• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

قیامِ پاکستان کے تین برس بعد ہم 1950ء میں بھارت کے شہر، شاہ جہاں پور سے ہجرت کرکے پاکستان پہنچے۔ تقسیمِ ہند سے قبل میرے دادا گائوں کے بڑے زمین دار تھے۔ وہ اپنے قصبے اودھ پور کے سرپنچ اور شاہ جہاں پور کی سیشن عدالت میں جیوری ممبر بھی تھے۔ ضلع بھر میں ان کا بہت اثر ورسوخ تھا۔ دادا کے ساتھ پاکستان ہجرت کرنے والے دس خاندانوں پر مشتمل عزیز و اقارب گائوں میں پشتوں سے اپنی زمینوں کے مالک تھے۔ پاکستان آکر سب ایک قصبے احمدنگر (سرگودھا) میں آباد ہوگئے۔ میں اس وقت بہت چھوٹی تھی۔ مجھے تعلیم کا بہت شوق تھا، میٹرک پاس کرتے ہی امّاں ابّا کو میری شادی کی فکر لاحق ہوگئی۔ ہمارا خاندان کافی بڑا تھا۔ سبھی لڑکے پڑھ لکھ گئے تھے۔ میرے لیے کئی ایک رشتے عزیز و اقارب کے علاوہ غیر خاندانوں سے بھی آئے، مگر مَیں جب بھی پردے کی اوٹ سے کسی لڑکے کو دیکھتی، شادی سے انکار کردیتی، مجھے کوئی لڑکا پسند ہی نہیں آتا تھا۔ 

اکثر میری والدہ تنگ آکر کہتیں کہ ’’اب تمہارے لیے کوئی شہزادہ تو آسمان سے نہیں اترے گا۔‘‘ تو میں کہتی ’’شادی کروں گی، تو کسی قبول صورت لڑکے سے کروں گی یا پھر ساری عمر اسی طرح گزار دوں گی۔‘‘ والدہ میرے اس طرزِ عمل سے سخت پریشان تھیں۔ ہمارے گائوں میں ایک غریب پشتو فیملی بھی مقیم تھی۔ اس گھرانے کے سربراہ پنجاب یونی ورسٹی سے ایم اے عربی تھے۔ وہ ہندوستان میں ٹیچر تھے، لیکن پاکستان ہجرت کرنے کے بعد سے بے روزگار تھے، جس کی وجہ سے ان کے گھر میں غربت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ کئی کئی روز کے فاقے ہوتے۔ 

ان کے بڑے بیٹے نے جیسے تیسے میٹرک پاس کرلیا۔ گائوں میں کوئی روزگار ملنا مشکل تھا، لہٰذا کسی سے 10روپے قرض لے کر کراچی چلا گیااور ایک کمپنی میں بطور ہیلپر ملازم ہوگیا۔ کچھ عرصے بعد اس کی والدہ ہمارے گھر رشتہ لینے آئیں، لڑکا قبول صورت تھا، ماں نے مجھ سے پوچھا، تو میں خاموش رہی، وہ سمجھ گئیں کہ بیٹی راضی ہے، چناں چہ میری وہاں شادی ہوگئی اور مَیں شوہر کے ساتھ کراچی چلی آئی۔

اللہ تعالیٰ نے کرم کیا، انہیں سرکاری محکمے میں60روپے ماہ وارپر کلرک کی ملازمت مل گئی۔ 30روپے منہگائی الائونس ملتا۔ یوں کل90روپے تن خواہ ہوجاتی، جن میں سے وہ 30روپے ہر ماہ اپنی والدہ کو گائوں بھیج دیتے۔ گائوں میں صرف والدہ اور ایک ذہنی معذور بہن تھی۔ کچھ عرصے بعد میرے شوہر نے کافی تگ و دو کے بعد اپنا تبادلہ لاہور کروالیا۔ جہاں شہر کے مضافات میں دو کمرے کا سرکاری کوارٹر بھی محکمے کی طرف سے مل گیا۔ لاہور شفٹ ہونے سے کچھ عرصہ قبل کراچی میں میرا بیٹا پیدا ہوچکا تھا۔ وہ ایک برس کا تھا، ہم فرش پر دری پر سویا کرتے تھے، گھر میں کوئی چارپائی نہیں تھی۔ دو چار سلور کے برتن تھے، مٹّی کا چولہا جلایا کرتے۔ مگر مَیں نے ہمیشہ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوکر اُسی سے مدد چاہی، کبھی ماں باپ سے ذکر نہیں کیا کہ تنگ دستی اور تکلیف میں ہوں۔ 

