• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عارف نقوی کو ایم سی سی اور ایم ایس ڈی میں نہیں رکھیں گے، امریکہ

لندن (مرتضیٰ علی شاہ) برطانوی عدالت میں ابراج گروپ کے سابق بانی عارف نقوی کے وکلا کی جانب سے پیش کئے جانے والے دلائل نے امریکی حکومت کو اپنا موقف تبدیل کرنے پر مجبور کردیا ہے اور اب امریکی حکومت نے پیشکش کی ہے کہ عارف نقوی کو امریکہ کے حوالے کئے جانے کی صورت میں انھیں امریکہ کے دوبدنام زمانہ جیل خانوں میٹروپولیٹن کریکشنل سینٹر ایم سی سی یا میٹروپولیٹن ڈیٹنشن سینٹر ایم ڈی سی میں نہیں رکھا جائے گا اور اگر ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کی عدالت نے انھیں 16الزامات کا سامنا کرنے کیلئے، جس میں انھیں امریکہ میں 300سال تک کی سزا دی جاسکتی ہے، امریکہ کے حوالے کیا تو انھیں کسی دوسرے جیل خانے میں رکھا جائے گا۔ امریکی حکومت نے اس بات کا اپنی پہلی پیشکش میں اضافہ کیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ اگر انھیں امریکہ کے حوالے کیا گیا تو انھیں ضمانت پر رہا کیا جاسکتا ہے۔ امریکہ نے کبھی بھی ملک بدری کی عدالت میں اس طرح کی رعایت نہیں دی تھی۔ اس سے یہ پتہ چلتاہے کہ عارف نقوی کی ملک بدری کی ویسٹ منسٹر میں ہونے والی گزشتہ سماعت کے بعد امریکی حکومت کے وکیل مارک سمر آخری وقت پر لچک کھا گئے اور انھوں نے یہ پیشکش کردی کہ عارف نقوی کو کسی دوسرے جیل خانے میں رکھا جائے گا۔ امریکی حکومت کے وکیل نے عدالت میں تصدیق کی کہ انھوں نے امریکہ میں اپنے موکل سے عارف نقوی کے بارے میں یقین دہانی مانگی تھی۔ یہ پیشرفت عارف نقوی کے وکلا کی جانب سے گزشتہ دو ہفتے کی سماعت کے دوران پیش کئے گئے مضبوط شواہد کی بنیاد پر سامنے آئی ہے، عارف نقوی شروع ہی سے یہ موقف اختیار کئے ہوئے ہیں کہ انھوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے اور عدالت کو اس بات کی تصدیق سے آگاہ کیا گیا ہے کہ ابراج گروپ نے امریکی ایجنسیوں اور کریڈیٹرز، جن میں میلنڈا اینڈ بل گیٹس فائونڈیشن شامل ہے، تمام رقوم واپس کردی ہیں۔ امریکی حکومت کے وکلا نے عارف نقوی کو امریکہ کے حوالے کئے جانے پر ابتدائی طورپر یہ وعدہ کیا تھا کہ عارف نقوی کو امریکہ پہنچنے کے بعد ضمانت دیدی جائے گی لیکن امریکی حکومت نے اس کی مکمل ضمانت نہیں دی تھی اور اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ اس طرح کی مبہم ضمانت سے کوئی جج حکومت کے وعدے کو یقینی بنانے کا پابند نہیں ہوجاتا۔ بدھ کو عارف نقوی کے وکلا نے کہا کہ اس ضمانت پر یقین نہیں کیا جاسکتا اور ایسے شواہد پیش کئے جس میں ججوں نے پراسیکیوشن اور دفاع کی جانب سے مشترکہ طورپر ضمانت کی درخواستیں رد کردیں اور ملزم ابھی تک جیل میں ہیں اور انھیں ضمانت نہیں دی گئی۔ امریکی وکلا نے یہ یقین دہانی کرانے کی کوشش کی اور کہا کہ وہ واپس آئیں گے لیکن یہ نہیں بتایا کہ کہاں اور اس یقین دہانی کی شرائط کیا ہیں لیکن انھوں نے یقین دلایا کہ ٹرائل کی صورت میں ٹرائل سے قبل قید پر جیل خانہ ایم سی سی یا ایم ڈی سی نہیں ہوگا۔ مارک سمر نے انڈراسٹینڈنگ فراہم کرنے کیلئے عدالت سے دو ہفتے کا وقت مانگا اور بدھ کو طلب کئے جانے والے گواہوں کو نہ بلانے کی استدعا کی۔ جب مقام معلوم ہو تو چیف مجسٹریٹ دفاع کو جواب کا موقع دیں گے، بصورت دیگر اگلے قدم کا تعین کرنے کیلئے مزید سماعت کی ضرورت ہوگی۔ جج نے اشارہ دیا ہے کہ شواہد پیش کئے جانے کے بعد امریکی جیل خانوں کے بارے میں پیش کئے گئے حقوق انسانی کی صریح خلاف ورزیوں سے متعلق شواہد سے حقیقی خطرات نظر آتے ہیں۔ نقوی کے وکیل ہوگو کیتھ کیوسی نے کہا کہ یہ ضمانت آخری لمحوں میں سامنے آئی ہے جبکہ اس میں یہ واضح نہیں ہے کہ یقین دہانی دراصل ہے کیا؟۔ ہمیں اس یقین دہانی کے حوالے سے کچھ بھی معلوم نہیں ہے اور اگر یہ یقین دہانی ناقابل قبول ہوئی تو آپ چیف مجسٹریٹ کو ایم سی سی اور ایم ڈی سی کے خطرات کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ انھوں نے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ امریکی حکومت اپنے مقدمے کو بچانے کی کوشش میں امریکی نظام انصاف کو مکمل طور پر گھما رہی ہے۔ ایم سی سی اور ایم ڈی سی سے متعلق شواہد انھیں 23جنوری سے معلوم تھے اور ان کے پاس اس پر غور کرنے کیلئے چھ ماہ کا وقت تھا۔ عارف نقوی کے وکیل نے عدالت کو امریکہ میں عارف نقوی کو پیش آنے والے خطرات سے آگاہ کیا، جس میں نسل پرستی، صحت اور انصاف کا نہ ملنا بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ امریکی حکومت کی جانب سے ضمانت یا یقین دہانیاں کرانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کووڈ -19 کے پھیلائو، سیاہ فاموں کی زندگی بھی اہمیت رکھتی ہے تحریک اور نسل پرستی میں گھری ہوئی ہے جبکہ یہاں حال ہی میں جیل خانوں میں ہونے والی اموات کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ہوگو کیتھ نے کہا یہ واضح ہے کہ امریکی حکومت مخالف عدالتی فیصلے کی صورت میں کسی کارروائی کیلئے بہانے تلاش کررہی ہے۔ امریکہ جب یہ کہہ رہا ہے کہ عارف نقوی کو ایم سی سی اور ایم ڈی سی میں نہیں رکھا جائے گا اور یہ یقین دہانی کرانے کو بھی تیار ہے کہ مقدمے کی سماعت کے دوران حراست کا کوئی حقیقی خطرہ نہیں ہے اور شواہد غیر متعلق ہیں اور اگر ایسا ہے بھی تو بھی ان دونوں جیل خانوں میں ہراساں کرنے کے گمنام شواہد بھی حد سے زیادہ نہیں ہیں۔ امریکی وکلا ایسے حقیقی گواہ کو الگ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، جس نے ان جیل خانوں میں کام کیا ہے اور وہ بتاتا ہے کہ ان جیل خانوں کی صورت حال کس طرح ایک بھیانک خواب کی مانند ہے، جہاں عارف نقوی کو رکھے جانے کا خدشہ ہے۔ اب یقین دہانی کے عمل میں دو ہفتے لگیں گے اور مقدمے کی اگلی سماعت 21 جولائی کو ہوگی جبکہ مقدمے کی سماعت ستمبر تک مکمل ہونے کی توقع ہے۔

تازہ ترین