• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے کالم میں ہم نے معاشرے کے ان ناسوروں کی مقدور بھر مذمت کی ، جو اپنے شاندار ماضی اور ارفع اقدار سے بغاوت کرتے ہوئے غوروفکر، خردوفہم ، اخلاقیات ، جمالیات ، نظریات اور بنیادی حقوق جیسی ادنیٰ باتوں کی جگالی میں غرق ہیں اور اپنے افکار پریشاں سے دوسروں کو بھی پریشان کرتے رہتے ہیں ۔
ایسی قبیح حرکات کا قلع قمع کر نے کے لئے آج ہمارے ذہن میں ایک نادر تجویز آئی ہے کہ نگران حکومت ایک آرڈیننس کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 62یا63میں ایک ذیلی شق کا اضافہ کر دے کہ جو امیدوار سوچنے سمجھنے یا دیگر درج بالا کسی ناروا فعل میں ملوث پایا گیا ، وہ انتخابات میں حصہ لینے کے لئے نا اہل ہوگا۔ اس کار خیر سے جہاں سیاست کا رہا سہاگند بھی صاف ہو جائے گا اور فقط مسرت شاہین ایسے صاف ستھرے لوگ ہی میدان میں رہ جائیں گے ، وہاں نگرانوں اور الیکشن کمیشن کو اس صدقہ جاریہ کا ثواب بھی ہمیشہ ملتا رہے گا۔اور آئین کا پارلیمانی تشخص بھی مزید نکھر جائے گا۔ نیز ہمارے پہلے سے آسمان سے باتیں کرتے قومی وقار میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو گا ۔ اگر حکومت کثیر سمتی پیش قدمی کرتے ہوئے دفعہ63,62کا اطلاق تمام سرکاری و غیر سرکاری ملازمتوں اور میڈیا وغیرہ پر بھی کردے ، نیز آئین کے آرٹیکل 19کو سرے سے ہی حذف کر دے ، جس کی رو سے ہر شہری کو آزادی اظہار کا حق حاصل ہے تو نظریہ پاکستان بھی محفوظ ہو جائے گا، ہر شعبہ حیات عاصی و خاطی لوگوں سے پاک بھی ہوجائے گا اور ترقی کو پَر بھی لگ سکتے ہیں ۔
ویسے بھی جب فہم کی تبلیغ یہاں بار آور ہونے کا امکاں نہیں ۔ رواداری کے ہم روادار نہیں اور برداشت ہمارا شعار نہیں ۔ منافقت ہمیں مرغوب ہے اور جھوٹ ہمارا محبوب ہے ۔ دلیل کے ہم عدو ہیں اور گالی ہمارا وتیرہ ہے ۔ خیانت میں ہم یکتا ہیں اور ملاوٹ میں ہمارا ثانی نہیں ۔ معقول بات کرنے والے پر الزامات کی سنگ باری ہماری اولین ترجیح ہے اور تیرو دشنام کا نشانہ بنانا ہمارا پسندیدہ مشغلہ۔ فساد انگیزی ہماری پہچان ہے او رجمود ہمیں زیبا۔ اعتدال ہمارا رقیب ہے ، نفرت ہماری حبیب۔ مکالمہ ہمیں گوارا نہیں اور تہذیب سے ہمیں یارا نہیں ۔ فراست سے ہمیں گریز ہے ، تنگ نظری میں کریز ہے ۔ دنیا آئی ٹی کے فسوں خیز تحیرات میں غوطہ زن ، ہم کہ ٹھہرے حب الوطنی کے پیکر شعلہ زن ۔ اغیار نظام شمسی عبور کر کے اگلی دنیاؤں میں داخل ہونے کیلئے پابہ رکاب، ہم ہنوز نسیم حجازی کے اسپ تازی پر سوار۔ وہ جہاندیدہ ہونے پر مسرور، ہم برگزیدہ ہونے پر مغرور۔ وہ تحقیق میں آزمودہ ، ہم لا علمی میں آسودہ…جب جہالت نے ہمارے گٹے گوڈوں میں مستقل دھرنا دے رکھا ہے ۔ جذباتیت اور عدم برداشت کی وسیع شاہراہ پر ہم بلین مارچ میں مصروف ہیں ۔ شعور اور منطق کی راہ میں ہم نے ٹائر جلا رکھے ہیں ۔ حکمت اور تدبر کے خلاف ہم سراپا احتجاج ہیں ۔ محبت اور احترام انسانیت کی لوڈ شیڈنگ ہمارے مزاج کا حصہ ہے ۔ عقل کو جوتے کی نوک پر رکھے ، سوچ کے کواڑ ہم نے مقفل کر رکھے ہیں …تو پھر ایسا مزاج دوست آرڈیننس جاری کرنے میں کیا رکاوٹ حائل ہے کہ …”رسم دنیا بھی ہے ”موقع“ بھی ہے ”دستور“ بھی ہے “۔
کیا وجد آفریں منظر ہوگا کہ جب انتخابات میں حصہ لینے والے یا ملازمتوں وغیرہ کے امیدواروں سے اس قسم کے سوالات پوچھے جائینگے ۔ مثلاً ،کیا آپ حالات کی خرابی و دگرگونی پر کڑھتے ہیں ؟ کیا آپ کتابی چہروں کے علاوہ بھی کبھی کسی کتاب کے مطالعہ کے مرتکب ہوئے ہیں؟ کہیں آپ نے کسی نظرئیے کا روگ تو نہیں پال رکھا؟ آپ کسی علمی ، ادبی ، ثقافتی یا تخلیقی سرگرمی میں ملوث تو نہیں رہے ؟ کیا آپ ملک وقوم کے مستقبل کا سوچتے ہیں ؟ کیا آپ کے خیال میں ہمیں مشاہیر اور مشائخ کی بجائے سائنسدانوں کی ضرورت ہے ؟ کہیں آپکے بارے میں عمومی تاثر یہ تو نہیں کہ آپ مہذب ہیں ؟ کیا آپ سے کبھی کبھار بنیادی انسانی حقوق کے احترام جیسا فعل بھی سرزد ہو جاتا ہے ؟ کیا آپ جنوں پر خرد کو ترجیح دیتے ہیں؟ کہیں آپ معقولیت کے اسیر تو نہیں ؟ کبھی آپ کو شرم آئی یا جھوٹ بولتے ہوئے ضمیرنے ملامت کی ؟ کہیں آپ عقل و دانش کے لئے کوئی نرم گوشہ تو نہیں رکھتے ؟ کیا آپ ملالہ یوسف زئی کو قوم کیلئے باعثِ فخر سمجھتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ ۔ اس قماش کے کسی بھی سوال کا مثبت جواب آنے پر امیدوار کو بلا تاخیر مسترد کردینا چاہیے تاکہ آئین کا احترام یقینی بنایا جا سکے ۔
کسی پروین شاکر نامی خاتون نے کہا ہے ”آشوب آگہی سے بڑا عذاب زمین والوں پر آج تک نہیں اترا” پس ہمیں دعوت فکر دینے والے ناسوروں کو اٹھا کر بحیرہ عرب میں پھینکنا ہوگا کہ آنکھیں اور کان نہ ہوں تو دماغ آسودہ رہتا ہے ۔ ہمارے لئے خط زندگی فقط مرد مومن ضیاء الحق دام برکاة کے افکار عالیہ ہیں ، جنہوں نے آگہی کی وبا کے تباہ کن اثرات کو سیم و تھور سے تشبیہہ دیتے ہوئے فرمایا” میں خود پسند دانشوروں کی طرف سے ملک کی نظریاتی سر زمین میں کسی قسم کی سیم و تھور برداشت نہ کروں گا“ نوائے وقت یہ ہے کہ امہ کی قیادت اور دنیا کو فتح کرنے جیسے ارفع مقاصد کے حصول کے لئے علم و آگہی اور جدید سائنس سے مکمل پرہیز کرتے ہوئے ہم انقلاب کے پھٹے ڈھولوں اور تبدیلی کے خالی کنستروں کے کھڑکنے پر سر دھنتے رہیں تاکہ معجزاتی طور پر منزل خود بخود ہمارے قدموں میں آ گرے ۔ تب تک ہمیں مستقل مزاجی سے محو خواب رہ کر معجزہ ہذا کا انتظار کرنا ہوگا کہ
آگہی کا نصاب رہنے دو
زندگی محو خواب رہنے دو
تازہ ترین