ہمارا سرکاری کوارٹر آبادی سے دُور کھیتوں میں تھا۔ شوہر کو روزانہ صبح قریباً ایک میل پیدل چل کر بس اسٹینڈ تک جانا پڑتا۔ زندگی اسی کس مپرسی میں گزر رہی تھی کہ ایک روز میرے شوہر خوشی خوشی گھر داخل ہوئے۔اُن کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سیاہ بیگ تھا، اُسے ایک طرف رکھتے ہوئے مجھ سے کہا ’’آج سے تمہارے سارے دلدّر دُور ہوگئے۔‘‘ مَیں نے خوشی اور حیرت سے پوچھا، ’’وہ کیسے؟‘‘ تو انہوں نے بیگ کھول کر مجھے دکھایا، جس میں زیورات کے کئی سیٹ، سونے کی انگوٹھیاں، ہار وغیرہ کے ساتھ کثیر تعداد میں نقدی بھی موجود تھی۔ مَیں نے پریشانی کے عالم میں پوچھا کہ ’’یہ آپ کہاں سے اٹھا لائے ہیں۔‘‘ تو انہوں نے کہا ’’تمہیں اس سے کیا! تم اپنی ضرورتیں پوری کرو۔‘‘ لیکن جب میں نے اصرار کیا، تو انہوں نے بتایا کہ کس طرح انہیں یہ راستے میں پڑا ملا۔ 

میں نے یہ سنتے ہی ان سے کہا ’’ابھی جائیں اور جس کا بھی یہ بیگ ہے، اسے دے کر آئیں۔ مجھے کسی کی بددعائیں نہیں چاہئیں۔‘‘ میرے مسلسل اصرار پر انہوں نے بیگ کی تلاشی لی، تو ایک لفافہ برآمد ہوا، جس پر اس کے مالک کا پتا درج تھا۔ شوہر میری ایمان داری سے خاصے مرعوب ہوگئے اور زیورات سے بھرا بیگ میرے حوالے کرکے فوراً الٹے قدموں لفافے پر درج پتے پر جاپہنچے۔ وہاں ایک شخص نے دروازہ کھولا، اس سے پوچھ گچھ کی، تو اس نے بتایا کہ میرے گھر والے بارات لے کر سرگودھا جارہے تھے، وہ اپنی بہن، بہنوئی اور بچّوں کو بھی بارات کے ساتھ لے جانے کے لیے سمن آباد پہنچے، تو اس دوران زیورات کا بیگ راستے میں کہیں گرگیا، جس میں دلہن اور گھر کی کچھ خواتین کے زیورات سمیت کچھ نقدی بھی تھی۔ بیگ گم ہوجانے کی وجہ سے سب ہی بڑے پریشان ہیں۔ تفصیلات معلوم ہوجانے پر میرے شوہر اس شخص کو اپنا پتا اور یہ پیغام دے کرگھر آگئے کہ جس کا بھی بیگ ہے، نشانی بتا کر لے جائیں۔ اگلے روز دو عورتیں ہانپتی کانپتی ہمارے گھر آئیں، اُن کے ساتھ دو مرد بھی تھے۔ اُن کے چہرے پر سخت پریشانی کے ساتھ امید وبیم کی کیفیت سی تھی۔ 

