اندر غیر جانب دارانہ فضا قائم کرنے کے لیے وہ نہایت اچھی شہرت کے حامل جناب جاوید اقبال کو چیف سیکرٹری کی حیثیت سے پنجاب لائے اور آئی جی پنجاب کے لیے نہایت نڈر اور دیانت دار پولیس افسر جناب سلطان آفتاب کا انتخاب کیا۔ اُن دونوں شخصیتوں نے اوپر سے نیچے تک پوری سول بیوروکریسی اتھل پتھل کر ڈالی جس نے عام شہری کے مسائل میں اضافہ کر دیا ہے اور سرکاری خزانے پر بہت بوجھ بھی ڈال دیا ہے اور یہ سوال بھی اُٹھا دیا ہے کہ شفاف انتخابات صرف پنجاب ہی میں ہو رہے ہیں  مگر حیرت کی بات یہ کہ مسلم لیگ نون کی طرف سے کوئی ناخوشگوار ردِعمل دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔ بلوچستان میں نگران وزیر اعلیٰ جناب غوث بخش باروزئی الیکشن کمیشن کے ساتھ پورا پورا تعاون کر رہے ہیں  مگر وہ منہ زور مقامی اثرات کی وجہ سے ابھی تک اپنی کابینہ تشکیل نہیں دے سکے  تاہم وہ قوم پرست جماعتوں کو قومی دھارے میں لانے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ اُن کی شخصی وجاہت اور شرافت اپنا اثر دکھا رہی ہے۔اِس ضمن میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کا مدبرانہ کردار بھی خاص طور پر قابلِ ذکر ہے جو بلوچستان گئے اور وہاں کے تمام سیاست دانوں کو یہ جانفرا پیغام دے کر آئے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے اور اُن میں فوج اور اُس کے جملہ ادارے غیر جانب دار ہوں گے اور پُرامن انتقالِ اقتدار کی ضمانت دیں گے۔
الیکشن کمیشن اور عدالت ِعالیہ کے درمیان پیدا ہونے والی کشمکش سر اُٹھا رہی ہے اور یہ احساس اُبھرتا جا رہا ہے کہ کٹھن منزل تک پہنچنے کے لیے ریاستی اداروں کے مابین جس طرح کی منصوبہ بندی اور ہم آہنگی درکار ہے  وہ نظر نہیں آ رہی۔ خود الیکشن کمیشن کے فیصلوں میں لڑکھراہٹ پائی جاتی ہے اور اُس کے بیشتر اقدامات وقت کا ساتھ نہیں دے رہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اُس نے ریٹرننگ افسروں تک ایف بی آر  اسٹیٹ بینک اور نیب کی طرف سے فراہم کردہ گائیڈ لائنز وقت پر نہیں پہنچائیں جس کے باعث سکروٹنی کا عمل تشنہ کام رہا اور خاصی بڑی تعداد میں ٹیکس چوروں اور بینک سے قرضہ ہڑپ کرنے والوں کے کاغذاتِ نامزدگی بھی منظور کر لیے گئے۔ یہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ غالباً شدید ذہنی دباوٴ کے تحت کمیشن کے اعلیٰ عہدے دار ٹی وی پر ایک دوسرے سے متضاد خیالات کا اظہار بھی کرتے ہیں اور میڈیا سے اُلجھ بھی جاتے ہیں۔ ہمارے خیال میں اِس وقت پوری قوم عرصہٴ امتحان میں ہے اور اُسے غیر معمولی برداشت اور حوصلہ مندی کا ثبوت دینا ہو گا۔ الیکشن کمیشن انتخابات کے انعقاد میں ایک اہم اور کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور اِس کی انتظامی صلاحیتوں اور اُس کے قاہرانہ کردار ہی پر شفاف انتخابات کا پورا دارومدار ہے  اِس لیے اُسے یقین ہونا چاہیے کہ پوری قوم اُس کی پشت پر کھڑی ہے۔ بلاشبہ ہمارے قابلِ احترام چیف الیکشن کمشنر فخرو بھائی فولادی اعصاب کے مالک ہیں  مگر قدم قدم پر مشکلات سر اُٹھائے کھڑی ہیں  لہٰذا تمام ریاستی اداروں  سیاسی جماعتوں  نگران حکومتوں اور میڈیا کے نمائندوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ بروقت اور پُرامن انتخابات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے میں الیکشن کمیشن کے ہاتھ مضبوط کریں  کیونکہ یہ وقت ایک دوسرے پر سنگ باری کے بجائے مستقبل کے گیسو سنوارنے کا ہے۔
اب جس طرح الیکشن کمیشن فرائض کی بجاآوری میں دن رات منہمک ہے  اِسی طرح نگران حکومتوں کو اپنا آئینی کردار ادا کرنے اور عوام کے اندر بروقت اور شفاف انتخابات کے انعقاد پر اعتماد راسخ کرنے کے لیے شب و روز کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے معروف صحافی جناب عارف نظامی جو نگران وفاقی کابینہ میں وزیر اطلاعات و نشریات ہیں  اُنہوں نے پچھلے دنوں لاہور میں اربابِ صحافت کو ظہرانے پر مدعو کیا اور آنے والی صورتِ حال پر بے تکلف اور پُرمغز گفتگو کی اور پورے اعتماد کے ساتھ اپنی حکومت کے اِس عزم کا اعلان کیا کہ انتخابات وقت پر ہوں گے جو منصفانہ اور آزادانہ ہوں گے۔ وہ اِس تقریب سے پہلے اپنے ناراض چچا جناب مجید نظامی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جمہوریت کی فتح یابی کے لیے اُن کی راہنمائی کی راہ کشادہ کرنے میں کامیاب رہے۔
تازہ ترین