• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگرچہ سحر ہونے میں ابھی دیر ہے لیکن امیدوں کے چراغ گل ہوئے ہیں اور نہ ہی متوقع اجالوں کے سورج کو مایوسی کے اژدھوں نے نگلا ہے ۔ یہ بھی درست ہے کہ عقل و دانش کی شمع بجھانے پر آمادہ تاریک قوتیں اور اُن کے پھیلتے ہوئے سائے دانائی ، دانشوری اور حب الوطنی کا لبادہ اُوڑھے معاشرے میں سرائیت کرچکے ہیں اوراس کی ہر صبح ہنوز شب گزیدہ ہے، لیکن سیاہ بادلوں کے اُس پار ابھرتی ہوئی سفیدی امید کی کھیتی کو زرد نہیں ہونے دیتی۔ کس کو شک ہے کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں!کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ انتخابی امیدواروں کی جانچ پڑتال کا عمل ، جس پر جنرل ضیا الحق کے دست ِ شفقت میں پروان چڑھنے والے آرٹیکلز 62-63 کی عملداری سایہ فگن ہے، ایک طرح کے مضحکہ خیز طربیہ ڈرامے میں بدل جائے گا اور نامزدگی کے کاغذات کی جانچ پڑتال نظریہ ٴ پاکستان کے حوالے سے ادق بحث کی راہوں پر چل نکلے گی؟ لیکن ہمارے ہاں ہر انہونی ایک معمول کی بات ہے، اس لئے ہم نے وہ بحث نہایت شد ومد سے اس طرح چھیڑدی کہ ”ہم چپ رہے، ہم ہنس دیے ، منظور تھا پردہ تیرا“ کا آپشن بھی جاتا رہا۔
یہ مانا کہ ہمارے ہاں حماقت اور کم عقلی راج کرتی رہی ہے(اور آئندہ بھی اُنہیں استحقاق رہے گا) لیکن اس مرتبہ معاملہ قدرے مختلف تھا۔ ہوا یوں کہ جب حماقتوں کے دفتر کھلے تو عقل اور منطق کی آوازیں بھی بلند ہونے لگیں۔ یہ منظر اس سے پہلے اس اسلامی جمہوریہ میں نہ دیکھنے میں آیا تھااور نہ سننے میں۔ اگر کہیں سخت گیر رویے رکھنے والے دیگر اسلامی ممالک میں بھی ایسی فکری نشاة ثانیہ کی کچھ رمق دکھائی دے تو یقین مان لیں کہ آسمانی طاقتیں ہم پر مہربان ہونے کا ارادہ کر چکی ہیں۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں چشم ِ فلک نے کب یہ مناظر دیکھے تھے کہ نظرئیے کے نام پر روا رکھی جانے والے منافقت کو اس طرح طشت از بام کیا گیا ہو؟ لیکن اس سرزمین پر یہ انہونی بھی ہو کر رہی کہ اس مرتبہ جنرل یحییٰ خان کی کابینہ کے وزیر ِ اطلاعات نوابزادہ شیر علی خان مرحوم کی ٹکسال کردہ اصطلاح ،”نظریہ ٴ پاکستان “ پر تنقید کرتے ہوئے کالم اور ادارئیے لکھے گئے اور ٹی وی پر چلنے والے ٹاک شوز کے دوران اس منافقت کو بے نقاب کیا گیا۔ اس تبدیلی کا نکتہ ٴ آغاز کچھ انتخابی امیدواروں ( جن میں راقم الحروف بھی شامل تھا) کے کاغذات ِ نامزدگی مسترد کئے جانے سے ہوا۔ اگر اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بدمزگی کو جانے دیں اور بپا ہونے والے ہنگامے، جس پر ہمارے گھر کی رونق موقوف رہتی ہے، پر نظر ڈالیں تو یہ اچھا خاصا کامیاب شو تھا ۔ اس میں امیدواروں سے پوچھے گئے سوالات سے پورا ملک محظوظ ہوا۔
اصل بات یہ ہے کہ ہم نے اس ملک میں ایسا ماحول قائم کر رکھا ہے کہ جہاں عقل و منطق کی بات کرتے ہوئے دل سہم سا جاتا ہے ، یہ وہ ملک ہے جہاں ممتاز قادری پر پھول نچھاور کئے جاتے ہیں اور جہاں لاہور ہائی کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس اس طرح اپنے ”ہیروز “ کی پذیرائی کو درست سمجھتے ہیں اور جہاں حساس معاملات پر بنائے گئے قوانین غلط مقاصد کے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس ملک میں نظریہ ٴ پاکستان اور اسلامی نظریات جیسے حساس معاملات پر دوٹوک اور بے لچک روئیے عقائد کی جانچ پڑتال کے ہر قدم پر گھات میں ہوتے ہیں۔