بہرحال، ہم نے اچھی طرح تسلّی کے بعد بیگ اُن کے حوالے کیا، توفرطِ جذبات سے دونوں عورتیں رو پڑیں، تشکّر کے جذبات سے لبریز وہ بار بار ہمیں دعائیں دے رہی تھیں، جب ہم نے اُن سے کہا کہ زیور اورپیسے گن لیں، تو کہنے لگیں ’’بس ٹھیک ہے،آپ جیسے ایمان دار لوگوں سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ آپ نے اس میں سے کچھ نکالا ہوگا۔‘‘ لیکن میرے اصرارپر انہوں نے سب کے سامنے زیورات اور رقم گننے کے بعد یہ لکھ کر دیا کہ ’’ہمیں اپنے گُم شدہ تمام زیورات اور نقدی مل گئی۔ ہم صادقہ بیگم اور ان کے شُکر گزار ہیں، جن کی ایمان داری کے نتیجے میں ہم ایک بڑے نقصان سے بچ گئے۔‘‘ یہ تحریر 50سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی میری ڈائری میں اب تک محفوظ ہے۔ وہ عورتیں جاتے ہوئے کچھ پیسے دینے لگیں، تو مَیں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر ہمیں کچھ لینا ہوتا، تو آپ کا سارا سامان ہی رکھ لیتے، اس کا صلہ ہمیں ہمارا رب ہی دے گا۔‘‘

میرے اس دو کمرے کے چھوٹے سے کوارٹر پر اپنے پرائے بلاتفریق مسلم، غیر مسلم بھی آکر ٹھہرتے۔ مَیں اُن کی بلا چوں چراں خدمت کرتی، اُن کے لیے روٹیاں پکاتی، کپڑے دھوتی۔ ایسا بھی ہوا کہ سالن تھوڑا تھا، تو مہمان کو دے دیا اور ہم نے سوکھی روٹی کھاکر گزارہ کیا۔ چوں کہ میں لاہور میں60 کی دہائی سے مقیم تھی، یہاں عزیز و اقارب اور دوست احباب کالجز میں داخلے اور دفتری معاملات کے سلسلے میں سال بھر آتے جاتے رہتے تھے، تو کسی کے پاس رہائش کا وسیلہ نہیں ہوتا۔ یوں میرا چھوٹا سا کوارٹر خدمتِ خلق کا گہوارہ بن گیا۔ متعدد بار ایسا بھی ہوا کہ دو چھوٹے سے کمروں میں مہمان آرام کر رہے ہوتے اور ہم میاں بیوی بغیر پنکھے کے سوتے، بعض اوقات تو اتنے مہمان آجاتے کہ ہم میاں بیوی اور بچّوں کو باورچی خانے میں بوری بچھا کر سونا پڑتا۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار ایسے واقعات پیش آئے۔بہرحال مَیں نے اور میرے خاوند نے بغیر کسی تفریق کے خدمتِ خلق کو شعار بنائے رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم پر آج اللہ کی اس قدر عنایات ہیں کہ جن کا جتنا شُکر ادا کیا جائے، کم ہے۔ یہاں رہائش کے دوران ہی ایک روز میرے دروازے پردستک ہوئی۔ 

گرمی کا موسم تھا، ہم کھانا کھا چکے تھے۔ میں دروازے پر گئی، دیکھا ایک فرشتہ صورت، سفید باریش بزرگ باہر کڑکتی دھوپ میں سفید رنگ کی پوشاک پہنے کھڑے تھے۔ مجھ سے کہنے لگے ’’بیٹی! بھوکا ہوں، مجھے کھانا کھلادے۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’بابا جی! سالن تو گھر میں موجود ہے، سامنے تنور سے روٹی منگوا دیتی ہوں، آپ یہاں بیٹھ جائیں۔‘‘ اُن کے ہاتھ میں سو سو کے دو نوٹ تھے، کہنے لگے ’’بیٹی! مجھے تمہارے ہاتھ کی پکی روٹی کھانی ہے، یہ دو سو روپے تم رکھ لو۔‘‘ وہ مجھے دینے پر مُصر تھے، لیکن میں نے نہیں لیے۔ مَیں نے کہا ’’بابا جی مَیں اپنے ہاتھ سے روٹی آپ کو پکا کر کھلا دوں گی، لیکن یہ پیسے نہیں لوں گی۔‘‘ میں نے جلدی جلدی دو روٹیاں پکائیں، سالن گرم کیا۔ 

