• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایاز امیر کے کاغذات نامزدگی بالآخر منظور ہونے کی خبر آئی تویک گونہ اطمینان کے ساتھ ساتھ ذہن کے پردے پر مظہر علی خان مرحوم کی شبیہ ابھر آئی۔ نکلتا ہوا قد، یونانی خدوخال، سادہ مگر نفیس لباس، ہاتھ میں پائپ اور شستہ انگریزی جیسے گھاس پر سے پایاب ندی کا پانی گزرتا ہے۔ مظہر علی خان صحافت میں علمی استعداد، فکری گہرائی اور پیشہ وارانہ دیانت داری کا خوبصورت امتزاج تھے۔ وطن کی محبت میں بہت سے نشیب و فراز سے گزرنے کے بعد اگست 1975ء میں لاہور سے ہفت روزہ ’ویو پوائنٹ‘ جاری کیاجو 1990ء تک شائع ہوتا رہا۔ نیوز پرنٹ پر چھپنے والے اس ہفت روزہ جریدے نے ضیاء الحق کے تاریک برسوں میں جمہوریت، شہری حقوق اور آزادیٴ صحافت کے چراغ روشن رکھنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ یار لوگ حیران تھے کہ مظہر صاحب نے تصویروں اور اشتہارات سے بے نیاز ’ویو پوائنٹ‘ نکال کر مستقل مالی خسارے کا سامان کیوں کر رکھا ہے۔ ایک صحافی نے انٹرویو لیتے ہوئے یہ سوال کر ہی دیا۔ مظہر علی خان نے جواب دیا ”پیسہ کمانے کے لئے بہت سے پیشے اختیار کئے جا سکتے ہیں لیکن ان پیسوں میں صحافت کا شمار نہیں ہوتا۔“ مگر کیوں؟ اس کے جواب کی طرف چلتے ہیں لیکن ایک مختصر سی حکایت اور۔ 1941ء میں شہرہ آفاق ہدایت کار آرسن ویلس نے ’سٹیزن کین ‘ کے نام سے ایک فلم بنائی۔ فلم پر سند کا درجہ رکھنے والا ادارہ اسمتھ سونین انسٹی ٹیوٹ اسے بیسویں صدی کی دس بہترین فلموں میں شمار کرتاہے۔ یہ کہانی ایک صحافی کے گرد گھومتی ہے جس کے بڑے بڑے آدرش ہیں لیکن اس کے دل میں صحافت کے ذریعے دولت اور اقتدار تک پہنچنے کی خواہش بھی مچلتی ہے۔ وہ ایک اخبار خرید لیتا ہے۔ سیاست میں داخل ہوتا ہے۔ صدر مملکت کی بھتیجی سے شادی کرتا ہے۔ انتخاب لڑتا ہے۔ پیسے کی غلام گردشیں نیم تاریک اور اقتدار کے زینے پیچ دار ہوتے ہیں۔ فلم اپنے اختتام کی طرف بڑھتی ہے تو چارلس فاسٹر کین اب ’سٹیزن کین‘ کے نام سے جانا جاتا ہے لیکن شہرت اور اقتدار کے باوجود وہ خوش نہیں ہے کیونکہ اس کے وہ آدرش دھندلے پڑ گئے ہیں جن سے کبھی اس کے دل کا الاؤ روشن ہوتا تھا۔
بات سادہ ہے۔ صحافت محض ایک پیشہ نہیں، سیاست اور طب کی طرح ایک تمدنی خدمت بھی ہے۔ ایک ڈاکٹر کے لئے پیسہ کمانا منع نہیں لیکن اس کا اولین فرض رنگ، قومیت یا عقیدے کا امتیاز کئے بغیر مریض کی جان بچانا ہے۔ سیاست دان کا فرض صحیح فیصلوں سے قوم کی تعمیر اور ترقی کو یقینی بنانا ہے اور حقیقی معنوں میں یہ فرض ادا کرنے کے لئے اقتدار تک پہنچنے کی جدوجہد بھی کی جاتی ہے جو بالکل جائز بلکہ ضروری ہے۔ لیکن ایک مدبر کی حقیقی مسرت منصب تک پہنچنے سے نہیں، منصب کے تقاضے پورے کرنے سے پھوٹتی ہے۔ اسی طرح صحافی کے لئے پیسہ شجر ممنوعہ نہیں، صحافی کے بچوں کو بھوک بھی لگتی ہے لیکن اس کے پیشے کا اولین تقاضا عوام تک خبر اور حقائق پہنچانا ہے۔ جس طرح سیاست دان کو منصب کی چکا چوند اور اختیارات کے صحیح استعمال کے درمیان تنے ہوئے رسے پر چلنا پڑتا ہے ، اسی طرح صحافی کا کام بھی ایک نادیدہ لکیر کے اندر رہتے ہوئے ادا کیا جاتا ہے۔ صحافی کو خبر تک رسائی کے لئے اہل اقتدار سے رسم و راہ پیدا کرنا پڑتی ہے۔ خبر کو بیان کرنے یا دبا دینے کے اختیار سے طاقت کا یک گونہ احساس بھی پیدا ہوتا ہے۔ تاہم ایک صحافی کی قامت قربِ اقتدار سے نہیں، اس کی خبر کی درستی اور تجزئیے کی اصابت سے متعین ہوتی ہے۔
