• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وجہ خواہ کچھ بھی ہو، لیکن یہ خبر کسی بھی مُلک و قوم کے لیے انتہائی تکلیف دہ، بلکہ شرم ناک ہے کہ اُس کی قومی ائیر لائن پر یورپی یونین، مِڈل ایسٹ اور بہت سے دیگر ممالک میں پابندی عاید کر دی گئی۔ عوام کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بیک وقت اِتنے محاذوں پر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں کہ شاید اُن کے لیے اب کسی بھی بات کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہی۔ بقول غالب؎ ’’ رنج سے خوگر ہوا انساں، تو مِٹ جاتا ہے رنج…مشکلیں مجھ پر پڑیں اِتنی کہ آساں ہو گئیں۔‘‘اب عوام کے نزدیک منہگائی اور بے روز گاری بھی معمول کا رونا پیٹنا بن کر رہ گیا ہے، تو ایسے میں فضائی سفر پر پابندی لگنے سے اُنھیں کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ ویسے بھی اُسے اشرافیہ کی سواری سمجھتے ہیں۔اُن کے لیے تو بس، ویگن، رکشا یا موٹر سائیکل ہی’’ جہاز‘‘ ہے۔ پتا نہیں، یہ سوچ پاکستانی عوام میں کیوں اور کیسے سرایت کر گئی ہے، لیکن باقی دنیا میں ایسا ہرگز نہیں ہے۔

اُن اقوام کے نزدیک کسی مُلک کی قومی ائیر لائن پر پابندی لگنا کوئی معمولی حادثہ نہیں۔ پی آئی اے پر پابندیوں نے نہ صرف پے درپے ہونے والے حادثات پر نئے اور سنگین سوالات اُٹھادئیے ہیں، بلکہ قومی ائیر لائن اور سِول ایوی ایشن کے پورے نظام کو بھی کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ یورپی یونین نے کورونا کی وجہ سے جن ممالک کے شہریوں کی آمد ورفت پر پابندی لگائی ہے، اُن میں پاکستانی بھی شامل ہیں۔ ایمریٹس ائیر لائن کو پاکستان میں ہونے والے کورونا ٹیسٹ پر اعتماد نہیں اور سُنا ہے کہ وہ اِس ضمن میں کوئی اپنا ہی سسٹم شروع کرنا چاہتی ہے۔سوال یہ ہے کہ ہوا بازی، صحت، سمندر پار پاکستانیوں اور خارجہ اُمور کی وزارتیں اِس بحرانی صُورتِ حال میں کیا اقدامات کر رہی ہیں؟کہیں یہ سب مُلک کو تنہائی کی طرف تو نہیں دھکیل رہیں؟

یورپی یونین کی ہوا بازی کی تنظیم نے دو مرتبہ، یعنی 13 جون اور 19 ستمبر کو سِول ایوی ایشن سے مُلکی ائیر ٹریفک، طیاروں کی سیفٹی اور ائیرلائن کے دیگر معاملات پر مذاکرات کیے۔بعدازاں اُس نے چھے مختلف معاملات درست کرنے کی ہدایت کی، جن میں سے پانچ تو حل ہوگئے، لیکن سیفٹی مینجمینٹ پر، جس کا طیارے اور مسافر سے براہِ راست تعلق ہے، تنظیم نے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ اُس کا کہنا تھا کہ’’ پی آئی اے حفاظتی اقدامات سے متعلق شرائط پوری نہیں کرسکی، جس کی شکاگو کنونشن کے تحت توقّع کی جاتی ہے۔‘‘تاہم، اِس سے بھی سخت الفاظ اُس نے ہوا بازی کے وزیر کی قومی اسمبلی میں تقریر کے بعد اپنے خط میں استعمال کیے۔ یورپی تنظیم کے مطابق’’ اُسے اُن معلومات پر (جو غلام سرور خان کی تقریر میں تھیں)سخت تشویش ہے۔ 

پاکستان، جو کہ آپریٹر(پی آئی اے کو چلانے والی ریاست) ہے، موجودہ صُورتِ حال میں اِس قابل نہیں کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں آپریٹرز اور پائلٹس کے لائسنسز کی تصدیق اور نگرانی کا کام کرسکے۔ اِس لیے پی آئی اے پر چھے ماہ کے لیے پابندی ضروری ہے۔‘‘ پی آئی اے نے اس خط کا جواب 28 جون کو دیا، جسے یورپی تنظیم نے مسترد کردیا۔ 2006 ء میں ملتان حادثے کے بعد بھی پی آئی اے پر جزوی پابندی لگ چُکی ہے، جب صرف نو طیاروں کو یورپ کے لیے کلیئر کیا گیا تھا۔

