• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نظریہ پاکستان کیخلاف پروگرام پر کیا پیمرا شکایت کا انتظار کریگا، جسٹس اطہر من اللہ

اسلام آباد (عاصم جاوید ، اویس یوسف زئی) اسلام آباد ہائی کورٹ نے نفرت انگیز مواد نشر کرنے پر ایگزیکٹ گروپ کے ٹی وی چینل کے لائسنس منسوخی کی درخواست پر پیمرا کو قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 10 جولائی تک ملتوی کر دی ہے۔

دوران سماعت میسرز لبیک پرائیویٹ لمیٹڈ کے وکیل نے پروگرامز کی نشریات کے سلسلے میں الیکٹرانک میڈیا کے کوڈ آف کنڈکٹ پر مکمل عملدرآمد کی یقین دہانی کرائی۔

میسرز انڈیپنڈنٹ میڈیا کارپوریشن (جنگ جیو گروپ) کے وکیل بابر ستار نے کہا کہ پیمرا آرڈیننس کی دفعہ 27 کے تحت پیمرا کو نظریہ پاکستان یا نفرت انگیز تقاریر نشر کرنے والے ٹی وی چینل کا لائسنس معطل یا منسوخ کرنے کا اختیار ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ اگر کوئی چینل نظریہ پاکستان کے خلاف پروگرام چلائے یا لائسنس کی خلاف ورزی کرے تو کیا پیمرا شکایت کا انتظار کرے گا ، ٹی وی چینلز کو مانیٹر کرنے کا کیا مکینزم ہے؟ ایک سنجیدہ شکایت پر پیمرا خاموش بیٹھا ہے ، یہ انتہائی الارمنگ اور پیمرا کے لئے ٹیسٹ کیس ہے۔

پیمرا کو بطور ریگولیٹر اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ، اگر پیمرا اپنا کردار موثر طور پر ادا کرتا تو معاملہ عدالت میں نہ آتا، عدالت پہلے دیکھے گی کہ ریگولیٹر کیا کر رہا ہے پھر فیصلہ کریں گے درخواست کا کیا کرنا ہے۔ نجی ٹی وی چینل کی توہین مذہب کی جھوٹی اور نفرت انگیز میڈیا مہم اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر انڈیپنڈنٹ میڈیا کارپوریشن (پرائیویٹ) لمیٹڈ ، چیف ایگزیکٹو و ایڈیٹر انچیف جنگ جیو گروپ میر شکیل الرحمن ، میر ابراہیم رحمن اور میر اسحاق رحمن کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت عدالت عالیہ اسلام آباد کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔

اس موقع پر درخواست گزاروں کے وکیل بابر ستار ایڈووکیٹ نے ویڈیو لنک جبکہ ان کی ایسوسی ایٹ وکیل زینب جنجوعہ نے کمرہ عدالت میں دلائل دئیے۔

پیمرا کی جانب سے منور دگل اور نجی ٹی وی چینل کے وکیل سردار تیمور اسلم سمیت پیمرا کے جنرل منیجر آپریشنز محمد طاہر عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ عدالت کے استفسار پر پیمرا کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے انڈیپنڈنٹ میڈیا کارپوریشن کی شکایت پر نوٹس جاری کیا اور معاملہ کونسل آف کمپلینٹس کو بھجوایا لیکن اسلام آباد میں کونسل آف کمپلینٹس موجود نہیں ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سنجیدہ نوعیت کے الزامات عائد کئے گئے ، پیمرا اس پر فوری کارروائی کر سکتا ہے ، آپ نے ٹی وی چینل کو لائسنس جاری کیا تو اس کی کچھ شرائط بھی ہوں گی۔

پیمرا کے وکیل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ ہے کہ مواد سے متعلق معاملہ کونسل آف کمپلینٹس کو ہی جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم درخواست نمٹا دیتے ہوئے مگر نجی ٹی وی چینل کے سی ای او بیان حلفی دیں کہ کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔

اس پر انڈیپنڈنٹ میڈیا کارپوریشن کے وکیل بابر ستار نے کہا کہ عدالت یہ معاملہ نہ نمٹائے، عدالت کے پاس آئے ہی اس وجہ سے ہیں کہ پیمرا نے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیکشن 30 اے کے تحت پیمرا کے آرڈر کے خلاف اپیل اس کورٹ کے پاس آتی ہے اس لئے اس پٹیشن کو زیر التوا رکھنا مناسب نہیں۔

اس پر ایسوسی ایٹ وکیل زینب جنجوعہ نے کہا کہ لائسنس کی منسوخی کا فیصلہ کونسل آف کمپلینٹس نہیں اتھارٹی خود کرتی ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ پیمرا کر کیا رہا ہے؟

جنگ جیو گروپ کے وکیل بابر ستار ایڈووکیٹ نے کہا کہ سیکشن 27 کے تحت پیمرا کو نظریہ پاکستان یا نفرت انگیز تقاریر نشر کرنے والے ٹی وی چینل کا لائسنس معطل یامنسوخ کرنے کا اختیار ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے پیمرا کے وکیل سے استفسار کیا کہ اگر کوئی چینل نظریہ پاکستان کے خلاف پروگرام چلائے تو کیا آپ شکایت آنے کا انتظار کریں گے؟ اگر شکایت آ بھی جائے تو کیا آپ ایکشن لینے کے بجائے نوٹس جاری کر کے معاملہ کونسل آف کمپلینٹس کو بھجوا دیں گے؟ کیا کسی ٹی وی چینل کو نظریہ پاکستان کے خلاف پروگرام نشر کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ اس پر پیمرا کے وکیل منور دگل نے کہا کہ بالکل بھی نہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ معاشرے میں پہلے ہی بہت نفرت ہے اور ایسا مواد نشر کرنے سے معاشرے میں انتشار پھیلتا ہے ، نفرت انگیز تقاریر نشر کرنے کا معاشرے پر منفی اثر پڑتا ہے ، ہمیں اس کے خلاف لڑنا اور اپنا کردار ادا کرنا ہے۔

