• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2013ء کے انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن نے جو بیلٹ پیپر تیار کیا ہے اس میں اُمیدواروں کے خانوں کے ساتھ ایک خانہ خالی بھی رکھا گیا ہے۔اس خالی خانے کی غرض یہ بتائی گئی ہے کہ جو ووٹر کسی اُمیدوار کو ووٹ نہ دینا چاہیں یا انتخابات میں حصہ ہی نہ لینا چاہیں وہ اس خانے میں مُہر لگا دیں۔ ہمارے پڑوسی ملک میں ایک صاحب نے بہت بڑا گھر بنوایا۔ گھر کیا تھا محل تھا۔ اس میں بہت بڑا لان تھا جس میں ایک طرف تین سوئمنگ پول بنائے گئے تھے۔ گھر بن گیا تو دوستوں کی دعوت کی اور اُن کو لان میں بھی لائے۔ کہنے لگے یہ ٹھنڈے پانی کا تالاب ہے گرمیوں میں نہانے کے لئے اور یہ گرم پانی کا تالاب ہے جو سردیوں میں نہانے کیلئے ہے۔ دوستوں نے تیسرے تالاب کی طرف اشارہ کیا جو خالی تھا اور پوچھا ”یہ کس لئے ہے؟“ تو اُن صاحب نے کہا”کبھی نہیں بھی نہانا ہوتا“۔
تو ہمارے الیکشن کمیشن نے اُن لوگوں کیلئے بھی ”جنہوں نے ووٹ نہیں دینا ہوتا“ خالی تالاب بنا کر اس کا اہتمام کر دیا ہے۔ بیلٹ پیپر کے خالی خانے پر تبصرہ کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ جن کو ووٹ نہیں دینا ہو تو وہ پولنگ اسٹیشن پر آتے ہی نہیں۔ یہ بات الیکشن کمیشن کو بھی معلوم ہے لیکن وہ اس عمل پر مُہر تصدیق ثبت کرانا چاہتے ہیں‘ الیکشن کے بعد وہ اس بات کی گنتی کریں گے کہ کتنے لوگ الیکشن کے عمل کے خلاف تھے۔ اس طرح سے ان اعداد وشمار کے ساتھ کسی طالع آزما کو آسانی فراہم ہو جائے گی۔ وہ طالع آزما سرکاری طور پر مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق برملا اعلان کر سکے گا کہ ملک کے لوگ انتخابات وغیرہ کو پسند نہیں کرتے۔ جس طرح سے تواتر سے احکامات چلے آرہے ہیں ہو سکتا ہے کہ کچھ دن میں یہ اعلان بھی آ جائے کہ ہر شخص کو لازمی ووٹ ڈالنا ہو گا اور جو ووٹ نہیں ڈالے گا اس کو سزا بھی ہوسکتی ہے اور جرمانہ بھی۔
ملک میں انتخابی عمل کیلئے دو ادارے کام کر رہے ہیں، سپر ادارہ تو الیکشن کمیشن ہے اور اس کے مددگار ادارے نگران حکومتیں ہیں۔ دونوں نے ابھی اپنے کام کاآغاز ہی کیا ہے۔ ریٹرننگ آفیسرز نے اُمیدواروں کو فارم ایشو کرنے کے بعد ان کے کاغذات جمع کرنے کا کام کیا۔ اُمیدواروں کی اسکروٹنی بھی جاری ہے اور امیدواروں کے انٹرویو بھی کئے جا رہے ہیں۔ اخباری خبر کے مطابق ایک اُمیدوار سے پہلا کلمہ سنانے کو کہا گیا۔ اس پر کئی حلقوں کی طرف سے اعتراضات سامنے آئے کہ کلمہ پڑھنا تو ہر شخص کا انفرادی فعل ہے۔ کوئی امریکہ کا کلمہ پڑھتا ہے،کوئی انڈیا کی مالا جپتا ہے اور کچھ لوگ پیسے کا کلمہ پڑھتے ہیں۔ اس لئے ان سے ایسے سوال نہ کئے جائیں۔ ادھر الیکشن کمیشن کا غالباً موقف یہ ہے کہ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ امیدوار دفعہ 62-63 کے کس حد تک مطابق ہیں۔ ریٹرننگ افسروں کے ان انٹرویوز میں کئی دلچسپ باتیں ہوئیں۔ ایک اُمیدوار سے پوچھا گیا کہ عشاء کی نماز میں کتنی رکعتیں ہوتی ہیں۔ امیدوار نے جواب دیا ”19رکعت“ ریٹرننگ افسر نے کہا ”نہیں پھر سوچ کر بتائیے۔ گِن کر جواب دیجئے“ اُمیدوار گنتی میں گم تھا کہ پیچھے سے ایک ساتھی نے آہستہ سے لقمہ دیا۔ ”17رکعتیں“ اُمیدوار بولا ”اوے وہ 19نہیں مان رہا تو17کیسے مان لے گا“۔الیکشن کمیشن کا پھول آہستہ آہستہ کھل رہا ہے۔ اللہ کرے کہ یہ ایک خوشبودار اور خوشنما پھول بن کر سامنے آئے اور اس کی ہر پتی حسین ہو۔ کمیشن کی مددگار یعنی نگران حکومتیں بھی اپنا رنگ جمارہی ہیں۔ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی نے راگ بسنت بہار کااَلاپ شروع ہی کیا تھا کہ چاروں طرف سے آوازیں آنا شروع ہوئیں ”ہمیں نہیں چاہئے تیرا بسنتی چولا“۔ ادھر کوئی آکر ان کو مدھر مدھر گانے بھی سناتا” اوبستی پون پاگل! نہ جارے نہ جا…!“اس کے بعد نگران حکومت اس سوچ میں پڑگئی کہ بسنت اور الیکشن میں کیا تعلق ہے؟ اور کیا فرق ہے؟
الیکشن کمیشن کے سربراہ اور نگران وزیراعظم دونوں20ویں صدی کی جوانی کے دور میں پیدا ہوئے یعنی جب پچھلی صدی30،35سال کی تھی اس کے بعد دونوں نے اس صدی کو اپنے سامنے گزرتے دیکھا پھر 70ء کے الیکشن کے ذریعے پاکستان کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا۔ اب جب21ویں صدی ٹین ایجرکے روپ میں ہے یعنی اس کی کل عمر13سال ہے تو ان کو الیکشن کرانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ دیکھئے عمروں کا یہ کھیل کیا نتیجہ نکالتا ہے۔ الیکشن کمشنر اور نگران وزیراعظم نے جوانی، بڑھاپا اور نوجوانی سارے روپ دیکھ لئے ہیں۔
دیکھئے ، پاتے ہیں عشاق ”بڈھوں“ سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
تازہ ترین