• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنجاب میں بیورو کریسی میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں سے ایسا لگتا ہے جیسے مئی 11کے عام انتخابات صرف اسی صوبے میں ہور ہے ہیں اور مزید یہ کہ اہم پوزیشنوں پر تعینات افسران پنجاب میں ہی سب سے زیادہ ” سیاست زدہ “ تھے جبکہ وفاق اور دوسرے صوبوں میں بیوروکریسی انتہائی غیر جانبدار اور ایماندار ہے ۔ مگر پنجاب میں بہت سے ایسے افسران کو اہم پوسٹیں دی گئی ہیں جو یا تو پیپلزپارٹی اوریا قاف لیگ کے اہم رہنماؤں کے قریب سمجھے جاتے ہیں کیونکہ وہ ان کے ساتھ ایک عرصہ تک کام کرتے رہے ہیں۔ ان میں ایسے حضرات بھی موجود ہیں جن کو ان دو سیاسی جماعتوں نے پنجاب میں گورنر راج کے دوران تعینات کیا تھا ۔مقصد صرف یہ تھا کہ نون لیگ جس کی حکومت کو چلتا کیا گیا تھا کو لگام ڈالی جائے ۔ عبوری وزیراعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ کھل کر پیپلزپارٹی اور قاف لیگ کے اعلیٰ کار بن جائیں اور ایسے کام کرنے لگیں جن سے انتخابات کی شفافیت پر حرف آئے۔ تاہم بیوروکریسی میں حالیہ تبدیلیوں نے یہ ثابت کیا کہ وہ ان دونوں سیاسی جماعتوں کو خوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں حالانکہ نون لیگ نے بھی ان کی تقرری میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ ویسے بھی چند ہفتوں کے حکمران ہیں انہیں چاہئے کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کریں جو ان کے لئے ساری زندگی مسئلہ بنا رہے۔ ایسے افسر کو لاہور میں اہم عہدہ دینے کا کیا مطلب ہے جن کی بہن نوازشریف کے خلاف قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120میں تحریک انصاف کے امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہی ہیں ۔ اسی طرح ایک اور افسر کو تعینات کرنے کی کیا ضرورت تھی جن کے والد ایوان صدر میں ریٹائرمنٹ کے بعد کام کر رہے ہیں ۔ مزید یہ کہ ایک ایسا افسر جو قاف لیگ کے ایک امیدوار کا داماد ہے کو اہم عہدہ دینے کی کیوں سوجھی۔ یہ سارے اہم سوالات ہیں جو ان تعیناتیوں کی وجہ سے اٹھتے ہیں اور نیت پر شبہ ہونے لگتا ہے۔ یقینا نون لیگ ان سب تعیناتیوں کو غور سے مانیٹر کر رہی ہے۔ پہلے ہی سابق وزیراعلیٰ شہبازشریف ان پر اپنے تحفظات کااظہار کر چکے ہیں ۔
بدقسمتی کی بات ہے کہ ان تبدیلیوں سے یہ پیغام بھی ملتاہے کہ صرف پنجاب میں ہی بیوروکریسی سب سے زیادہ جانبدار تھی اور اس کے ایسے افسران کو کھڈے لائن لگانا اور صوبہ بدر کرنا شفاف الیکشن کے لئے انتہائی ضروری تھا ۔ حالانکہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں ۔ یہ نون لیگ کے مخالفین بھی مانتے ہیں کہ شہباز شریف انتظامیہ تمام وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں سب سے بہتر تھی جس نے ڈیلیورکیا ۔ بلاشبہ پنجاب کے نئے چیف سیکرٹری جاوید اقبال اچھی شہرت کے حامل افسر ہیں مگر ان کو گھیرا ایسے حضرات نے ڈال رکھا ہے جو پیپلزپارٹی اور قاف لیگ کے اہم رہنماؤں کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ مزیداری کی بات ہے کہ بہت سے افسران جو شہبازشریف کے ساتھ ایک عرصہ تک کام کرتے رہے کو عبوری حکومت کے آنے کے چند ہفتے قبل ہی انتہائی غیر اہم عہدوں پر لگا دیا گیا اور یہ ان حضرات کا اپنا فیصلہ تھاجنہوں نے وزیراعلیٰ کو مجبور کیا کہ وہ ان کے تبادلے کر دیں۔ مقصد یہ تھا کہ نئی حکومت کو کسی قسم کی کوئی شکایت کا موقع نہ ملے ۔ مگر اب ان تمام افسروں کو بھی صوبہ بدر کر دیا گیا ہے ۔