صحافت کو روز مرہ حالات میں بھی سیاست سے مفر نہیں۔ تاہم الیکشن ایک ایسا مرحلہ ہے جہاں اہل صحافت کو اپنا فرض منصبی ادا کرتے ہوئے سیاست کے بہت قریب سے موڑ کاٹنا پڑتا ہے۔ اسی لئے انتخابات کے دوران صحافتی ذمہ داریوں کی نزاکت بڑھ جاتی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اہل صحافت کسی سیاسی جماعت یا انتخابی امیدوار کی ترجمانی کرنے کی بجائے عوام کو معاشی مسائل اور انتخابی عمل کے بارے میں آگاہ کریں۔ ذاتی مفاد اور گروہی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر صرف واقعاتی امور اور قابل تصدیق حقائق بیان کئے جائیں تا کہ عوام اپنا حق رائے دہی بہتر طور پر استعمال کر سکیں۔ کسی امیدوار کی خواہشوں کو خبر بنا کر پیش کرنے سے گریز کیا جائے۔ آئے روز انتخابات کے التوا کی خبریں پھیلانے اور موہوم سازشیں بیان کرنے کی بجائے عوام کا حوصلہ بڑھایا جائے۔ سیاسی عمل پر عدم اعتماد پیدا کرنے کی بجائے لوگوں کو سمجھایا جائے کہ ووٹ ڈالنے کے عمل ہی سے ہم رعایا کی بجائے شہری کے درجے کو پہنچتے ہیں۔ ہمیں فرمان جاری کرنے والے حکمرانوں سے نجات ملتی ہے اور ہم ایک حکومت کے حقدار قرار پاتے ہیں۔ ہمیں اپنے معاشی اور ثقافتی مستقبل کے خدوخال طے کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ سیاسی رہنماؤں پر ذاتی اور بے بنیاد حملے نہ کئے جائیں۔ بدعنوانی کے غیر مصدقہ قصے نہ چھیڑے جائیں۔ مذہبی یا لسانی بنیاد وں پر اشتعال انگیز بیانات کو اچھالنے سے گریز کیا جائے۔ خبر کی ترسیل کا فرض ادا کرتے ہوئے اس اجتماعی ذمہ داری کا خیال بھی رکھا جائے کہ شفاف اور آزادانہ انتخابات سے ہمارے ملک کے سیاسی ارتقاء کا ایک اہم مرحلہ مکمل ہو جائے گا۔
بات ایاز امیر کے کاغذات نامزدگی منظور ہونے سے چلی تھی اور مظہر علی خان یوں یاد آئے کہ ایاز امیر کو اپنے درست قانونی موٴقف کے علاوہ اس امر سے بھی مدد ملی کہ اہل صحافت کی بڑی تعداد نے اپنی ذاتی ترجیحات اور وابستگیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایاز امیر کی حمایت میں دو ٹوک آواز بلند کی۔ آج کے پاکستان میں اہل صحافت کی آواز دبانا آسان نہیں رہا۔ صحافت کی اس آزادی کے پیچھے مظہر علی خان اور ان جیسے ان گنت معروف اور گمنام صحافیوں کی ان قربانیوں کا ہاتھ ہے جو انہوں نے پاکستان کے پہلے ساٹھ برس میں پیش کیں۔ ان میں حسین نقی بھی تھے اور مجیب الرحمن شامی بھی، نثار عثمانی بھی تھے اور صلاح الدین شہید بھی اور سلیم شہزاد کی شہادت تو ابھی کل کی بات ہے۔ یہ وہ چراغ تھے جو جیلوں اور عقوبت خانوں کی ظلمت میں جلائے گئے۔ ان چراغوں کی جھلملاہٹ ہماری آئندہ نسلوں کی راہیں روشن کرتی رہے گی۔ سوال صرف یہ ہے کہ کیا ہم گیارہ مئی کے انتخابات سے پہلے اور بعد اس آزادی کی ساکھ برقرار رکھ پائیں گے۔
تازہ ترین