• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں پچھلے چار برس سے ملکی معیشت کی بڑھتی ہوئی کمزوری اور ناقص پالیسیوں اور گرتی ہوئی معیشت کے مسائل کے سدباب کیلئے اپنی قلمی کاوش میں مصروف ہوں لیکن بدقسمتی سے نہ حکومت نے اور نہ ہی حزب اختلاف کی جماعتوں سمیت میڈیا، سول سوسائٹی وغیرہ کسی نے اس میں دلچسپی نہیں لی۔ گزشتہ حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی جو کہ قابل تحسین ہے اور پاکستان میں امریکہ کے سابق سفیر ولیم میلیم کا کہنا ہے کہ پانچ سالہ مدت پوری کرنا ہی حکومت کا واحد کارنامہ تھا لیکن اس دور میں پاکستان تیزی سے غیر موثر اور مشکلات کا شکار بننے کے ساتھ ساتھ سماجی طور پر منتشر بھی ہوا ہے۔ انہوں نے مزید انتباہ یہ کیا ہے کہ مغرب اور پاکستان کے ہمسایہ ممالک کو اس جوہری ہتھیاروں سے لیس ملک کے تیزی سے ناکامی کی طرف جانے کے مضمرات پر بھی نظر رکھنی چاہئے۔ اسٹمسن سینٹر نامی ایک تھنک ٹینک کے شریک بانی مائیکل کریپون پاکستان اور بھارت کے مابین ہتھیاروں کی دوڑ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ پاکستان میں صورتحال یکسر مختلف ہے،یہاں معاشی پیداوار لڑکھڑارہی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں اور ملک خونریزی کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے، کمزور معاشی بنیادوں پر قائم کئے جانے والاجوہری اسلحہ خانہ بنیادی طور پر غیر مستحکم ہوتا ہے۔ یہ بیرونی مبصرینکیوں پاکستان کے حوالے سے اتنی منفی باتیں کررہے ہیں، آخر پاکستان میں ایسا کیا ہورہا ہے؟ یہ سب اس لئے ہوا کیونکہ پچھلے پانچ سالوں میں ہم نے معیشت کو تباہ ہونے دیا۔ یہ ہمارے لئے کتنی شرم اور مایوسی کی بات ہے کہ ہم معیشت کو پاش پاش ہوتے دیکھتے رہے، ہمارا خاموش تماشائی بننا شریک جرم بننے کے مترادف ہے۔ معیشت کی بہتری سے عوام کی زندگیاں وابستہ ہیں، ایک مضبوط معیشت سیاسی اور سماجی استحکام کاذریعہ بھی بنتی ہے جس کے نتیجے میں معیشت اور مضبوط ہو گی۔ مضبوط معیشت مضبوط دفاع کی بھی ضامن ہوتی ہے۔ ایک مورخ پال کینیڈی کے مطابق ایک قوم کی عسکری قوت کا انحصار اس کی معیشت پر ہوتا ہے۔سابق امریکی وزیر خارجہ کی رائے میں تحفظ ہونے کا مطلب ترقی ہوگی اور ترقی سے ہی تحفظ کی منازل طے ہوں گی۔ مائیکل کریپون کا ہم سب کیلئے پیغام ہے کہ کوئی قوم جوہری اسلحہ خانہ اور مضبوط دفاع ، مضبوط معیشت کے بغیر حاصل نہیں کر سکتی۔ ملک کے حکمراں طبقے کی معیشت پر کوئی توجہ نہ تھی اور نہ ہی نگراں حکومت کی معیشت پر کوئی توجہ ہے۔ نگراں وزیر اعظم کے پاس وزیر خزانہ کا اضافی چارج ہے ایسے وقت میں جبکہ ملک تیزی سے قرض کی ادائیگیوں کے بحران کی جانب بڑھ رہا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہورہی ہے اور بیرونی آمدنی زر کے امکانات بھی معدوم ہیں۔ پاکستانی زرمبادلہ کے ذخائر میں جولائی2011ء سے7.6/ارب ڈالر کی کمی آچکی ہے جبکہ رواں مالی سال کے آغاز سے اب تک یہ کمی3.675/ارب ڈالر ریکارڈ کی گئی ہے اور رواں ماہ یہ کمی 73 کروڑ 30لاکھ ڈالر رہی۔ 29مارچ 2013ء کو مرکزی بنک کے زرمبادلہ کے ذخائر کی مالیت 7.1/ارب ڈالر تھی جس میں نجی بنکوں کے2.3/ارب ڈالر بھی شامل تھے لہٰذا اسٹیٹ بنک کے اصل ذخائر 4.8/ارب ڈالر تھے۔ رواں مالی سال کے آخر یعنی30جون تک صرف آئی ایم ایف کو 90کروڑ 5لاکھ ڈالر ادا کرنے ہیں۔ جس سے مرکزی بنک کے زرمبادلہ کے ذخائر3.9/ارب ڈالر رہ جائیں گے اور المیہ یہ ہے کہ کسی کو معیشت کی تباہی کی پروا نہیں یا تو لوگ معاشی چیلنجوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں یا پھر وہ حال ہی میں یونان کے عوام کی دردناک صورتحال کا مزہ چکھناچاہتے ہیں جس کی وجہ قرضوں کی ادائیگی کا بحران تھا۔ مشکل وقت ابھی آنا باقی ہے۔11مئی کے انتخابات کے بعد مخلوط حکومت بننے کا قوی امکان ہے۔ سیاسی ماحول میں گرمی اور تحریک انصاف کے ملکی سیاسی منظرنامے پر نمودار ہونے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ انتخابات کے بعد نئی حکومت بننے میں ڈیڑھ ماہ سے زائد کا عرصہ لگ سکتا ہے اور اس میں جتنا زیادہ وقت لگا اتنا ہی یہ معیشت کیلئے نقصان دہ ہوگا۔ کیا نئی حکومت میں ملک کو عالمی سطح پر نادہندگی سے بچانے کی سکت ہوگی؟ کیا نئی حکومت بڑی ساختیاتی اصلاحات جیسے ٹیکس اور تخمینوں کی اصلاحات نافذ کرسکے گی۔ جیسا کہ برطانوی ارکان پارلیمینٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو بین الاقوامی برادری کی امداد کی امید رکھنے سے قبل اپنے ملک میں امیر لوگوں سے ٹیکس وصول کرنا ہوگا۔ یہ سوچ کر بھی کپکپی چھوٹنے لگتی ہے کہ کتنا مشکل مرحلہ آگے آنے والا ہے۔ بدقسمتی سے اگلی حکومت کو کئی مشکلات کا سامنا ہوگا۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ پاکستانی معیشت کبھی بھی اتنے برے حال میں نہیں رہی۔ پانچ سالہ بدترین طرز حکومت کے باعث معیشت کی بنیادیں ہل گئی ہیں۔ ملکی ادارے بھی تباہ ہوگئے ہیں جن میں پی آئی اے، پاکستان اسٹیل مل، ریلوے، یوٹیلٹی کمپنی، مرکزی بنک یا وزارت خزانہ یا پلاننگ کمیشن شامل ہیں۔ پچھلے پانچ برسوں میں ہم نے ملکی معیشت کو تباہ کردیا ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں،کچھ خاموش تماشائی بن کر اور کچھ حکومت کی معاشی ٹیم کا حصہ بن کر۔ مشکل وقت ابھی آنا باقی ہے۔ خدا ہمیں آنے والے چیلنجوں کا سامنا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
تازہ ترین