• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قومی اسمبلی کے حلقہ NA,24 ڈیرہ اسماعیل خان سے امیدوار مسرت شاہین کو لوگ رقاصہ کے طور سے جانتے ہیں مگر میرے پاس ”امن“ کے عنوان سے وہ کالم لکھا کرتی تھی۔ ہفتے میں دو دن مقرر تھے، طے شدہ وقت پر آیا کرتی پہلے مجھے کالم سناتی پھر خود ہی کمپوزنگ سیکشن میں چلی چاتی، وہیں بیٹھے بیٹھے پروف بھی خود ہی پڑھتی پھر ادارتی صفحے کے انچارج کو کالم دے کر خود نیوز روم میں چلی جایا کرتی، زندگی کی دھوپ چھاؤں اور سرد گرم کی روداد، اکثر وہ مجھے سنایا کرتی، بات کرتے کرتے اچانک رو پڑتی، کبھی کبھی وہ اپنی اکلوتی بیٹی ”امن“ کو بھی ساتھ لایا کرتی جس نے بعد میں امریکہ سے MBA کیا ۔ اخباری امور میں اس کی دلچسپیاں دیکھ کر ایک دن میں نے کہا کہ فلم انڈسٹری چھوڑ چکی ہو، سیاست میں کیا دھرا ہے کوئی اخبار جوائین کر لو، وہ بولی مرزا صاحب میں نے زندگی میں بہت دکھ اٹھائے، بہتان اور الزامات کا سامنا کیا اب لوگوں کے کام آنا چاہتی ہوں، ان دنوں راولپنڈی سے تانگہ ختم کیا جا رہا تھا کوچوان پریشان تھے کوئی ان کا پرسان حال نہ تھا، خود بھی فاقوں سے ہوتے اور گھوڑے بھی بھوک سے بلک رہے ہوتے تھے، میں نے مسرت شاہین سے کہا کہ کوچوانوں کی آواز بن جاؤ، وہ تنہا ہیں تانگہ مارچ کرو تاکہ اقتدار کے ایوانوں تک ان کی آواز جائے، حکومت کو اس بات پر تیار کرو کہ وہ تانگہ بانوں کو آسان قسطوں پر رکشے دیدے تاکہ وہ بے روز گاری کے عذاب سے بچ جائیں، مسرت میری بات مان گئی، راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر سے تانگہ مارچ کی اجازت لے دی، راجہ بازار کے فوارہ چوک سے فیض آباد تک جلوس کی منظوری ہوئی راستے میں لیاقت باغ اور کمیٹی چوک میں خطاب کی بھی اجازت دلائی، لیکن مسرت شاہین نے جلوس کا روٹ خود ہی تبدیل کر کے فوارہ چوک سے ”لال حویلی“ پہنچ کر اس وقت کے وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کے خلاف نعرہ بازی کرائی، پھر جب پہلے تانگے پر بیٹھ کر جلوس کی قیادت کرتے ہوئے لیاقت باغ سے فیض آباد کی طرف مری روڈ پر آئی تو یوں لگ رہا تھا جیسے راولپنڈی کوچوانوں کا شہر ہے، بڑے بڑے سفید پوش کار سے نکل کر تانگوں میں بیٹھنے پر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں لگ گئے، جلوس جوں جوں چلتا گیا بڑھتا گیا
مسرت شاہین موبائل پر مجھ سے رابطے میں تھی وہ راستے کی صورت حال سے مجھے آگاہ رکھے ہوئے تھی لیکن فیض آباد پہنچ کر اس نے جب پلٹ کے دیکھا تو تاحد نظر تانگہ ہی تانگہ اور جھنڈے ہی جھنڈے لہرا رہے تھے ایسی صورت حال میں وہ خود پر قابو نہ رکھ سکی اور جلوس کو اسلام آباد کی طرف چلنے اور پارلیمنٹ کا گھیراؤ کرنے کا کہہ کر آگے بڑھتی رہی کہ اسلام آباد پولیس نے ان کی وہ کوشش ناکام بنا دی میں نے ٹیلی فون پر بہتیرا سمجھایا کہ آپ کو اجازت صرف راولپنڈی کی حدود تک ہے، لیکن وہ قومی اسمبلی کے سامنے ڈی چوک میں دھرنا دینا چاہتی تھی، بہر طور آناً فاناً فیض آباد، آنسو گیس میں ڈوب گیا کئی گھوڑے دم گھٹنے سے مر گئے تانگے چکنا چور ہوئے کوچوانوں کی خاصی تعداد زخمی ہوئی، مسرت شاہین کو بھی زخم آئے دو پولیس والے اسے کندھوں پر اٹھا کر جلوس سے دور لے گئے، اسپتال پہنچ کر بے ہوش ہوگئی ۔