تاہم چار ماہ بعد پابندی اُٹھا لی گئی تھی۔ اِسی قسم کے تحفّظات کا متحدہ عرب امارات نے بھی اظہار کیا ہے۔اُس کی ایمیریٹس اور دیگر ائیر لائنز میں پاکستانی پائلیٹس، انجینئرز اور دوسرا عملہ کام کر رہا ہے۔ اب اُس نے اُن سب کی پروفیشنل اسناد کی تصدیق کے لیے پاکستان سے رجوع کیا ہے۔

ناقدین اور ماہرین، بلکہ عام فضائی مسافر بھی پی آئی اے کے معیار اور سروس پر سخت تحفّظات رکھتے ہیں، جن کی ہر فورم پر کُھلے عام شکایات بھی کی جاتی ہیں۔اِس کی سروسز کا یہ حال ہے کہ حکومت کے سربراہ اور اعلیٰ حکّام خود قومی ائیر لائن میں سفر کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے بچّوں کے لیے کوئی رِسک لیتے ہیں۔ پھر یہ کہ اگر کوئی قومی ائیر لائن کے خلاف شکایت کرتا بھی تھا، تو سُنی، اَن سُنی کر دی جاتی۔ ہر شعبے میں قائم یونین ہر صُورت اپنے ارکان کی حمایت خود پر لازم سمجھتی ہے، خواہ اُس نے کتنی ہی لاپروائی کا مظاہرہ کیوں نہ کیا ہو۔

اِسی لیے ادارہ جاتی سطح پر کبھی بھی سنجیدہ اقدامات نہیں کیے گئے۔ وزیرِ اعظم، عمران خان نے بھی، جو تارکینِ وطن کی مدد سے اقتدار میں آئے، قومی ائیر لائن کو قابلِ توجّہ نہ سمجھا۔تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ اب وہ مرحلہ آگیا ہے کہ کسی قسم کے’’ ہومیو پیتھک‘‘ اقدامات سے کام نہیں چلے گا۔ 

اگر ماضی کی طرح لیپا پوتی سے کام لیا گیا، تو بین الاقوامی سطح پر مزید پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔کسی کو پسند ہو یا نہ ہو، مگر اب قومی ائیر لائن اور سِول ایوی ایشن کے میعار کو بین الاقوامی سطح پر لانا ہی پڑے گا۔ پی آئی اے اور اسٹیل ملز جیسے اداروں کو کبھی بھی کمرشل ادارے نہیں سمجھا گیا۔ہر حکومت اُنہیں اپنے حامیوں کو کھپانے کا ذریعہ سمجھتی رہی۔ افسوس تو یہ ہے کہ قومی ائیر لائن میں مسافر کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ طیارے خالی جاتے ہیں اور ٹکٹ لینے والے کو ہمیشہ یہی بتایا جاتا ہے کہ جہاز فُل ہے، جب کہ لوگ چار چار سیٹس پر سو کر سفر کرتے ہیں۔پی آئی اے کے بیرونِ مُلک دفاتر کے فون بند ہی ملتے ہیں۔

دفاتر جائیں، تو عملہ موجود نہیں ہوتا۔ چھے ماہ میں سیٹ مفت بدلنے کی سہولت کو مختلف حیلے بہانوں سے لوٹ مار کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ اِس ضمن میں مسافروں سے ہزاروں روپے جرمانہ وصول کیا جاتا ہے۔پھر بات وہی کہ کس سے شکایت کی جائے، کوئی سُننے والا ہی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ عام پاکستانی بھی پی آئی اے میں سفر کے نام پر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ 