پیمرا کے وکیل نے کہا کہ درخواست گزاروں کی جانب سے شکایت اسلام آباد میں داخل کرائی گئی لیکن یہاں کونسل آف کمپلینٹس غیر فعال ہے ، اگر عدالت اجازت دے تو اس شکایت کو کراچی یا لاہور کی کونسل آف کمپلینٹس کو بھجوا دیا جائے ۔

اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر کونسل آف کمپلینٹس غیر فعال ہے تو معاملہ اس کو کیوں بھجوایا گیا؟ کل کوئی نظریہ پاکستان کے خلاف بات کرے تو آپ وہ معاملہ بھی غیر فعال کونسل آف کمپلینٹس کو بھجوا دیں گے؟

پیمرا بطور ریگولیٹر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہا ہے ، ہم آپ کی اتھارٹی کو انڈر مائن نہیں کرنا چاہتے مگر آپ خود کام ہی نہیں کر رہے ، یہ پیمرا کے لئے ٹیسٹ کیس ہیں، دیکھتے ہیں کہ آئندہ سماعت تک پیمرا کیا کرتا ہے؟

پیمرا کو خود بھی معلوم نہیں کہ وہ ریگولیٹر ہے بھی یا نہیں؟ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیمرا کے جنرل منیجر آپریشنز محمد طاہر سے استفسار کیا کہ کیا آپ بے اختیار ہیں؟ اگر آپ موثر انداز میں اپنا کام کرتے تو یہ معاملہ عدالت میں نہ آتا ، آپ کے پاس چینلز کو مانیٹر کرنے کا کیا میکنزم ہے؟ کیا آپ شکایت آنے کا انتظار کرتے ہیں؟ پیمرا کے جنرل منیجر آپریشنز عدالت کو مطمئن نہ کر سکے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مناسب ہو گا کہ عدالت گریز کرتے ہوئے پیمرا کو اس کی ذمہ داریاں پوری کرنے کا موقع دے۔

عدالت کے استفسار پر نجی ٹی وی چینل کے وکیل سردار تیمور اسلم نے بتایا کہ الیکٹرانک میڈیا کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔ عدالت کے حکم پر انہوں نے دوبارہ یقین دہانی کرائی کہ آئندہ بھی الیکٹرانک میڈیا کوڈ آف کنڈکٹ 2015ءکی خلاف ورزی نہیں ہو گی۔ اس پر عدالت نے کیس کی سماعت 10 جولائی تک ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ نجی ٹی وی کے خلاف 29 اپریل سے یکم مئی 2020ءکے دوران میر ابراہیم اور میر شکیل الرحمن کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا مہم چلانے پر انڈیپنڈنٹ میڈیا کارپوریشن (پرائیویٹ) لمیٹڈ ، چیف ایگزیکٹو و ایڈیٹر انچیف جنگ جیو گروپ میر شکیل الرحمن ، میر ابراہیم رحمن اور میر اسحاق رحمن نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں الیکٹرانک میڈیا ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر چینل کا لائسنس منسوخ کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

درخواست کے مطابق نجی ٹی وی چینل نے مسلسل تین روز تک توہین مذہب کے معاملے پر میر شکیل الرحمن کے وارنٹ گرفتاری کی ہیڈ لائنز چلائیں جو الیکٹرانک میڈیا کوڈ آف کنڈکٹ 2015 کی خلاف ورزی ہے۔ چیئرمین پیمرا کو چار شکایات بھجوائی گئیں مگر پیمرا بطور ریگولیٹر ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہا۔ عوام کو تشدد پر ابھارنے کی مہم چلانے سے درخواست گزاروں اور ملازمین کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں۔

میسرز لبیک کے سی ای او شعیب شیخ نے بدنام زمانہ جعلی ڈگری کیس میں اپنے حق میں فیصلہ لینے کے لئے جج کو رشوت دی۔ بعد میں جج پرویز القادر میمن نے ہائی کورٹ کی ڈیپارٹمنٹل پروموشن کمیٹی کے سامنے رشوت لینے کا اعتراف بھی کیا۔

درخواست گزاروں کی جانب سے زینب جنجوعہ ایڈووکیٹ نے عدالت سے استدعا کی کہ نجی ٹی وی کو درخواست گزاروں کے خلاف توہین مذہب کے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگانے سے روکا جائے کیونکہ اعلیٰ عدلیہ نے اپنے فیصلوں میں ایف آئی آر کے اندراج تک توہین مذہب کے الزامات نشر یا شائع نہیں کئے جا سکتے ۔

اور فیئر ٹرائل کے اصول کے تحت ملزم کی شناخت ظاہر نہ کرنے اور فیئر ٹرائل کے اصول کے تحت ملزم کی شناخت ظاہر نہ کرنے کی گائیڈ لائنز طے کی ہیں فریقین کو اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں میں طے کی گئی گائیڈ لائنز پر عملدرآمد کا حکم دیا جائے۔

تازہ ترین