تاہم ان حالیہ واقعات سے سامنے آنے والا نتیجہ واضح ہے۔ اچھے اور ذی فہم لوگوں کو مل کر کھڑے ہو جانا چاہئے اور ہم آواز ہو کر بولنا چاہیے۔ جب وہ ایسا کریں گے تو اس سے فرق پڑے گا… جیسا کہ اس کیس میں دیکھنے میں آیا۔ اس ضمن میں، میں ریٹرننگ آفیسرز کو مورد ِ الزام نہیں ٹھہراتا کیونکہ اُن کو بہت سے فرائض سونپ دئیے گئے ۔ وہ اپنے معمول کے اوقات میں عدالت میں کام کرتے اور بغیر کسی توقف کے ریٹرننگ آفیسرزکی سیٹ پر کاغذات ِ نامزدگی وصول کرتے ۔ محترم چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف سے بھی اُن کو ہرروز ہدایات جاری کی جارہی تھیں کہ وہ اپنے فرائض ایمانداری اور ذمہ داری سے ادا کر یں۔ اس طرح ان افسران کا نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوجانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اس ماحول میں اگر کسی ریٹرننگ آفیسر نے کچھ مضحکہ خیز سوالات پوچھے تو کوئی بات نہیں، ایسا ہو جاتا ہے۔ بہرحال پاکستان کوئی نیم قبائلی معاشرہ نہیں ہے اور یہاں باقاعدہ عدالتی نظام موجود ہے، چنانچہ ریٹرننگ آفیسرز کی فاش غلطیوں کی درستی کے عدالت سے رجوع کیا گیا۔
جہاں تک میرے کیس کا تعلق ہے تو چکوال کے ریٹرننگ آفیسر نے کچھ نظریات وعقائد کے حوالے سے مجھ پر جوسوالات اٹھائے وہ راولپنڈی ٹربیونل کے بنچ ، جس میں مسٹر جسٹس رؤف احمد شیخ اور مسٹر جسٹس مامون رشید شیخ شامل تھے، نے درخورِ اعتنا نہ گردانے اور میرے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ میرا معاملہ اس لئے بھی آسان ہو گیا کہ میرے وکیل سلمان اکرم راجہ تھے، جو اس وقت پاکستان کے قابل ترین وکلاء میں شمار کئے جاتے ہیں، اوراُنھوں نے مجھے قانونی معاونت بلامعاوضہ فراہم کی ۔ اس واقعے سے حاصل ہونے والا سبق یہ ہے کہ جب بھی نظریات کے حوالے سے بنائے گئے قوانین کا غلط استعمال ہو تو ہمیں خاموش تماشائی بنے رہنے کی بجائے پوری توانائی کے ساتھ اٹھ کھڑا ہونا چاہئے اور سخت گیر روئیے رکھنے والے افراد کے منہ پر سچ بولنے سے خائف نہیں ہونا چاہئے۔ اگر ہم استقامت سے کھڑے ہوجائیں تو سمجھ لیں کہ آدھی جنگ ہم نے جیت لی ہے، لیکن اگر ہم وقتی مفاد کو دیکھتے ہوئے خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھیں تو ہم یہ جنگ بھی ہار جائیں گے اور ہمارے پاس کوئی دلیل بھی نہیں ہوگی۔ہماری خاموشی اور مصلحت آمیز کمزوری سے شہ پا کر ہی دقیانوسی سوچ رکھنے والے گروہ اخلاقیات اور عقائد کے نام پر پاکستان کے ”ٹھیکیدار “ بن چکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے آئین میں نظریات کے حوالے سے کچھ معروضات موجود ہیں اور اگر ہم چاہتے تو کسی کی دل شکنی کا سامان کئے بغیران کو آئین سے حذف کر سکتے تھے، لیکن ہم ایسا نہ کر سکے۔ تاہم ایک اور بات ذہن میں رکھیں کہ آئین میں اور شقیں بھی ہیں جن کی اصل روح کے مطابق ابھی تک عمل نہیں ہو سکا۔ مثال کے طور پر آئین کا آرٹیکل 14کہتا ہے…”ہر انسان کی توقیر مقدم ہے اور کسی شخص کو بھی معلومات اگلوانے کے لئے تشدد کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا“…․ آپ پاکستان کے کسی بھی تھانے میں تھانیدار کو یہ آرٹیکل سمجھانے کی کوشش کریں تو وہ پانچ منٹ میں آپ کو وہ قانونی سبق دیدے گا جو آپ زندگی بھر نہیں بھولیں گے۔ اگر ہم ان شقوں کی کھلے عام پامالی پر چیں بجبیں نہیں ہوتے ہیں تو پھر نظریات اور اخلاقیات جیسے مجرد حقائق پر اتنے چراغ پا کیوں ہو جاتے ہیں؟ہماری راہوں میں بکھرے ان سنگریزوں کو چنا جانا ابھی باقی تھا لیکن اب تو …” دام ہر موج میں ہے حلقہ ٴ صد کام ِ نہنگ“، والا معاملہ آن پڑا ہے۔ ہمارے پرانے اسلامی محافظ ، جیسا کہ جنرل حمید گل، مولانا فضل الرحمن، مولانا سمیع الحق، منورحسن ، لیاقت بلوچ، دائیں بازو کے نظریات رکھنے کے باوجود زندہ دل افراد تھے ۔ وہ حس ِ مزاح سے محروم نہ تھے ، چنانچہ ”موقع“ دیکھ کر رسم ِ دنیا نباہ لیتے تھے۔ تاہم آج میڈیا میں داد شجاعت دینے والے ملا طبعی ظرافت کا غیر ضروری بوجھ اتار پھینک کر میدان میں ہیں۔ ان کی نستعلیق اخلاقیات سے باہر ایک خط بھی روگردانی کے زمرے میں آتا ہے، چنانچہ لائق ِ تعزیر ہے۔انہی دانشوروں کی زریں تعلیمات نے پاکستانیوں کو باور کرایا کہ امریکہ کے مشرقی ساحلوں میں تباہی مچانے والا سینڈی طوفان دراصل کیلی فورنیا ( جومغربی ساحل پر ہے) کے کسی ناہنجار کی طرف سے بنائی گئی توہین آمیز فلم کی وجہ سے آیا تھا۔ اگر ان کی بات مان لی جائے تو ایسا لگتا ہے کہ آسمانی طاقتیں زمینی جغرافیے کے حوالے سے غلطی کر گئیں۔ اسی طرح یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ پاکستان کے مطالبے کی اصل وجہ غازی علم دین کی پھانسی تھی۔ ان بقراطوں کی طرف سے ایسی من پسند تشریحات سامنے آتی رہتی ہیں اور آتی رہیں گی۔ بہرحال یہ گروہ صرف گفتار کا غازی ہی نہیں ہے۔ اس سوچ کی عملی تشریح طالبان کے ہاتھوں انجام پاتی ہے۔ خالد خواجہ کا کیس یاد ہو گا ؟ طالبان نے اسی طرح کے دائیں بازو کے افراد سے ”سچائی “ دریافت کی (کہ یہ سچ کے سوا کچھ اور بول ہی نہیں سکتے) اور اس راست گوئی کا آخری کلمہ کلاشنکوف کی زبانی ادا ہوا ۔ بدقسمت خواجہ کی گردن سے آر پار گولی اس پر سند ہے۔ اس پر بہیمانہ قتل کی میڈیا کے ان جانباز ملاؤں کی طرف سے کسی نے مذمت نہ کی۔ تاہم اس پارسا گروہ کے حوالے سے سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ پاکستان پر غالب نہیں آسکتے ہیں۔خدا جانتا ہے کہ ہم سے بہت سی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ ہم نے ایسی راہوں کا انتخاب کیا ہے ، ایسے ایسے ممنوعہ امکانات کی مہم جوئی کی ہے جہاں کوئی اور ملک بھی ہوتا تو اب تک برباد ہو چکا ہوتا، لیکن اس دھرتی کی مٹی زرخیز بھی ہے اور اس میں بہت سا نم ہے۔ اس کی قوت ِ نمو ابھی بانجھ نہیں ہوئی ہے۔ چلنے والی باد ِ سموم کے جھکڑوں کے باوجودا س کے باسی فضاؤں میں گھلی تازہ مہک کو اپنی سانسوں کے قریب محسوس کرتے ہیں۔ دھرتی سے پھوٹنے والی دانائی انتہاپسند عقائد کی حماقتوں کے آگے بندھ باندھ سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک پاکستان میں عقل و معقولیت کی بات کرنے والے پائے جاتے ہیں۔
کیا پاکستان کا مطلب عقیدے کے نام پر قتل یا کسی پر تنقید کے نشتر چلانا ہے؟کیا تکفیر کی ترویج ہے اس وطن کے حصول کا واحد مقصد تھا ؟یقیناً ایسا نہیں ہے۔ بانیانِ پاکستان کے نزدیک بہت بلند مقاصد تھے۔ بہت گہرائی میں جائے بغیر ، ہم اس نئے پاکستا ن کو مسٹر جناح کے نظریات کی روشنی کے مطابق چلانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ بہت زیادہ ماضی کو کریدنے کی ضرورت نہیں، ابھی بھی مثبت طرز ِ فکر اور انصاف کے اصولوں کے مطابق اس ملک کا نظام قائم ہو سکتا ہے۔ اس کے کچھ حوصلے اور استقامت کی ضرورت ہے ۔ جہاں تک اس جانباز گروہ کا تعلق ہے تو ان کی باتیں سن کر ایک جاندار اور طویل قہقہہ لگانے میں کوئی حرج نہیں… کہ ان کا یہی علاج ہے۔ انتخابات کے بعد جب انتقال ِ اقتدار کا مرحلہ ، جو کہ اس ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہونے جارہا ہے، طے ہوجائے تو ہمیں اپنی راہوں میں بکھرے سنگریزوں کو ہٹانا ہے تاکہ ہم بہتر منزل کی طرف پیش قدمی کر سکیں۔
تازہ ترین