• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ 5برسوں میں پاکستانی معیشت کی اوسط سالانہ شرح نمو 3 فیصد رہی جوکہ پاکستان کی تاریخ میں اتنی ہی مدت میں سست ترین شرح نمو ہے۔ جولائی 2008ء سے دسمبر 2012ء تک ملک کے مجموعی قرضوں و ذمہ داریوں کے حجم میں پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ تیز رفتاری سے اضافہ ہوا اور اب یہ قرضے 16000/ارب روپے کی حد کو چھو رہے ہیں۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ افراط زر لگاتار6برسوں تک دو عددی ہندسہ یعنی10فیصد سے زیادہ رہا ہے جس سے کروڑوں عوام بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ وطن عزیز میں 11کروڑ سے زائد افراد کو دو وقت کی روٹی پیٹ بھر کر میسر نہیں ہے جبکہ حکومت و اسٹیٹ بینک کی استحصالی پالیسیوں، وڈیرہ شاہی کلچر پر مبنی سوچ، کرپشن، ٹیکسوں کی چوری و بڑے پیمانے پر چھوٹ اور لوٹ مار کو قانونی تحفظ دینے کی وجہ سے گزشتہ12برسوں میں تقریباً12000/ارب روپے غریب اور متوسط طبقے سے مالدار اور طاقتور طبقے کی طرف منتقل ہو چکے ہیں۔ اس خطیر رقم کا ایک حصہ ملک سے باہر منتقل ہوچکا ہے۔ گزشتہ 21ماہ میں اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں7700 ملین ڈالر کی کمی ہو چکی ہے۔ گزشتہ مالی سال میں مجموعی ملکی پیداوار کے تناسب سے براہ راست بیرونی سرمایہ کاری پاکستان کی تاریخ میں سب سے کم رہی۔ نائن الیون سے30جون 2012ء تک پاکستان نے 126/ارب ڈالرکا تجارتی خسارہ اٹھایا۔ یہ یقیناً ایک قومی المیہ ہے کہ توانائی اور زرعی شعبے کو نظرانداز کرتے چلے جانے سے تیل اور کھانے پینے کی اشیاء کی درآمدات بڑھتی رہیں۔ یہی نہیں کسی بڑی موبائل سیٹ بنانے والی کمپنی سے معاملات طے کرکے ملک میں اس کی فیکٹری ڈلوانے کے بجائے گزشتہ برسوں میں اربوں ڈالرکے موبائل سیٹ درآمد کئے جاتے رہے ہیں۔ اس رقم سے دیامر بھاشا ڈیم کی استعداد کے برابر ایک ڈیم بنایا جاسکتا تھا۔ اسی طرح گزشتہ حکومت کے دور میں کرپشن، نااہلی اور بدانتظامی وغیرہ کے نقصانات کو پورا کرنے کے لئے توانائی کے شعبے کو جو ”زراعانت“ دی گئی ہے اس کا حجم تقریباً 1400/ارب روپے بنتا ہے جس سے دیامر بھاشا ڈیم تعمیرکیا جانا ممکن تھا۔
یہ امر بھی یقیناً شرمناک ہے کہ 19کروڑ کی آبادی کے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تعلیم اور صحت کی مد میں مجموعی طور پر سالانہ جو رقوم خرچ کی جانی ہیں، اس سے زیادہ رقم اس نام نہاد زراعانت میں ضائع کی جارہی ہیں۔ گزشتہ حکومت نے2009ء میں سرکلر ڈیٹ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر 30جون 2012ء تک اس کا حجم 872/ارب روپے تک پہنچ گیا۔ گزشتہ حکومت کے دور میں نہ صرف کرپشن بلکہ مالیاتی غیرذمہ داری اپنے عروج پر تھی۔ مالی سال 2009ء اور مالی سال2012ء کی مدت میں 2839/ارب روپے کے مجموعی بجٹ تخمینوں کے مقابلے میں مجموعی بجٹ خسارہ4564/ارب روپے رہا۔ موجودہ مالی سال میں1185/ارب روپے کے بجٹ خسارے کے تخمینے کے مقابلے میں بجٹ خسارہ 2100/ارب روپے کے تاریخی حجم تک پہنچ سکتا ہے۔ ملک میں کام کرنے والے بینکوں نے اسٹیٹ بینک کے تعاون سے نجی شعبے کو قرضے فراہم کرنے کا اپنا اصل کام عملاً پس پشت ڈال دیا ہے۔ جنوری 2009ء سے دسمبر2012ء کے 4برسوں میں بینکوں نے 2922/ارب روپے کی سرمایہ کاری کی جس کا بڑا حصہ حکومت کو دیئے گئے قرضے کی شکل میں تھا جبکہ بینکوں کے نجی شعبے کو دیئے گئے قرضوں کے حجم میں اسی مدت میں صرف 587/ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ یہ بھی معیشت کی تباہی کا نسخہ ہے۔ وطن عزیز میں ٹیکسوں کی وصولی استعداد سے تقریباً 6000/ارب روپے کم ہے۔ کرپشن، نااہلی، بدانتظامی اور دانستہ خراب حکمرانی کی وجہ سے قومی خزانے کو مزید2800/ارب روپے سالانہ کا نقصان ہورہا ہے یعنی مجموعی نقصانات 8800/ارب روپے سالانہ یا24/ارب روپے روزانہ۔ دہشت گردی کی جنگ سے پاکستان کی معیشت کو97/ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے مگر سابقہ حکومت نے گزشتہ 15ماہ سے ان نقصانات کے اعداد و شمار دینا ہی بند کردیئے ہیں۔ امریکی ایجنڈے کے مطابق دہشت گردی کی جنگ دل و جان سے لڑتے چلے جانے کے نتیجے میں گزشتہ حکومت کے دور میں صرف 45ماہ میں پاکستانی معیشت کو تقریباً 70/ارب ڈالر کا نقصان ہوا جبکہ نائن الیون کے بعد کے78ماہ میں جب پرویز مشرف اقتدار پر قابض تھے، معیشت کو 27/ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
قوم کو اب اس حقیقت کا ادراک کر ہی لینا چاہئے کہ معاشی، داخلی، سیاسی، بیرونی اور سماجی شعبوں سمیت تمام شعبوں میں بدترین ناکامیوں کے باوجود پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومت اپنی مدت پوری کرنے میں اس لئے کامیاب ہوئی کہ وہ امریکہ کی سرتوڑ کوششوں کے نتیجے میں جاری ہونے والے این آر او سے مستفید ہوکر اور امریکی آشیرباد سے اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی اور اس نے ملک کے طاقتور طبقوں اور امریکی مفادات کا ہی تحفظ کیا۔ امریکی حکومت اس بات کو یقینی بنانا چاہتی تھی کہ این آر اوکالعدم قرار دیئے جانے کے باوجود سابقہ حکومت بقایا3برس پورے کرے اور یقیناً ایسا ہی ہوا۔ ریاست کے ستون بھی اس میں معاونت کرتے رہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستانی سیاست صرف100خاندانوں کی میراث بن کر رہ گئی ہے۔ افغانستان کے ضمن میں امریکہ2014ء میں اہم اقدامات اٹھائے گا چنانچہ پاکستان میں اگلے ماہ ہونے والے عام انتخابات میں امریکہ کے گہرے مفادات وابستہ ہیں۔ ممتاز امریکی دانشور نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ امریکہ نے پاکستانی اشرافیہ کو خرید لیا ہے۔ اگلے چند ماہ میں عوام پر مزید بوجھ ڈال کر منتخب حکومت آئی ایم ایف سے ایک نیا قرضہ لے گی اور امریکی ایجنڈے کے تحت دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر لڑی جانے والی جنگ میں زیادہ جوش وخروش سے حصہ لے گی۔ معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے جن فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہے، کوئی سیاسی پارٹی انہیں اٹھانے کے لئے آمادہ نہیں ہے۔ اب یہ عوام کا فرض ہے کہ وہ تمام سیاسی پارٹیوں سے عہد لیں کہ 2013-14ء میں ہی ہر قسم کی آمدنی پر بلا استثنیٰ ٹیکس نافذ اور وصول کیا جائے گا اور ٹیکس حکام سے خفیہ رکھی ہوئی آمدنی سے بنائے ہوئے اثاثوں پر مروجہ قوانین کے تحت ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو معیشت کی کارکردگی کے لحاظ سے اگلے چند برس کامیاب سال قرار نہیں دیئے جاسکیں گے۔
تازہ ترین