• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصباح طیّب، سرگودھا

ہر اچھّے مسلمان کی یہ اوّلین خواہش ہوتی ہے کہ وہ دُنیا وآخرت میں کام یابی حاصل کرے، مگر سوال یہ ہے کہ دُنیا و آخرت میں کام یابی کا راز کیا ہے؟ تو وہ راز ہے،’’حُبِّ الٰہی‘‘۔ عموماً انسان اپنی زندگی کا محور و مرکز کچھ ناپائیدار محبّتوں کو بنائے رکھتا ہے، جو عارضی اور وقتی ہوتی ہیں۔ انہی محبّتوں کے لیےجائز، ناجائز کام کرتا ہے اور نتیجتاً اپنی دُنیا و آخرت برباد کر بیٹھتا ہے۔گرچہ دُنیاوی رشتوں کی محبّت بھی معاشرے کو جوڑے رکھنے کے لیے ضروری ہے، مگر ترجیح ربّ کی محبّت ہی ہونی چاہیے اور اسی محبّت کے سائے میں باقی محبّتوں کو جگہ ملنی چاہیے۔ہمیں انبیائےکرام ؑکی زندگیوں پر رشک آتا ہے کہ انہوں نے دین پھیلانے کے لیے اتنی مشکلات کیسے برداشت کیں،تو دراصل ان کے دِل کے برتن ربّ کی محبّت کے لیے خالی تھے اور ہمارے برتن پہلے ہی سے بَھرے ہوتے ہیں۔ 

اُن کے یہاں اللہ کی محبّت اتنی تھی کہ اپنی ذات کی بڑائی کے لیے جگہ ہی نہیں ملتی تھی،جب کہ ہماری تو ’’مَیں‘‘ ہی ختم نہیں ہوتی۔زندگی کے لیے اسباب، قوّتیں، صلاحیتیں، رزق سب کس نے دیا؟ اللہ نے۔ تو پھر پہلی، خالص، سچّی محبّت کا حق دار بھی تو وہی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ اللہ کی محبّت ہی انسان کو زندگی میں متحرک رکھتی ہے، سُکون و کام یابی دیتی ہے، ہارنے نہیں دیتی اور ربّ کی محبّت دِل میں بسانے کے لیے اندر کے اندھیرے دُور کرنے پڑتے ہیں کہ مَن اُجلا ہوگا، تو باہر کی چکا چوند سے آنکھیں خیرہ نہیں ہوں گی۔ربّ تو اپنے اِک اِک بندے، ہر تخلیق سے محبّت کرتا ہے، مگر بندہ اپنے ربّ کاحق ادا نہیں کرتا۔ وہ شاعرِمشرق علّامہ اقبال نے کیا خُوب کہا ہے؎یقیں محکم، عمل پیہم، محبّت فاتحِ عالم…تو درحقیقت ربّ کی محبّت ہی فاتحِ عالم ہے۔ 

مانا کہ اللہ سے محبّت کا راستہ ایک مشکل چڑھائی کی مانندہے۔اس چڑھائی چڑھانے میں لاکھ مشکلات آڑئے آتی ہیں۔لیکن اگر ’’ذکرِ الہٰی‘‘کو ایندھن بنالیں اور یہ ایندھن سو فی صد خالص ہو، تو پھر سب سے دشوار گزار رستے آپ ہی آپ سہل ہوتے چلے جائیں گے۔ آپ خود کواللہ کے لیے خالص کرلیں۔ اُس کی ذات پر بھرپور یقین و اعتماد کے ساتھ چلیں، دُنیا و آخرت کی کام یابیاں خودبخود آپ کے قدم چومیں گی۔

تازہ ترین