• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غضب کی راتیں بلا کے دن

جونہی گرمی نے زور پکڑا لوڈشیڈنگ نے ریکارڈ توڑ دیا، ہمارے پنجاب کے جو ’’وہ‘‘ ہیں معطلیوں میں مگن اور عوام کو بجلی نے عضو معطل بنا دیا، ساری رات لاہوری گھروں کے باہر بیٹھے تبریٰ پڑھتے ہیں، حکومت پنجاب کے درجات بلند ہوتے جاتے ہیں، مہنگائی،بیروزگاری تو تھی ہی کہ لوڈشیڈنگ وکھری ٹائپ کے ساتھ کوئی اعلان کئے بغیر مسلط کر دی گئی، پہلے تھوڑی تھوڑی جاتی ہے پھر جاکے نہیں آتی، راقم جس علاقے میں اس شہر پرآشوب کے رہتا ہےوہاںچوراہے میں ایک ٹرانسفارمر قدیم زمانے سے لٹکا پوری آبادی کو لٹکائے ہوئے ہے۔ آبادی دگنی تگنی ہو چکی ہے مگر وہی ایک ضعیف العمر ٹرانسفارمر جو رو رو کے فریاد کرتا ہے کہ ایک عددنیا ٹرانسفارمر خرید کر رکھ دیا گیا ہے وہ کیوں محکمہ نہیں لگاتا کہ میرا بوجھ کم ہو اور علاقے کے مکین بجلی سے سیراب ہوں، پورے لاہور میں عام آبادیوں کا یہی حال ہے۔لیسکو آواز لگا رہا ہے بجلی لے سکو تو لے کر دکھائو، پیاسے کے حلق میں وقفے وقفے سے قطرہ قطرہ بجلی ٹپکا کر عوام کو ٹپکے کا آم بنا دیا کہ اب گرے کہ تب گرے، ہماری گزارش جناب مقبول و محبوب وزیر اعلیٰ سے بس اتنی ہے کہ مذکورہ علاقے میں اگر اس کا مختص نیا ٹرانسفارمر لگوا دیں تو ان کے درجات اور بلند ہونگے، خلق خدا دعائیں دے گی وگرنہ جو کچھ اس وقت دے رہی ہے وہ بیان سے باہر ہے، یہ سطریں میں متاثرین کے مجمع میں بیٹھ کر لکھ رہا ہوں، قلم توڑ لوڈشیڈنگ اور لوگوں کی آہ وبکا میں ڈوب کر یہ داستان غم سنا دی ہے، توقع ہے اسلام آباد والے کو ترس آئے نہ آئے لاہور والے کو ضرور رحم آئے گا، ویسے اطلاعاً عرض ہے کہ اس رہائشی علاقے میں چار عدد فیکٹریاں دن رات چلتی ہیں نہ جانے ان کی بجلی کہاں سے آتی ہے۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے

غالبؔ نے تو کسی اور حوالے سے اپنے مسائل تصوف میں ڈوب کر کہا تھا کہ ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے، لیکن آج کے دور عدل وانصاف کی ہولناکیوں میں ہمیں یہ مصرع برانداز دگر نظر آتا ہے، ہمارے ہاں یوں تو ہر عہد میں حکومت نام کی چیز موجود رہی ہے، لیکن اس کے اثرات مفلس کی فریاد کی طرح بے اثر، عرف عام میں، اسے رٹ آف دی گورنمنٹ کہتے ہیں، جب بھی زندگی کے عذاب بڑھتے ہیں ساتھ ہی نرخ بھی چڑھتے ہیں، 90فیصد عوام زندگی کو اور زندگی ان کو روتی ہے۔10فیصد وہ ہیں کہ ان کیلئے یہ وطن نہیں ایک منڈی ہے ان کے بچے کجا کتے بھی یہاں قیام نہیں کرتے، ایسی حب الوطنی ہمیں کہاں ملے گی، نہ گرانی کی پروا نہ لوڈشیڈنگ کا عذاب، البتہ جو انہیں مسند حکمرانی پر بٹھاتے ہیں وہ بیٹھ جاتے ہیں اور اٹھ نہیں پاتے کہ حکمران ساختہ کسی چھڑی کا وار انہیں پھر سے بٹھا دیتا ہے، کوئی نہ سر اٹھا کے چلےکا چلن عام ہے، گردش میں بس خالی جام ہے، اگر 10فیصد والے طبقے میں سے کوئی یہاں رہتا بھی ہےتو ان کے علاقے جدا، مراعات الگ، ایک کنگ میکر کنگلے عوام ہیں کہ وہ مصیبت کے آنے جانے سے بے نیاز، اور باقی نذرنیاز پر گزارہ کرتے ہیں، روز بروز ہیں تنگ بہت بندہ ’’عام‘‘ کے اوقات، قلم تو لکھتے ہیں مگر ان کے لکھے کو کوئی صحیفہ نہیں جانتا۔ جس کے ہاتھ میں کسی بھی چیز کا اختیار آ جاتا ہے وہ بقدر اختیار اس کی قیمتوں میں بے اختیار اضافہ کر دیتا ہے، نہ نرخ ملتے ہیں نہ مزاج ان کا عقد کیسے ہو، بہرحال ایک درد سا سینے میں ہوتا ہے تو قلم کی سیاہی کی صورت اسے کورے چٹے کاغذ پر پھیلا کر تاریکی اور بڑھا دیتے ہیں کہ شاید کسی کو چراغ روشن کرنے کی توفیق ملے۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

کچھ اس کا بھی علاج

ان دنوں دروازوں پر دستک کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، چھوٹی چھوٹی اور بعض جوان بچیاں ہر گھر کی بیل بجاتی ہیں پھر کواڑ پیٹتی ہیں اور پھر خبر آتی ہے کہ ایک بچی کو زیادتی کے بعد لاش پھینک دی گئی، کیا ہم وہی امت ہیں جس کے اکابر فرماتے تھے دجلہ کے کنارے کتا بھی بھوک سے مر گیا تو اس سے پوچھ گچھ ہوگی؟حکومت اگر اپنے نامہ اعمال میں کوئی نیکی بھی درج کرانا چاہتی ہے تو ان بڑی چھوٹی مانگنے والی بچیوں کو محفوظ بنائے بھوک ننگ نے بھی کیا کیا رنگ دکھائے، کیا ہم نے 72برس جو عذابوں میں کاٹے اس کے بعد بھی ہمارا یہی حال رہے گا کہ ہر آنے والا دن گزرنے والے دن سے بدتر ہو گا، غلطی کہاں ہے، ذمہ دار کون ہے، علاج کیا ہے، سب ذمہ داران جانتے ہی نہیں مانتے بھی ہیں، ڈھٹائی نے بھی کیا کیا روپ دھارے، ہم تو اسی طرح لکھ لکھ کر فقط ایک لیکھ کی صورت صفحہ وطن پر لکھے رہ جائیں گے لیکن یہ بدنظمی و بدقماشی کیا تب بھی اسی طرح برقرار رہےگی، میرا خیال ہے کہ ہمیں اب تجزیوں کے گورکھ دھندے سے نکل کر زبان علم کو حقیقی انصاف رائج کرنے کی طرف موڑ دینا چاہئے، ورنہ داورمحشر معاف نہیں کرے گا۔جہاں 95مجرموں میں سے 5کو سزا ملے 95صاف نکل جائیں وہاں اسی طرح وہ عورت جو ہر روپ ہر عمر میں ماں ہے اس کی بے حرمتی ہوتی رہے گی ہم اس سے زیادہ اس دشت میں آگے نہیں جانا چاہتے کہ کاغذ بہت مہنگا ہے۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

لاثانی رویہ

سینئر صحافیوں کیخلاف نازیبا زبان، فیصل واوڈامعافی مانگیں، صحافتی تنظیمیں

ان سے کیا مانگنا جن کے پاس پڑھے لکھے چہرے بھی نہیں۔

٭...جنگ گروپ کی قومی خدمات، حکومت رویہ پر نظرثانی کرے،مقررین

جب نظر ہی نہ ہوگی تو ثانی کہاں سے آئے، رویہ ہی لاثانی ہے۔

تازہ ترین