یہ کوئی مہینے یا سال کی داستان نہیں، برسوں سے ایسا ہی چلا آ رہا ہے۔حکومتیں بدلتی رہیں، مگر قومی ائیر لائن کے چال چلن میں کوئی فرق نہ آیا، بلکہ حالات ابتر ہی ہوتے چلے گئے۔ حالیہ دنوں میں پاکستانیوں پر لگنے والی پابندیوں کو صرف ہوا بازی کے وزیر کے پائلٹس سے متعلق بیان سے جوڑنا درست نہیں۔یورپی یونین اور بہت سے ممالک میں یہ پابندی کورونا وائرس کے پاکستان میں پھیلائو اور عالمی ادارۂ صحت کی وارننگ کو نظر انداز کرنے کا بھی نتیجہ ہے۔ہمارے پالیسی ساز کیسے ہیں، جو ان تمام اُمور سے وزیرِ اعظم، عمران خان کو بروقت آگاہ کرسکے اور نہ ہی اس کے تدارک کے لیے انتظامات کیے۔

یہ بات درست ہے کہ قومی اسمبلی میں ہوا بازی کے وزیر، غلام سرور خان کا بیان مُلک کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا، جس پر اندرونِ مُلک تنقید ہوئی اور دنیا نے جعلی لائسنسز کے حوالے سے شدید ردّ ِ عمل کا اظہار کیا۔یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ نے اپنے ذیلی اداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ کسی بھی پاکستانی کیریر کو چارٹر نہ کریں۔ پاکستان میں رجسٹرڈ تمام فضائی کمپنیز کو اقوامِ متحدہ کی فہرست سے نکال دیا گیا۔پُلوں سے پانی گزرنے کے بعد سیکریٹری خارجہ نے یورپی سفیروں سے درخواست کرکے 3 جولائی تک لینڈنگ کی اجازت لی۔ اِس موقعے پر سپریم کورٹ کی اُس آبزرویشن کو یاد رکھنا چاہیے، جس میں کہا گیا تھا کہ’’ وزراء اپنے محکموں کی نگرانی کی بجائے سیاسی بیانات اور سیاست میں لگے رہتے ہیں۔‘‘ حیرت ہوتی ہے کہ درجنوں حکومتی ترجمانوں کے باوجود ہر وزیر کو اپنا محکمہ چھوڑ کر حکومتی ترجمانی ہی میں زیادہ وقت گزارنا پڑتا ہے۔ 

ہمارے ہاں گورنینس کی یہی کم زوری ہے کہ وزیر اپنے کام کی داد لوگوں کی فلاح وبہبود کے کاموں کی بجائے اپنے باس کی جی حضوری سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔وہ کُھلے عام کہتے پِھرتے ہیں کہ’’ ہم عوام نہیں، پارٹی سربراہ کے وفا دار ہیں۔‘‘پی آئی اے کا حالیہ بحران بھی بالآخر جیسے تیسے حل ہو جائے گا، مگر کیا مُلک ہمیشہ یونہی چلتا رہے گا؟ عوام کو پوری سنجیدگی سے اِس پر غور وفکر کرنا چاہیے۔بلاشبہ دیانت داری، خلوصِ نیّت بہت ضروری ہے اور اس کی تعریف بھی کی جانی چاہیے، لیکن اسے گڈ گورنینس کا نعم البدل سمجھنا، نری بے وقوفی یا سادگی ہے۔کوئی ریاست اِس طرح کی باتیں افورڈ نہیں کرسکتی۔ہاں ،ان باتوں سے فلاحی ادارے یا چھوٹے موٹے کھیل تماشے ضرور چل سکتے ہیں۔ حکومت اور اداروں کی ذمّے داری ہے کہ وہ لوگوں کی جان ومال کا تحفّظ کرے۔ عوام کی خوش حالی اور فلاح کو یقینی بنائے، وگرنہ بیانات اور قصّے کہانیوں سے تو تاریخی ناولز بھی بھرے پڑے ہیں۔

کورونا سے نمٹنے کے لیے لاک ڈائون، اسمارٹ لاک ڈائون اور اِسی طرح کے مختلف طریقے اختیار کیے گئے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اِس حوالے سے حکمتِ عملی کی تیاری میں ڈاکٹرز اور سائنس دانوں کو نظر انداز کیا گیا۔ ان اسکیمز کی ناکامی کا اعتراف وزیرِ اعظم کی ٹاسک فورس کے چیئرمین، ڈاکٹر عطا الرحمان کے بیانات میں موجود ہے۔اُنہوں نے واضح طور پر مانا کہ حکومت کورونا سے نمٹنے میں ناکام رہی۔ یہ تو حکومت کا معاملہ ہے، کسر عوام نے بھی نہیں چھوڑی۔ ایک سروے کے مطابق، 67 فی صد پاکستانی اب بھی کورونا کو کوئی بیماری نہیں سمجھتے۔ایسے واقعات بھی سامنے آ رہے ہیں، جن میں ڈاکٹرز کی خاصی تضحیک کی گئی۔

