• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ایک بے ساختہ اور فی البدیہہ”پول“ تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کی مانند لاہور کالج فار ویمن کا شما ربھی ملک کے نہایت باوقار تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔(اب اسے یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہے)۔ گزشتہ روز یہاں پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کے زیر اہتمام ایک سیمینار 11مئی کے عام انتخابات کے حوالے سے سروے کا ذریعہ بن گیا (مقررین میں جسٹس (ر)ناصرہ جاوید اقبال ، جناب مجیب الرحمن شامی اور ڈاکٹر حسن عسکری فاطمی شامل تھے)۔493میں سے 271مسلم لیگ ن اور 211ووٹ تحریک انصاف کے حق میں تھے۔پیپلز پارٹی کی حمایت میں صرف 5ووٹ آئے ۔اور باقی6جماعت اسلامی اور ق لیگ میں تقسیم ہو گئے ۔تحریک انصاف ”یوتھ“ پر اپنے اجارہ داری کا دعویٰ کرتی ہے تو کیا وہ اپنی مقبولیت کے اس نیوکلیس میں بھی زوال پذیر ہے؟
30اکتوبر (2011)کپتان اور اس کی تحریک انصاف کی مقبولیت کا نکتہ عروج تھا (مینار پاکستان کا سونامی) جس کے بعد زوال کا عمل شروع ہو گیا۔ Electablesکے نام پر اسٹیٹس کو کی علامات پارٹی میں در آئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے کپتان کے گرد موقع پرستوں کا جمگھٹا ہو گیا۔بعض فقرے ضرب المثل بن جاتے ہیں کپتان کے حوالے سے یہ فقرہ مثال بن گیا ”کرپٹ معاشرے میں فرشتے کہاں سے لاؤں؟“۔سٹیج پر بھی کپتان کے دائیں بائیں وہی ہوتے ۔پرانے وابستگان پچھلی قطاروں میں بے بسی کی تصویر نظر آتے ۔انٹرا پارٹی الیکشن میں بھی زور آور آگے آگئے اور دیرینہ وفادارپیچھے دھکیل دیے گئے۔رہی سہی کسر عام انتخابات کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم نے پوری کردی ہے۔عوام میں مقبول کسی بھی جماعت کے لیے یہ آسان مرحلہ نہیں ہو تا کہ یہاں ایک انار صد بیمار والا معاملہ ہوتا ہے لیکن تحریک انصاف میں تو یہ معاملات بھی نرالے ہیں۔ خود کپتان کے اپنے گھر میں بغاوت کا منظر ہے۔اس کے اپنے شہر میں اس کے اپنے عزیز اس کی جماعت کے خلاف بر سر پیکار ہیں ۔ تحریک انصاف کے ٹکٹ یافتہ امجد شیر افگن کے مقابل انعام اللہ نیازی کی انتخابی مہم کا ایک منظر ملاحظہ ہو،”تحریک انصاف پر قبضہ گروپ پنجے گاڑ چکا ہے اس کے ٹکٹ فروخت کیے گئے امجد کو بھی ٹکٹ رشوت لیکر دیا گیا ۔ تحریک کے ٹکٹ گندگی کے ڈھیر پر پھینک دیے گئے اور اس کی ٹوکری میں گندے جمع ہو گئے ہیں“۔محرومین کی اکثریت ٹکٹوں کی فروخت کا الزام عائد کرتی ہے اور یہ کہانیاں شہر شہر اور قصبے قصبے سنائی دیتی ہیں۔ اور دلچسپ بات یہ کہ اس میں تحریک کی نامی گرامی شخصیتوں کے نام بھی آتے ہیں۔
کپتان کے مدح سرا کے تازہ کالم سے چند سطور: ابھی ابھی نوجوان نعیم عالم نے بتایا کہ جہلم سے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ تحریک انصاف نے کسی چوہان کو دے دیا ہے۔ نعیم عالم ہر اعتبار سے افضل ہے، نسبتاً جوان سال اور پارٹی سے وابستگی قدیم ۔حریف اس کا بوڑھا ، بیمار،مبلغ میٹرک پاس اور نسبتاًنا معقول ۔ ٹکٹ اسے کیسے ملا ؟کوئی گہرا تاریک راز ہے۔ ممکن ہے ، پیسے کے سوا بھی کچھ۔ صداقت عباسی کی قماش کے کھوکھلے اور سازشی ،کپتان کا خاندان بھی اس سے نالاں ہے۔پارٹی کو چھچھو روں پر چھوڑ دیا گیا۔ غلطی عمران خان سے بھی بہت بڑی ہوئی ۔جتنا زور جرائم پیشہ سیاست دانوں کو رسوا کرنے پر لگایا، اتنا اجلے آدمیوں کو جمع کرنے اور کارکنوں کی تربیت پر صرف کیا ہوتا تو آج کا دن نہ دیکھنا پڑتا…پارلیمانی بورڈ کے اجلاس میں عامر کیا نی کو میں نے دیکھا تو حیران رہ گیا ، اس غیر سنجیدہ آدمی کا یہاں کیا کام؟