• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

صراحی دار گردن

اس بار روایت سے ہٹ کر صرف ایک ہی شمارے پر تبصرہ کروں گا، کیوں کہ لاک ڈائون کی وجہ سےاخبارات کی ترسیل ہی بند ہے۔ اب اللہ جانے ہم کب تک ’’سنڈے میگزین‘‘ سے محروم رہیں گے اور ہاں، آپ کے پاس بھی ڈاک بہت محدود ہی پہنچے گی۔ اس شمارے سے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ غائب تھا۔ پلیز، یہ صفحہ مِس نہ کیا کریں۔ کورونا نے واقعی دنیا ہی بدل دی ہے۔ ’’سُپر پاور‘‘ تک کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ اللہ پاک اس مُوذی سےجلد نجات دے۔ پنجاب یونی ورسٹی کا نیا چہرہ واقعی قابلِ ستائش اور شان دار ہے۔ ’’عجائب خانہ‘‘ کا ’’خیال کہاں سے آتا ہے؟‘‘ بہترین موضوع ہے۔ ’’اسٹائل‘‘ کی ماڈل لیلیٰ داستان کافی خُوب صُورت لگیں، خاص طور پر اُن کی صراحی دار گردن کے تو کیا کہنے۔ سبیتا مشتاق اپنے مضمون میں درست فرمارہی تھیں کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ محض ایک جملہ نہیں، اَن گنت خوابوں، ارمانوں کا قاتل جملہ ہے۔ ڈاکٹراقبال پیرزادہ نے تپ دق کے مریضوں کو بہترین ٹپس دیں۔ آپ نواب زادہ خادم ملک اور پروفیسرحمیدی کو جتنا مرضی سمجھالیں، اُن کے کانوں پر جوں نہیں رینگے گی۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج:جی، کورونا نے دنیا ضرور بدل دی، لیکن نہیں بدلی تو مرد کی فطرت، جو کبھی عورت کی گردن میں صراحی ڈھونڈ لیتی ہے، تو کبھی آنکھوں میں مےخانہ۔

استاد کا علم و فضل، درجات

سنڈےمیگزین کافی عرصے سے زیرِ مطالعہ ہے، مگر خط لکھنے کی جسارت پہلی بار کر رہی ہوں اور اس جسارت کی محرّک ہے، آپ کی وہ تحریر، جو آپ نےاحفاظ الرحمٰن صاحب سے متعلق لکھی۔ جب احفاظ صاحب کی شاگردہ یعنی کہ آپ کی تحریر ندی کےپانی کی طرح صاف و شفّاف، قطرہ قطرہ موتی معلوم ہوتی ہے، تو استاد کے علم و فضل، درجات کا تو کیا ہی عالم ہوگا۔ بہرحال، آپ نے حقِ شاگردی ادا کردیا۔ اُن سےمتعلق جو الفاظ کے اُجلے، سچّے موتی بکھیرے۔ یک جا کرکے باآسانی ایک حسین مالا پروئی جاسکتی ہے۔ دوسری بات، کچھ لوگوں کے انٹرویوز پڑھنے کی خواہش ہے، مثلاً وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، آرمی چیف قمر جاوید باجوہ، اداکارہ حرامانی اور اداکارہ سارہ رضی کا۔ اپنی ایک تحریر بھیجی ہے، قابلِ اشاعت ہو، تو شامل کرلیجیے گا۔ ’’مدرز ڈے ایڈیشن‘‘ میں شفق رفیع نے بہت عُمدہ فیچر تحریر کیا۔ واقعی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دوسروں کی جانیں بچانے و الی مائوں، بیٹیوں کو سلام ہی پیش کرنا چاہیے۔ ’’سفید کوّے‘‘ خاصا منفرد نام ہے۔ عرفان جاوید شاید جانتے ہیں کہ لوگ دل چسپ عنوانات دیکھ کر ہی تحریر پڑھنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ سینٹر اسپریڈ میں ہر بار کی طرح اس بار بھی آپ نے کمال کردیا۔ سلمیٰ خان سے ملاقات دل چسپ رہی۔ پر سرورق کی تصویر صحیح منتخب نہیں کی آپ نے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں اسماء خان دمڑ، محمد سلیم راجا کے تبصرے قابلِ تعریف تھے۔ (بسمہ شانزے پارس نواب، کورنگی، کراچی)