اگر لوگوں کی اپنی غفلت اور لاعلمی سے کورونا کے کیس بگڑے اور وہ آخری اسٹیج پر مریض کو اسپتال لے کر گئے، تو اپنی کوتاہی پر افسوس کرنے کی بجائے عوام کی خدمت میں دن رات ایک کرنے والے مسیحائوں کے منہ پر تھوک کر کہا گیا کہ’’ یہ جان اِس لیے گئی کہ اِس کے عوض ڈالرز وصول کیے جارہے ہیں۔‘‘ کس سے وصول کیے جارہے ہیں؟ کون وصول کر رہا ہے؟ کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں، بس سب افواہوں اور سازشی تھیوریز پر چل رہے ہیں۔ حکومت کو ان معاملات کی کوئی فکر نہیں، ڈاکٹرز ایک طرف عوام کی خدمت کریں اور پھر خود کو کورونا کے ساتھ عوام کے تشدّد سے بھی بچائیں۔ماہرین نے دو ماہ پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ’’ کورونا کے معاملے میں عالمی ادارۂ صحت کی ہدایات نظرانداز کرنے کے سنگین نتائج بھگتنے پڑیں گے اور اندیشہ ہے کہ کہیں پاکستانیوں کے مختلف ممالک میں داخلے پر پابندی ہی نہ لگ جائے۔‘‘اب ایسا ہی ہوا ہے۔ یورپی یونین نے اس سلسلے میں جو فہرست جاری کی ہے، اس میں پابندیوں کی زد میں آنے والوں میں پاکستانی بھی شامل ہیں۔ 

اس فہرست میں بھارت اور امریکا شامل نہیں، جہاں ہمارے سرکاری اعداد وشمار سے زیادہ اموت اور نئے کیسز موجود ہیں، لیکن وہاں لاک ڈائون اور احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل ہورہا ہے۔ کم ازکم یورپی یونین تو ان سے مطمئن ہے۔وزیرِ اعظم کا کہنا ہے کہ’’ ہم اسمارٹ لاک ڈائون کے ذریعے کورونا وائرس کے ساتھ رہیں گے۔‘‘اب سوال یہ ہے کہ بیرونِ مُلک جانے والے پاکستانیوں کا کیا ہوگا؟ اُنھیں کورونا کے ساتھ کون اپنے ہاں آنے دے گا؟

ہم پہلے ہی اس اندیشے کا اظہار کر چُکے ہیں کہ حکومت نے کورونا کے ضمن میں جو گو مگو کا رویّہ اپنایا ہے، وہ ایک دن عام پاکستانی کو بیرونِ مُلک سفر میں شدید مشکلات کا سامنا کرنے پر مجبور کردے گا۔مثال کے طور پر متحدہ عرب امارات کی ائیر لائن ہی کو لے لیں۔وہ پاکستان میں ہونے والے کورونا ٹیسٹ کو قابلِ اعتماد ماننے کو تیار نہیں۔اِس سلسلے میں نجی لیبارٹریز کی خدمات حاصل کرنے کا سلسلہ شروع ہوچُکا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسافروں کو زیادہ فیس اور نئی ذلّتیں برداشت کرنی پڑیں گی۔

یاد رہے، نوّے لاکھ پاکستانی بیرونِ مُلک رہ رہے ہیں۔وزیرِ اعظم نے وزیر خارجہ، شاہ محمود قریشی کو پی آئی اے پر پابندی نرم کروانے کا ٹاسک دیا ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ بلاشبہ شاہ صاحب اکیڈمک قابلیت رکھتے ہیں۔گفتگو بھی سُلجھی ہوئی کرتے ہیں۔ کشمیر پر بیانات بھی خُوب دیتے ہیں۔ مایوسی کے دَور میں بھی مُلک کی خارجہ فتوحات کے دعوے بڑے اعتماد سے کرتے ہیں، لیکن عملاً خارجہ پالیسی میں اُن کا فعال کردار مشکل ہی سے نظر آتا ہے۔تاہم، تنقید کسی بھی مسئلے کا حل نہیں۔قوم کو جس آزمائش کا سامنا ہے، اُس سے نکلنے کے لیے اجتماعی سوچ اور ثابت قدمی کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین