• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رابطہ…مریم فیصل


 کل جب یہاں برطانیہ میں ہم نیشنل ہیلتھ سروسز کی بہاتر ویں سالگرہ کے موقع پر تالیاں بجا رہے تھے تو خیال آیا کہ قومی ادارے کو ہر طرف سے دھتکار ملے تو افسوس کرنے کا پوائنٹ تبھی بنتا ہے جب اس کی جائے پیدائش میں اس کی نشونما اور تربیت کا مکمل خیال رکھا گیا ہو ۔ اگر اس کے پالن پوسن کے ذمے دار ہی اس کا خیال رکھنے میں اپنے ذاتی مفاد کو زیادہ اہم سمجھتے ہوں گے تو جب باہر والے اس کی تربیت پر انگلی اٹھائیں تو حیرت کی کوئی بات نہیں بنتی ۔ ملک کی فلک کیریر ائرلائن کو تو ہاتھ کا چھالا بنا کر پالنا چا ہئے تھا تاکہ ساری دنیا میں اس کی پہچان نیک نام کے طور پر ہوتی ۔ لیکن افسوس کہ باقی تمام ملکی اہم اداروں کی طرح یہ بھی مفاد کی بھینٹ چڑھا دی گئی ۔جس روز سے اس کی پیدائش ہوئی اس کے اردگرد ایسے عناصر کا گھیرا بن گیا تھا جنھوں نے اس کی ترقی کو اپنی ترقی سے جوڑ لیا تھا ۔ جہازوں کی خریداری سے لے کر عملے کی بھرتیوں تک میرٹ کو کہیں ملحوظ خاطر رکھا ہی نہیں گیا ۔ائرلائن کاوجود ملکی عوام کے فائدے کے لئے نہیں بلکہ چند لوگوں کے لئے سونے کی کان تھا ۔حالانکہ تمام دنیا میں ملکی قومی ائیر لائن کو بہترین سروس اور با کمال لوگ کی ا علیٰ مثال بنا یا جاتا ہے لیکن یہ صرف پی آئی اے کے لوگو کے بطور ہی استعمال کیا گیا جس میں سروس کا نہ تو میعار اعلیٰ تھا نا ہی عملہ اتنا باکمال تھا کہ مسافروں کی خدمت کو اپنا فر یضہ سمجھتا ۔ لیکن تر خرابیوں کے باوجود بھی تارکین وطن پاکستانیوں کے لئے سفر کا اہم ذریعہ تھا اور اب بھی ہے۔ ان میں وہ تارکین جو وطن جانے کے لئے براہ راست فلائٹ کو ترجیح دیتے ہیں ان کے لئے قومی ا ئرلائن بڑی نعمت ہے کہ سیدھا چڑھو اور سیدھا اتر جاو ۔امریکہ ، کینیڈا جیسے دوسرے ممالک کے لمبے سفر کے لئے قومی ائیر لا ئن ہی بہترین سمجھی جاتی رہی ہے ۔ حالانکہ اس کے مسافرسفر کے اختتام پر تاخیرکی شکایت کرتے ہی رہے ہیں لیکن اگلی بار بھی قومی ائیر لا ئن کی بکنگ ہی کروائی جاتی ہے ۔ ہم نے خود اپنے بزرگوں کو، بیٹا ہمارے لئے تو پی آئی اے ہی ٹھیک ہے، کا نعرہ بلند کرتے سنا ہے۔ لیکن جس تیزی سے اس کی فلایٹس گرتی جارہی ہیں یہ سوالات جنم لیتے جارہے ہیں کہ کیوں قومی ادارہ اونچی اڑان بھرنے کے بجائے ہزاروں فٹ نیچے گرتا کسی کو نظر نہیں آیا ؟۔کیوں اس کے مسافر اس کی باکمال سروس کی تعریف نہیں کر پاتے اور کیوں رشتے داریاں نبھانے کے کے لئے کئی ہزار جانیں نا تجربے کار ہاتھوں میں دے کر ضائع کر واکے بھی ذمے داروں کو ہوش نہیں آیا ۔پابندیاں قومی ائیر لا ئن پر ماضی میں بھی لگتی رہیں ہیں لیکن ان سے نا صرف ائیر لا ئن کا بلکہ ملک کا نام بھی بروں کی فہرست میں شامل رہا ہے ۔

تازہ ترین