ج:خوش آمدید بسمہ! پہلی بار بزم میں آئی ہیں۔ تحریر میں بہتری کی گنجائش ہے، لیکن لکھتی رہیں گی، تواچھا لکھنے لگیں گی۔

صفحہ صفحہ، سطر سطر، حرف حرف

پہلی بار ایسا ہوا کہ مَیں نے کوئی تحریر پانچ بار پڑھی ہے اور وہ تحریر ہے، اپنے اُستاد، احفاظ الرحمٰن سے متعلق آپ کی تحریر۔ اسی تحریر سے آپ کے خُوب صُورت اندازِ بیاں کا بھی راز عیاں ہوا۔ مَیں چوں کہ خود تقریر و تحریر کا دِل دادہ ہوں، تو کسی عُمدہ تحریر کی توصیف ضروری سمجھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ احفاظ الرحمٰن صاحب کو غریق ِرحمت کرے۔ ہاں، ایک بات اور، جب سے آپ کا میگزین اس قدر سِلم، اسمارٹ ہوا ہے، میری دانست میں تو صفحہ صفحہ، سطر سطر بلکہ حرف حرف خُوشبو کی طرح مہکنے لگا ہے۔ شاید ایک وجہ یہ ہے کہ آپ اور آپ کی ٹیم سے ورک لوڈ کم ہوا ہے، تو ہر تحریر پر بھرپور توجّہ دی جارہی ہے۔ (محمد اسلم بھٹی، سونی پورہ، سرگودھا)

ج:تحریر کی پسندیدگی کا شکریہ۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کا تجزیہ دُرست ہو۔ چوں کہ اِن دنوں بیش تر افراد ’’ورک فرام ہوم‘‘ کے تحت ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ ہر وقت کی بھاگ دوڑ، افراتفری کے بجائے نسبتاً پرُسکون ماحول میں کام ہورہا ہے، تو ممکن ہے غیرارادی طور پر ہی معیار میں بہتری آگئی ہو۔

اغوا ہوگیا ہے

آپ کے بارے میں جب بھی خیال آیا، تو یہی آیا کہ ایک میم جی اخبارات و رسائل کے ڈھیر کے ساتھ خطوط کے انبار میں گِھری، ایک عدد ریوالونگ چیئر پر ایک بال پین ہاتھ میں پکڑے، کچھ سوچتی ہوئی سی بیٹھی ہوں گی۔ خیر، معذرت تمہید کچھ لمبی ہوگئی۔ بات یہ کرنی تھی کہ آپ کی شاہ کار تحریر ’’عدالتِ عظمیٰ کا سوموٹو‘‘ پڑھی، بخدا کیا لکھتی ہیں آپ۔ کم کم لکھتی ہیں، مگر جب لکھتی ہیں، یہی کہنے کو جی چاہتا ہے۔ ’’وہ آیا، اُس نے دیکھا اور اُس نے فتح کرلیا‘‘ آپ تو اپنے اندازِ بیاں سے دِلوں کے قلعے فتح کرلیتی ہیں۔ مَیں اور میری سب سہیلیاں آپ کے طرزِ تحریر کی مدّاح ہیں۔ جب میگزین میں آپ کا کوئی رائٹ اَپ شامل ہوتا ہے، تو وہ ایک رائٹ اَپ پورے میگزین پر بازی لے جاتا ہے۔ ’’شوبز اسٹار اور قیدِ تنہائی‘‘ بھی عُمدہ سروے تھا۔ عرفان جاوید کے اندازِ تحریر کا بھی جواب نہیں اور ’’عبداللہ‘‘ تو اغوا ہی ہوگیا ہے۔ کوئی تاوان وغیرہ دے کے’’مُک مکا‘‘ ہوسکتا ہے، تو کرلیں۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر تو سب آپ کے ہی براجمان رہتے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ ہمیں بھی کسی کونے کھانچے میں جگہ ملتی ہے یا نہیں۔ اور آخر میں اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ ’’اے اللہ پاک! دُنیا کو اس وائرس سے محفوظ فرمادے۔‘‘ (ناز جعفری، بفرزون، کراچی)

ج:ہمارا تو آپ نے کسی حد تک دُرست ہی نقشہ کھینچا۔ تحریر کی تعریف و توصیف کا بےحد شکریہ۔ اور اغوا شدہ کو تو اب آپ لاپتا ہی سمجھیں۔ یعنی ’’مِسنگ پرسنز‘‘ میں ایک اور اضافہ۔