دوہرے معیار کی انتہا ہے کہ وفاقی سطح پر اور سندھ  خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بیوروکریسی میں قطعی طورپر کوئی تبدیلیاں نہیں کی گئیں بلکہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کا ذاتی اسٹاف بھی وہی ہے جو پہلے موجود تھا۔ اس کے علاوہ پیپلزپارٹی کے بے شمار کارڈ ہولڈرز جن کو سیاسی عہدوں سے نواز گیا تھا اور کچھ کو مختلف ممالک میں سفیر مقرر کیا گیا تھا بدستور کام کر رہے ہیں ۔ جان بوجھ کر ان کو اپنی جگہوں سے نہیں ہلایا گیا ۔ ہم سب کو علم ہے کہ بدانتظامی اور کرپشن کے لحاظ سے گزشتہ وفاقی حکومت اور سندھ کی انتظامیہ سرفہرست تھیں جن میں میرٹ کا جنازہ نکالا گیا مگر عبوری حکومتوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو اور زاہد قربان علوی جو ساری عمر پیپلزپارٹی کا نمک کھاتے رہے ہیں یہ توقع کرنا کہ وہ اسی جماعت کے پیاروں کو اہم عہدوں سے ہٹائیں گے بے وقوفانہ بات ہے ۔ کیا شفاف الیکشن کرانے کے لئے وفاقی سطح پر اور سندھ میں انتظامی تبدیلیوں کی قطعاً ضرورت نہیں ؟ الیکشن کمیشن کی بے بسی کی انتہا ہو گئی جب اس نے بہت سی اچھی شہرت رکھنے والا پنجاب کے سابق چیف سیکرٹری ناصر محمود کھوسہ کو سندھ کا چیف سیکرٹری مقرر کیا مگر وفاقی حکومت نے اس کا حکم ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا کیونکہ پیپلزپارٹی کے ہمدرد نگران نہیں چاہتے کہ اس کے پسندیدہ چیف سیکرٹری جو سندھ میں عرصہ سے کام کر رہے ہیں کو اپنی جگہ سے ہٹایا جائے۔تاہم ایسے افسر کی موجودگی میں الیکشن کی شفافیت خاک ہو گی۔ الیکشن کمیشن صرف ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے چاہئے تویہ تھا کہ یہ سندھ میں انتہائی سیاست زدہ انتظامی مشینری کی صفائی کے لئے ناصر محمود کھوسہ کی تعیناتی پر اصرار کرتامگر اس نے بالکل چپ سادھ لی ہے ۔ چاہئے تو یہ تھا کہ یہ چند منٹ میں یہ حکم دیتا کہ سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو گرفتار کیا جائے کیونکہ ان کے حمایتوں نے مبینہ طور پر ان کی ایما پر ان کے کاغذات نامزدگی پر اعتراض کرنے والے وکیل کو لہولہان کر دیا جو کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کر لیا مگرالیکشن کمیشن کے بابے لمی تان کر سو رہے ہیں یا بڑھاپے کی وجہ سے وہ اس قابل ہی نہیں کہ کوئی جرأت مندانہ فیصلہ کر سکیں۔ ان کو چاہئے تو یہ تھا کہ وفاقی اور سندھ حکومتوں کو مجبور کرتے کہ وہ بھی پنجاب کی طرز پر بیورو کریسی میں تبدیلیاں کریں تاکہ انتخابات شفاف ہو سکیں یا پنجاب میں بھی ایسی تبدیلیوں کو کالعدم قرار دے دیتا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔اس موقع پر جب کہ اصل انتخابی معرکہ پنجاب میں ہونا ہے جس سے ہی یہ فیصلہ بھی ہو گا کہ وفاق میں حکومت کون بنائے گا پر الیکشن کمیشن کی خاموشی ایک سنگین جرم سے کم نہیں ۔ کچھ سیاسی جماعتوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے انتظامی تبدیلیاں کرنا کسی طرح بھی انصاف کے زمرے میں نہیں آتا۔
الیکشن کمیشن نان ایشوز میں الجھا ہواہے مثلاً یہ کہ اس نے وزیر داخلہ ملک حبیب کے بیان کا نوٹس لیا ہے جس میں انہوں نے یہ کہا تھاکہ وہ تمام قومی لیڈروں بشمول نوازشریف کی سیکیورٹی کو بہتر کرنا چاہتے ہیں ۔ ایسے لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی  متحدہ قومی موومنٹ پاکستان تحریک انصاف اور قاف لیگ کے پاس نون لیگ کے خلاف کہنے کو کچھ نہیں لہذا انہوں نے ملک حبیب کے بیان کو ہی بہانہ بنا کراس کو آڑے ہاتھوں لیا ہے کہ وزیر داخلہ نے نوازشریف کو قومی لیڈر کیوں کہا۔ بھلا یہ کوئی بات ہے کہنے کی ۔ انہوں نے تو وزیر داخلہ کی برطرفی کا مطالبہ بھی کر دیا ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے نون لیگ تڑپ اٹھے کہ کسی وزیرنے عمران خان  چوہدری شجاعت  الطاف حسین اورآصف زرداری کو قومی لیڈر کہہ دیا ہے ۔پیپلزپارٹی اور قاف لیگ ملک حبیب کے بیان پر تنقید کر کے اس حقیقت کو چھپانا چاہتی ہیں کہ نگران دراصل اس کے ہمدرد ہیں۔ مگر ملک حبیب ہیں کہ ڈٹ گئے کہ انہوں نے جو کچھ کہا صحیح کہا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاق اور سندھ میں بھی وسیح پیمانے پر انتظامی تبدیلیاں کی جائیں تاکہ سب سیاسی جماعتوں کو انتخابی میدان ایک جیسا میسر ہو۔
تازہ ترین