قومی اسمبلی کا ایک ٹکٹ صداقت عباسی کو دے دیا گیا اگر وہ تیسرے نمبر پر آ سکا تو یہ خوشخبری ہو گی۔ شیخ رشید کا دعویٰ ہے کہ عمران خان نے ان سے دس سیٹوں کا وعدہ کیا تھا۔دس سیٹوں کا؟راولپنڈی کے گلی کوچوں میں گھومنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ شیخ صاحب اپنی سیٹ بھی نہیں جیت سکتے۔اثاثہ نہیں ، وہ ایک بوجھ ہیں ۔ رائے عامہ انہیں ہمیشہ کے لیے مسترد کر چکی۔عبدالعلیم کا ذکر ہی کیا ، وہ چلے جائیں تو ان کی نوازش ہوگی، خس کم جہان پاک۔یہ اس پارٹی کا حال ہے جس کا سربراہ صداقت شعار اور ایثار کیش ہے“۔
ادھر شاہ محمود قریشی کپتان کی اصول پسندی اور انصاف پروری کے لیے ایک اور آزمائش بن گئے ہیں۔ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین ملتان کی نشست پر کامیابی کو مشکوک پاکرسندھ سے بھی قسمت آزمائی کر رہے ہیں لیکن یہاں بھی محض اپنے مریدوں کے ووٹوں سے کامیابی یقینی نہیں اس کے لیے انہیں پیر پگاڑا کی تائید اور سرپرستی بھی درکار ہے لیکن وہ تحریک انصاف کے امیدوار کو سپورٹ کرنے پر تیار نہیں ۔ چنانچہ جناب قریشی یہاں آزاد امیدوار کے طور پر قسمت آزما ہیں اور کپتان کی اصول پسندی بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔
جمہوریت بیزار محبان پاکستان ملاحظہ فرمائیں کہ ان کی نامطلوب و نا مقصود جمہوریت ہی قومی یکجہتی کا ذریعہ بن رہی ہے۔ سندھ کی علاقائی جماعتیں جو خود کو سندھی قوم پرست کہلاتی ہیں، نواز شریف کی اتحادی بن کرقومی دھارے میں چلی آئی ہیں۔ایک عرصے سے بلوچستان کے احوال ہر محب وطن پاکستانی کے لیے تشویش کا باعث تھے۔ انتخابات کا نقارہ بجا ہے تو جناب اختر مینگل بھی وطن لوٹ آئے ہیں۔پاکستان کے آئین سے ان کی امیدیں معدوم نہیں ہوئیں ۔ شہباز شریف دو روز پہلے کوئٹہ گئے ۔ اختر مینگل ، حاصل بزنجو ، ڈاکٹر عبد المالک ،طلال بگٹی اورمحمود خان اچکزئی سے کامیاب مذاکرات پر وہ بہت خوش ہیں۔ بلوچستان کے قوم پرست بھی سندھی قوم پرستوں کی طرح قومی سطح پر کردار ادا کرنے کے خواہش مند ہیں۔ بلوچ لیڈروں سے نواز شریف کے تعلقات اور بزرگ بلوچ لیڈر عطاء اللہ مینگل سے ملاقاتیں بھی برف پگھلانے کا باعث بنیں۔موجودہ این ایف سی ایوارڈ میں شہباز شریف کی طرف سے پنجاب کے حصے سے بلوچستان کو گیارہ ارب روپے سالانہ کا عطیہ بھی اہل بلوچستان کے لیے برادرانہ جذبات کے اظہار کا ذریعہ تھا ۔ اہل بلوچستان وفاق میں ایک معاندانہ حکومت کے باوجود پنجاب میں گزشتہ پانچ برس میں ہونے والے ترقی کو رشک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔انہیں نواز شریف کے گزشتہ ادوارمیں گوادر پورٹ اور کوسٹل ہائی وے جیسے ترقیاتی منصوبے بھی یاد ہیں ۔اکبر بگٹی کے قتل ، مسخ شدہ لاشوں ، گمشدہ افراد اور کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ اور خود کش دھماکوں جیسے حساس مسائل پر نواز شریف اور مسلم لیگ ن کی بلند آواز کو بھی وہ قدر کی نظر سے دیکھتے ہیں۔دسمبر میں پائنا کے زیر اہتمام بنجاب یو نورسٹی میں منعقدہ بلوچستان کانفرنس میں شریک کچھ بلوچ دانش وروں کی بات یاد آئی ،صدارتی نظام کی صورت میں بلوچستان کے 70فیصد ووٹ نوازشریف کو ملیں گے۔ البتہ پارلیمانی نظام میں معاملہ مختلف ہوتا ہے۔ حلقہ جاتی سیاست کی ڈائنامکس اور ہوتی ہیں اب دیکھنا ہے کہ مسلم لیگ ن دیگر جما عتوں کے ساتھ مفاہمت کے ذریعے یہاں کیا کچھ حاصل کر پاتی ہے؟
تازہ ترین