گھریلو خواتین کا کاغذ قلم

خداوندِ تعالیٰ کی ذات سے اُمید کرتی ہوں کہ تم خیریت سے ہوگی۔ اللہ کرے ہمیشہ ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ کے اُفق پر یوں ہی جگمگاتی رہو۔ تمہارا یہ میگزین، جو ہمارا بھی ہے، بہت پیارا اور منفرد جریدہ ہے۔ شمارے پر تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔ سب سے پہلے ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کا سیرحاصل مضمون پڑھا۔ انتہائی عُمدہ، بھرپور تجزیہ تھا۔ اشاعتِ خصوصی میں ’’قراردادِلاہور‘‘ پر مجیب الرحمٰن صدیقی نے اچھا لکھا۔ اکرام الحق چوہدری، لاہور سے’’مینار پاکستان کی کہانی‘‘ لے کر آئے، تو منصور آفاق نے ’’پنجاب یونی ورسٹی کا نیا چہرہ‘‘ دکھایا۔ واقعی، جامعہ پنجاب برسوں سے مُلک و قوم کا مستقبل سنوارنے میں سرگرمِ عمل ہے۔ رئوف ظفر کی کہانی بھی دل چسپ تھی۔ ڈاکٹر اقبال پیرزادہ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں عالمی یوم کی مناسبت سے خاص تحریر لے کر آئے۔ ڈاکٹر محمّد عمران یوسف کا مضمون ’’بے خوابی بے سبب نہیں‘‘ بھی خاصا معلوماتی تھا۔ عرفان جاوید کا خیال تو پتا نہیں کہاں سے آتا ہے۔ بہت ہی دل چسپ، معلوماتی سلسلہ ہے، جس کا ہر ہفتے انتظار رہتا ہے۔ ’’لازم و ملزوم‘‘ میں ڈاکٹر قمر عباس، اکبر کے نورَتنوں میں سے ایک کا احوال سُنا رہے تھے، تو اب آتے ہیں اپنے پسندیدہ صفحے ’’پیارا گھر‘‘کی طرف، مصباح طیّب نے آسان الفاظ میں اچھا مضمون لکھا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں نئے لکھنے والوں میں محمّد مبین امجد ایک اچھا اضافہ ہیں۔ نہایت پرُاثر افسانہ لکھا۔ محمّد ہمایوں ظفر کے مرتّب کردہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے تینوں واقعات بھی سبق آموزتھے۔ سبیتامشتاق کا کہنا بجا، ’’لوگ کیاکہیں گے؟‘‘ واقعی محض ایک جملہ نہیں، زندگیاں متاثرکردینےوالا رویّہ ہے۔ اور’’آپ کا صفحہ‘‘ جو درحقیقت ہمارا ہی صفحہ ہے، میگزین کی جان ہے کہ اسی نےتو ہم جیسی گھریلو خواتین کا بھی کاغذ قلم سے رشتہ جوڑ دیا ہے۔ آصف حسن نے بغیر نقطوں کا خط لکھا، زبردست بھئی۔ یہ آئیڈیا تو کبھی ہمارے ذہن تک میں نہیں آیا۔ (خالدہ سمیع، گلستان جوہر، کراچی)

ج:ارے، یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ کوئی گھریلو خاتون ہو یا ملازمت پیشہ، کاغذ قلم سے رشتہ تو کسی کا بھی، کبھی بھی نہیں ٹوٹنا چاہیے۔