مسرت شاہین کی شادی پنجاب کے جاگیردار خانوادے کے امتیاز احمد چیمہ سے ہوئی۔ مسرت کے دیور جس کی پرورش مسرت نے ہی کی وہ معروف سیاستدان انور چیمہ کا داماد ہے، عارف نکئی بھی قریب کا رشتہ دار ہے،مسرت شاہین کا تعلق افغانستان کے قبیلے ”مشن خیل“ سے ہے اس کے دادا امیر خان گنڈاپور نے کابل سے ڈیرہ اسماعیل خان ہجرت کی تھی جنہوں نے 105 سال عمر پائی تھی۔ مسرت کے والد عبدالرحیم خان گنڈا پور پاک فوج میں صوبیدار تھے۔
1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں شریک رہے، وہ دوسری جنگ عظیم میں برما کے محاذ پر تھے۔ مسرت شاہین کے پر دادا پڑنگی خان ایک روحانی بزرگ تھے، سانپ بچھو اور بھڑ ان کے طابع تھے، مشن خیل قبیلے کے افراد کو ان تینوں موذی جانوروں کو مارنے کی اجازت نہیں ہے اور دلچسپ امر یہ ہے کہ قبیلے کے کسی فرد کو سانپ، بچھو اور بھڑ کبھی کاٹتے بھی نہیں۔ مسرت شاہین کی ولادت کے فوری بعد اس کی والدہ بلقیس خانم فوت ہو گئی تھی، بعد میں اسے اس کی سوتیلی ماں شمس النساء نے پالا پوسا، مسرت نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ڈیرہ اسماعیل خان کے محکمہ فیملی پلاننگ سے کیا تھا مگر علاقے کے بڑے بوڑھوں اور علماء نے کہا کہ غیر شادی شدہ لڑکی کا ایسے محکمے میں نوکری کرنا جائز نہیں، وہ چونکہ ٹرینڈ نرس تھی اس نے وہیں ایک ا سپتال میں نوکری کر لی مگر پھر اعتراض آیا کہ مردوں کے اسپتال میں لڑکی کا ہونا غیر شرعی ہے، وہ لاہور کے اسپتال میں چلی گئی جہاں فلمسٹار رنگیلا نے دیکھا تو ”فلموں میں لے گیا“ یہ 1974 ء کی بات ہے جب اس کے والد فوت ہو چکے تھے۔
مسرت شاہین بائیس برس تک فلموں میں رہی 1996ء میں علیحدگی اختیار کی۔1997ء کے انتخابات میں ڈیرہ اسماعیل خان کے قومی حلقہ NA,18 جو آج کل NA,24 ہے سے انتخاب میں آزاد امیدوار کے طور حصہ لیا، خود بھی ہاری، مولانا فضل الرحمن بھی ہار گئے۔ فیض کریم کنڈی بھی ناکام رہے، کامیابی کا ہماالحاج سردار عمر فاروق خان کے سر بیٹھا تھا ۔مسرت شاہین نے 2002ء میں اپنی سیاسی جماعت تحریک مساوات الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ تو کروائی مگر گریجویٹ نہ ہونے کی بنا پر اس سال انتخاب میں حصہ نہ لے سکی، جعلی ڈگری بنوانا اس کے لئے مشکل نہ تھا۔ وہ موجودہ انتخابات میں گریجویشن کی شرط ختم ہونے پر ایک بار پھر ڈیرہ اسماعیل خان کے حلقہ NA,24 سے انتخاب میں اتری تو ہیں، مگر دین دار حلقہ اس بات پر پریشان ہیں کہ اسے تیسرا کلمہ، سورہ مزمل اور سورہ مدثر کیسے یاد ہو گئی، اس نے الیکشن کمیشن کے اسکروٹنی افسر کو یہ کیسے کہہ دیا کہ وہ نماز اس لئے پورے انہماک اور خشوع سے پڑھتی ہے کہ اس میں دعائے ابراہیم پڑھی جاتی ہے جس میں والدین کی بخشش کی تاکید ہے۔ طویل عرصے بعد گزشتہ دنوں مسرت شاہین سے رابطہ کیا تو اس نے بے اختیار کہا کہ مرزا صاحب سیاست کے گملے میں آپ نے برسوں پہلے جو بیج بویا تھا اب ایک درخت بن چکا ہے۔
تازہ ترین