ٹرے میں رکھ کر دروازے پر اُن کو دینے گئی، ساتھ میں پانی کا گلاس بھی ٹرے میں رکھ دیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی، آواز آئی ’’بیٹی اپنے برتن اٹھالو۔‘‘ مَیں بھاگی بھاگی دروازے پر گئی، وہاں ٹرے اور پانی کا گلاس پڑا تھا اور ساتھ میں دو سو روپے بھی تھے، میں نے دُور دُور تک نظر دوڑائی کہ شاید کہیں وہ بزرگ نظر آجائیں اور میں انہیں یہ رقم واپس کردوں، لیکن اُن کا تو وہاں نام و نشان تک نہ تھا۔ آج بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے، تو سوچتی ہوں، شاید اُس بزرگ کے روپ میں وہ کوئی اللہ کا فرشتہ تھا، جو میرا امتحان لینے اور انعام دینے آیا تھا۔ واضح رہے کہ اس زمانے میں دو سو روپے بہت بڑی رقم تھی۔

چند سال قبل کا واقعہ ہے۔2016ء میں رات ڈھائی بجے میری خاوند کو ہارٹ اٹیک ہوا، ہم فوری طور پر انہیں شیخ زید اسپتال، لاہور لے کرگئے۔ ڈاکٹرز نے اُن کی زندگی بچانے کی حتی المقدور کوششں کی۔ آخرکار ناامید ہوگئے۔ مَیں اور میرا بیٹا اُن کے سرہانے کھڑے دعائیں کررہے تھے۔ یکایک میں نے دعا کے لیے ہاتھ بلند کیے اور سچّے دل سے آہ و فریاد کرتے ہوئے اپنے پاک پروردگار سے التجا کی کہ ’’مولا کریم، میں نے ساری زندگی خلقِ خدا کی خدمت کی ہے اور تجھ سے کچھ نہیں مانگا۔ آج تجھ سے اس اجر کے بدلے اپنے خاوند کی زندگی کی بھیک مانگتی ہوں، تُو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے انہیں زندگی دے دے۔‘‘ مَیں کمرے کے کونے میں رب العزّت کے حضور التجائیں کر رہی تھی کہ یکایک میرا بیٹا بھاگا ہوا آیا، کہنے لگا۔ ’’امّی امّی!ابو نے آنکھیں کھول دی ہیں۔ 

ڈاکٹر کہتے ہیں، یہ معجزہ ہے۔ انہیں اللہ تبارک تعالیٰ نے دوبارہ زندگی بخشی ہے۔‘‘ سو، میری بہنو! بیٹیو! اور بیٹو! اگر آپ چاہتے ہیں کہ اللہ آپ سے راضی ہو، تو خدمتِ خلق کو اپنا شعار بنالو، عبادت ہر انسان پر لازم ہے، لیکن اپنے بندوں سے حُسنِ سلوک اور خدمتِ خلق کا درس بھی اللہ تبارک تعالیٰ نے دیا ہے۔ میں ایک غریب نادار کی بیوی تھی۔ سارا گائوں کہتا تھا کہ میرے ماں باپ نے اپنی بیٹی کو مفلس اور قلّاش لوگوں میں بیاہ کر اس پر ظلم کیا ہے، لیکن میرے پروردگار نے مجھے اپنی رحمت سے سب کچھ دیا ہے۔ عزت و وقار اور صحت و عافیت، میں نے آج تک اللہ تبارک وتعالیٰ سے دولت کی طلب نہیں کی، صرف اس کی رحمت، فضل اور کرم مانگا ہے۔ اگر میں اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو بتائوں کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے مجھے بِن مانگے کیا کچھ دیا ہے، تو سب کو حیرت ہوگی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک غریب کی بیوی کو اپنی بے پناہ نعمتوں سے نوازا ہے، الحمدللہ، ثم الحمدللہ۔ آپ لوگ بھی خلقِ خدا کے کام آئیں، اللہ تعالیٰ آپ کے بگڑے کام بنادے گا۔ (صادقہ بیگم ،لاہور)

سُنیے…آپ سے کچھ کہنا ہے…!!

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے، جو کسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بِنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث معلوم ہو، تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصّہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور و آگہی میں اضافے کے ساتھ اُن کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں بھی ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے۔ نیز، اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت محسوس ہو، تو رابطہ کیا جاسکے۔ ہمیں اپنی تحریریں اس پتے پر بھیجیں۔

ایڈیٹر، ’’سنڈے میگزین‘‘ صفحہ ناقابلِ فراموش، روزنامہ جنگ، شعبہ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔

تازہ ترین