زلفِ گرہ گیر کے اسیر

اللہ رب العرش العظیم سے دُعا ہے کہ وہ، آپ، آپ کے اہلِ خانہ و اراکین و جملہ سن ڈے میگزین و ادارئہ روزنامہ جنگ اور جملہ وابستگان الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا سب کو ہر پَل، ہر لحاظ سے آسُودہ حال، اپنی بہترین نعمتوں، برکتوں، سہولتوں اور انعامات کے نزول میں رکھے۔ تازہ شمارہ اپنے موضوع، مواد، جاذبِ نظر سرورق اور انتہائی باریک بینی سے منتخب کردہ بہترین، ترتیب وار سلسلوں کے سبب لاجواب ہے۔ بیش تر تحریریں کورونا ہی کےاردگردگھومتی نظرآئیں، البتہ سمیحہ راحیل قاضی کا اندازِ تحریر زبردست ہے۔ ’’اسٹائل‘‘ کا لے آئوٹ، ماڈل، ملبوسات سب ہی کمال تھے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘میں ’’آگیاسرچشمۂ فضلِ خدا ماہِ رمضان‘‘ پڑھا، دل چسپی اور روانی کے سبب بہت پسند آیا۔ رائو محمّد شاہد نے ’’دل چسپ لاک ڈائون‘‘ کا احوال بیان کیا، تو منور مرزا ریاستی نظم و ضبط کو لاحق چند خطرات و حادثات کا ذکر کر رہے ہیں، ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ خوشبوئوں، رنگوں کا ایک حسین رُوپہلا انتخاب معلوم ہوا۔ ’’اِک رشتہ، اک کہانی‘‘ کےتحت، اس ہفتے جناب احفاظ الرحمٰن کے بارے میں لکھا گیا، بلاشبہ وہ ایک عہد ساز دَور کے نمائندہ صحافی اور انتہائی زیرک، دانش وَر اور محنتی انسان رہے، ہمیشہ اُصولوں پر مبنی کام یاب صحافت کی اور روزنامہ جنگ، کراچی کی اشاعت کو بھی مسلسل بڑھانے کی مساعی فرماتے رہے، آج کل کے میڈیا میں صبح و شام شور مچاتے، اپنے عشق اور چہرہ نمائی کےخبط میں مبتلا لوگ شاید جانتے بھی نہ ہوں کہ احفاظ الرحمٰن، منہاج برنا اور نثار عثمانی کون تھے؟ جاننے کی ضرورت بھی بھلاکیاہے؟ وہ زمانےگئے،جب صحافت کےوقارکی جنگیں لڑی جاتی تھیں۔ صحافیوں کے حقوق اور اظہارِ رائے کی آزادی کے لیےگرفتاریاں دی جاتی تھیں۔کوڑے کھائے جاتے، بھوک ہڑتالیں کی جاتی تھیں۔ اب تو ’’دربار‘‘ کے ایک اشارے پر لوگ، ایک دوسرے کو روندتے، کچلتےبھاگتےنظر آتے ہیں۔ احفاظ الرحمٰن جیسی عہد ساز شخصیت اب اس ’’سیاہ دَورِ صحافت‘‘ میں کہاں؟ احتشام انور ’’زبانوں کا ارتقاء‘‘ اور بڑھوتری لائے۔ ہمایوں ظفر ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کی تین دل چسپ، سیق آموز کہانیاں پڑھوا گئے اور یہ سارا سن ڈے میگزین، جس واحد، روشن منظر نامے کے لیےسجایا جاتا ہے، سبھی قارئین اُس ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی زُلف گرہ گیر کے دیرینہ اسیر ہیں۔ (پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی، گلبرگ ٹاؤن، کراچی)

                                                                                        فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

شمارہ کھولتے ہی جہاں اور تحریروں نے دل و دماغ مہکایا، وہیں آپ کی رُوح پرور تحریر’’میرے روحانی باپ، احفاظ الرحمٰن صاحب‘‘ نے تمام تر توجّہ اپنی طرف کھینچ لی۔ بیتے لمحوں کی کہانی اور ایسا گداز، ایسی روانی کہ کچھ دیر کے لیے تو مَیں تحریر میں ڈوب کرہی رہ گئی۔ احفاظ الرحمٰن کی شخصیت کا احاطہ آپ نے جس خُوبی سے کیا اور ان کا پیکرِ صحافت جس عُمدگی سے تراشا، اُس نے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ گلہائے ادب کے قد آدم درخت، جب سایہ دیتے ہیں، تو نئی کونپلیں کیسے اُن کے سائے تلے ادب کی دنیا میں تخلیق کے نئے پھول کھلاتی ہیں۔ آپ کی تحریر کا ایک ایک لفظ بتا رہا تھا کہ آپ کو اس عروج تک پہنچانے میں اُن کی شخصیت کا کس قدر عمل دخل ہے۔ تحریر کے آغاز میں آپ نے اُن کے آفس میں قدم رکھنے کا لکھا، تو یقین کریں ساتھ ساتھ میرا بھی دل دھڑک رہا تھا کہ جانے اگلے پَل کیا ہوگا۔ اور یہی لکھنے والے کا کمال ہوتا ہے کہ وہ پڑھنے والے کو اپنے خیالات کی اُڑان میں کہاں تک ساتھ لے جاسکتا ہے۔ بلاشبہ، اللہ پاک نے احفاظ صاحب کو جوہرشناس نظریں دی تھیں، تو آپ کو بھی آپ کی اَن تھک محنتوں کا صلہ مل گیا۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ کو اپنی تعریف کچھ زیادہ پسند نہیں، لیکن کیا کریں، اچھوں کو اچھا نہ کہنا بھی تو کم ظرفی ہوتی ہے۔ آپ کے لیے دُعا ہے ؎ اللہ کرے زورِقلم اور زیادہ۔ ہماری تو ہر قاری سے درخواست ہے کہ وہ احفاظ الرحمٰن سے متعلق آپ کی وہ تحریر ضرور پڑھے۔ اگلا شمارہ بھی اپنی تمام تر رعنائیوں اور آب و تاب کےساتھ جلوہ گر ہوا۔ گوشۂ ادب میں تحریری پھولوں کی ایسی مہکار کہ ہر پھول ہی کی خُوشبو اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ سرچشمۂ ہدایت، حالات و واقعات، ہیلتھ اینڈ فٹنس، عجائب خانہ، اسٹائل، پیارا گھر، ڈائجسٹ، غرض کہ اِک دنیا آباد نظر آئی، اس چھوٹے سے ’’سنڈے میگزین‘‘ میں۔ تب ہی تو جانے یہ کتنے دِلوں کی دھڑکن بن چُکاہے۔ عالمی وبا اور دماغی و اعصابی کشیدگی پہ ابصار فاطمہ کا مضمون موجودہ صورتِ حال کی صحیح عکاسی و رہنمائی کرتا نظر آیا۔ ریاستِ مدینہ میں غربت و بھوک پر تحریر نے بے حد متاثر کیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں اپنی دُعا کی اشاعت دیکھ کر دلی مسّرت ہوئی۔ اللہ کے فضل و کرم اور آپ کی وساطت سے میری دعا گھر گھر پہنچ گئی۔ مئی 1984ء کے بعد مئی 2020ء میں میرا سویا ہوا قلم جاگا اور ماضی کی دُھند میں کھویا ہوا نام بازیاب ہوا، تو جیسے میں خود زندہ ہوگئی۔ اور اس نئے جیون پر مَیں آپ کی بے حد شُکر گزار اور ممنون ہوں۔ (نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)

ج: آپ کو کافی پہلے یہ ہمّت کرلینی چاہیے تھی۔ مانا کہ آپ پر جو بیتی، وہ کسی قیامتِ صغریٰ سے کم نہیں، لیکن جیتے جی مَرا بھی تو نہیں جاسکتا۔ کون ہے اس جہاں میں، جو اپنے اپنے غموں کی گٹھریاں، کمر پہ لادے چلا نہیں جارہا۔ لوگوں کے دُکھ سُنیں گی ناں، تو اپنا دُکھ چھوٹا معلوم ہوگا۔ اب قلم اٹھا ہی لیا ہے، تو رکھنے کا مت سوچیے گا۔ بس، ایک بات کا خیال رہے، آپ جو تحریر ہمیں بھیجیں، جب تک ہم اس کی اشاعت یا عدم اشاعت سے متعلق آپ کو مطلع نہ کر دیں، آپ وہ تحریر کہیں اورنہ بھیجیں۔ جیساکہ ’’دُعا‘‘ کے موضوع پر لکھی گئی آپ کی تحریر ایک معاصر میں بھی چھپی دکھائی دی۔

گوشہ برقی خُطوط
  • میگزین کا جواب نہیں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ ہر بار کی طرح لاجواب تھا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ’’کورونا جنگ کے بے تیغ سپاہی‘‘ ایک شاہ کار تحریر تھی۔ انصار برنی سے بات چیت بھی بہت پسند آئی، پیارا گھر، ڈائجسٹ کے صفحات بھی خُوب رہے۔ (مصباح رانی)
  • 10مئی کے شمارےمیں ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے ’’فیمینزم‘‘ کے مقابلے میں جان دار نعرے ’’فیمیلزم‘‘ کا تعارف کروا کر پاک باز مسلمان خواتین کو بہت اعتماد عطا کیا۔ اور پھر آپ نے بھی ایک خط کے جواب میں بہت ہی شان دار بات کہی کہ ’’ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت اگر چند خواتین بے لگام آزادی کے مطالبات لے کر گھروں سے نکل بھی آئی ہیں، تو وہ اکثریت کی نمائندہ ہرگز نہیں۔‘‘ اللہ پاک آپ دونوں خواتین کو ایسی سوچ رکھنے پر اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ (رضی الدین سیّد)
  • کیا مَیں آپ کو ای میل کے ذریعے اپنی کہانی بھیج سکتی ہوں؟ (کے کیو قیصرانی، سریاب مل کالونی، کوئٹہ)

ج:جی کیوں نہیں!

