• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلڈنگ پلان فیسوں و جرمانوں کی حاصل رقم ملازمین کی تنخواہوں کیساتھ متعلقہ ایریاز کے ترقیاتی کاموں پر بھی خرچ ہونی چاہیے

راولپنڈی ( اپنے نامہ نگارسے ) آرڈی اے اپنے کنٹرول ایریاز میں پچھلے دس سالوں میں ہونے والی غیرقانونی ، بغیر نقشہ منظوری رہائشی و کمرشل تعمیر ہونے والی جائیدادوں کے مالکان سے اربوں روپے فیسوں اور جرمانوں کی مد میں وصول کرنے میں ناکام رہااور نہ ہی اس حوالے سے ادارے میں کسی بھی سطح پر کوئی قدم نہیں اٹھایا جا رہا ہے ، آرڈی اے ذرائع کے مطابق بلڈنگ پلان ، ہائوسنگ سوسائٹیوں کے لے آئوٹ پلان کی فیسوں وغیرہ کی وصولیوں کے حوالے سے رکھا جانے والا ہدف مجموعی تعمیر ہونے والی عمارتوں اور گھروں کے مقابلے میں شاید دس تا بیس فیصد سے بھی کم ہو گا اور یہ حاصل ہونے والی رقم آرڈی اے کے اپنے ہی اکاوئنٹ میں چلی جاتی ہے جو ملازمین کو تنخواہوں اور دیگر مراعات پر خرچ ہوتی ہے حالانکہ یہ شعبہ اگرآئوٹ سورس کر دیاجائے تو سالانہ رکھے گئے ہدف سے کئی گنا زیادہ فیسوں اور جرمانوں کی مد میں رقم حاصل ہو سکتی ہے اورآرڈی اے کے ملازمین کی تنخواہوں سے زیادہ جمع ہونے والی رقم انہی ایریاز کے ترقیاتی کاموں پر بھی خرچ کی جاسکتی ہے،اس کیلئے ضروری ہے کہ ایک ہی اتھارٹی میں افسران و ملازمین کو اپنی سروس پور ی کر کے ریٹائرہونے کی بجائے انہیں صوبے کی دوسری اتھارٹیز میں بھی تبدیل کیا جانا چاہئے مگر بدقسمتی سے یہاں تو جس ڈائریکٹوریٹ میں جو ملازم یا افسر بھرتی ہوتا ہے اسی سےریٹائر بھی ہو جاتاہے اسے دوسرے شعبے میں بھی نہیں بھجوایا جاتا ، حالیہ ایک سروے میں پتہ چلا ہے کہ آرڈی اے کے کنٹرول ایریاز میں آنے والی بعض پوری پوری آبادیاں ہی بلڈنگ پلان کی منظوری سے نظرانداز کی جا رہی ہیں ، جس کے نتیجہ میں جہاں بغیر سیٹ بیک چھوڑے اتنی زیادہ کمرشل و رہائشی تعمیرات ہو چکی ہیں کہ مستقبل قریب میں ہمارے یہ روڈز راجہ بازار کی شکل اختیار کرجائیں گے جہاں پر ٹریفک کے بے پناہ مسائل پیدا ہو جائیں گے مگر اس حوالے سے کسی قسم کی پلاننگ نہیں کی جا رہی ہے۔
تازہ ترین