  • ایک عرصے سے میگزین کی قاریہ ہوں، ہمیشہ ہی سب سلسلے بہت ذوق و شوق سے پڑھتی ہوں، مگر ان دنوں لاک ڈائون میں جس قدر نعمت و غنیمت یہ جریدہ معلوم ہوا، اور کچھ نہ تھا۔ اللہ آپ لوگوں کو آپ کی محنتوں کا بہترین ثمر و اجر دے۔ سرچشمۂ ہدایت سے لے کر انٹرویو، پیارا گھر، ڈائجسٹ اور آپ کا صفحہ تک ہر ہر سلسلہ سیدھا دل میں اُترتا ہے، بہت کوشش بھی کروں، تو کم ہی کوئی غلطی، کوتاہی ڈھونڈ پاتی ہوں۔ (قرأت نقوی، ٹیکساس، یو ایس اے)
  • مَیں نے آپ کےجریدے کے’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سلسلے میں ڈاکٹر زیبا افتخار کے تحریرکردہ مضمون کا مطالعہ کیا۔ جو کہ امام محمّد بن حسن فرقد شیبانی سے متعلق لکھا گیا۔ مضمون میں جس کتاب ’’المبسوط‘‘ کا حوالہ دیا گیا، وہ دراصل امام سرخسی نے دورانِ اسیری اپنے پیروکاروں اور طلبہ کو املا کروائی تھی، جسے مضمون میں امام فرقد سے منسوب کردیا گیا، جو کہ قطعاً غلط ہے۔ نیز، مضمون میں کتاب کےتذکرے کےساتھ امام سرخسی کا ذکر بھی لازماً ہونا چاہیے تھا۔ (محمد قاسم ثناء اللہ، گلستانِ جوہر، کراچی)

ج: آپ کی شکایت کا ڈاکٹر زیبا افتخار کی طرف سے جو جواب موصول ہوا ہے، بعینہ درج کیا جارہا ہے۔ ’’آپ کے اعتراضات سے ایک بات کی خوشی ہوئی کہ آپ نے مضمون کا مطالعہ کیا ہے، لیکن افسوس اس بات کا ہوا کہ مطالعہ سرسری انداز میں کیا گیا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ یہ مضمون فرقد شیبانی پر نہیں، بلکہ اُن کے فرزند، محمّد پر لکھا گیا، جو امام محمّد کے نام سے معروف ہیں۔ امام سرخسی کا دَور، امام محمّد کے بعد کا ہے اور امام سرخسی کی ’’المبسوط‘‘ ایک علیٰحدہ کتاب ہے۔ امام محمّد کی مشہورِ زمانہ کتاب ’’الاصل‘‘ کو ’’المبسوط‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور اس کا حوالہ ابنِ ندیم میں دیکھاجا سکتا ہے۔ نیز، ڈاکٹر محمّد الدسوقی کی کتاب ’’امام محمّد بن شیبانی اور ان کی فقہی خدمات‘‘ کےصفحہ نمبر 124-189پر بھی موجود ہے۔ میرے مضمون میں کہیں نہیں لکھا گیا کہ کتاب امام فرقد نے املا کروائی۔ یہ امام محمّد نے املا کروائی تھی اور تب وہ قید میں نہیں تھے۔ امام محمّد کی ’’المبسوط‘‘ کا قدیم ترین نسخہ ترکی میں موجود ہے۔ جہاں تک بات امام سرخسی کی ’’المبسوط‘‘ کی ہے، تو انہوں نے دراصل امام محمّد کی ’’الاصل یا المبسوط‘‘ ہی کو بنیاد بنایا ہے اور وہ اکثر مقامات پر اُن ہی کے الفاظ اور آثار نقل کرتے ہیں۔ آخری بات یہ کہ مضمون چوں کہ امام محمّد پر لکھا گیا، تو اُس میں امام سرخسی کا تذکرہ لازم نہیں ٹھہرتا۔‘‘

قارئینِ کرام!

 ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

تازہ ترین