• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلے ہماری قومی ایئرلائن کا سلوگن تھا ’’باکمال لوگ لاجواب سروس‘‘ پھر رفتہ رفتہ نہ تو لوگ باکمال رہے اور نہ ہی سروس لاجواب!!۔ اب تو یہ حال ہے کہ ’’سروس‘‘ کے معنی ہی بدل گئے ہیں۔ آپ ایئرلائن میں سفر کررہے ہوں اور پیاس لگے تو ایک سے زائد بار پانی کا گلاس مانگ لیں۔ ایئرہوسٹس ناک بھوں چڑھاتی پانی ایسے لائے گی کہ آپ کی پیاس ’’نو،دوگیارہ‘‘۔ بھئی! آپ نے تو ’’کمال‘‘ کردیا، یہ جملہ ہم بار بار سنتے اور استعمال کرتے ہیں، یہ ’’کمال‘‘ ہماری زندگی میں بار بار آتا ہے۔کمال اور ’’عزت‘‘ بار بار نہیں ملتی۔ جب آپ کو لوگ ’’باکمال‘‘ بنادیں تو پھر اس میں آپ کی قابلیت کم اور دوسروں کا عمل دخل زیادہ ہوجاتا ہے۔
ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کردیا
قافلے بنتے ہیں ٹوٹتے ہیں، سفر جاری رہتا ہے۔ منزل کی تلاش میں قافلوں کا سفر نہیں رکتا۔ لوگ آتے ہیں شامل ہوتے ہیں، بچھڑ جاتے ہیں چھوڑ جاتے ہیں، نئے لوگ قافلوں کے امین بن جاتے ہیں۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عروج کے وقت توآپ کے پاس خوشامدیوں اور اغراض کے ماروں کا جم غفیر ہوتا ہے لیکن جب یہ موقع پرست زوال کی بو سونگھتے ہیں تو ایک ایک کرکے کھسکتے جاتے ہیں۔پھر وہ کسی اور آشیانے پر پڑائو ڈالتے ہیں ، لیکن اُن کے بھی کیا کہنے جو اُنہیں اپنی آغوش میں لے لیتے ہیں۔ زعم تو سب کو ہوتا ہے اور قافلے سے بچھڑنے والےاپنے زعم میں خود قافلہ تو بنا لیتے ہیں مگر اُن کی سرشت تبدیل نہیں ہو پاتی کیونکہ اُن کی تربیت میں جو عناصر ترتیب پاتے ہیں وہ اُن کی عادت سی بن جاتی ہے۔بڑے بڑے وعدے، بڑی بڑی مشکلات، غم اور خوشیاں سب زندگی کے ساتھ ساتھ ہیں ، لوگ اِن سے سیکھتے اورسبق حاصل کرتے ہیں۔ مگربات یہاں ختم نہیں ہو جاتی، ماضی کے جرم، غلطیاں، کوتاہیاں، گناہ، قصور کیا صرف ایک لفظ ’’معافی‘‘ سے ختم ہو جائیں گے، اُن کا حساب کون دے گا، وہ جو شریک جرم ہے وہ الگ ہو تو کیا پاکدامن ہو جائے گا؟۔ اُسے معافی مل گئی تو باقیوں کا کیا ہوگا؟۔ دوسروں کے جلائے ہوئے دیئے سے رہنمائی تو حاصل کی جاسکتی ہے، دوسروں کے دیئے سے اپنے دیئے تو جلائے جاسکتے ہیں مگر دوسروں کے دیئے بجھاکر صرف اپنا دیا جلانا انصاف تو نہیں؟۔ جن بانہوں کی طر ف تو لپکتا تھا، جس کی آغوش میں تو پناہ ڈھونڈتا تھا جس کے سینے سے لگ کر تو فخر کرتا تھا آج تو نے انہی بانہوں کو کاٹ دیا اسی آغوش کو جلا دیا، اے حضرت انساں تو کتنا احسان فراموش ہے ؟ تو ایک گمنام سپاہی تھا تو ایک ذرہ تھا اس نے تجھے نام دیا آفتاب بنایا تجھے سند دی، تجھے وقار دیا تجھے ہنر سکھائے، تجھےفن کمال دئیے ، باکمال بنایا، تجھے اوتار بنایا، تو نے کیا کیا؟؟ کیا دیا ؟؟ تو تو اسکے سامنے بولتا بھی نہ تھا آج تیرا ضمیر ایسے جاگا ہے جیسے وہ پہلے کبھی تھا ہی نہیں ۔۔۔ تیرا ضمیر پہلے کیوں سو رہا تھا، جو کچھ تیرے سامنے ہوا اس پر آنکھیںکیوں بند کئے رکھیں،اے حضرت انساں تو کتنا احسان فراموش ہے ؟تو آج نادم ہے؟ ، پھر سے خادم ہے!! اپنے کئے پر پچھتاوا ہے؟ تیرے پاس دینے کوکچھ نہیں،تیرے منہ میں صرف الزامات کی بوچھاڑ ہے؟ تو پھر ایک مسند پر فائز ہے! تو پھر گمر اہ ہونے چلا ہے؟ وقت کا پہیہ گھمانے چلا ہے! یہ وقت کسی کا نہیں، جو کسی کا نہیں ہوسکا، اسکا کون ہوسکتا ہے؟ وقت نے ہمیں یہی سکھایا ہے، جو سکھائے اسکے ہاتھ نہ کاٹو، اپنی زبان سے اسے زخم نہ دو، جو ایک لفظ بھی سکھائے وہ ا ستاد ہے اور کبھی استاد کے آگے زبان نہ چلانا؟ جو تو ایسا کرے گا ایک دن تیرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا یہی عمل مکافات ہے؟اے حضرت انساں تو کتنا احسان فراموش ہے؟ تو نے اپنا سب کچھ بھلادیا، جس نے تجھے ’’کمال ‘‘ کے قابل بنایا تو نے اسے ہی رگید دیا۔ اسے زمانے بھر کے سامنے رسوا کردیا، تجھے اسکا کوئی احسان یا دبھی نہ رہا، اسکی کوئی اچھی بات تجھے یاد ہی نہ آئی ، جب تو کسی قابل نہ تھا اس نے تجھے تراش خراش کر’’ ہیرا‘‘ بنایا، پہلے تو ، تو اسکے گن گاتا تھا اسکا دم بھرتا تھا، اسے ناخدا بنایا، ان داتا بنایا، تجھے آج کیا ہوا ہے ؟؟ آج تیری زبان اسکے خلاف زہر اگلے جاتی ہے اور تو اسے کنٹرول بھی نہیں کر پاتا،
سب جرم میرے نام سے منسوب ہوئے ہیں
کیا میرے سوا شہر میں معصوم ہیں سارے
یہ سب اس دن کا کمال ہے اس دن کا شاخسانہ ہے جب تیرے کرتوتوںپر تیرے گریباں پر ہاتھ ڈالا گیا، تجھے بے عزت کیا گیا، جب تجھے اپنی کم مائیگی کا احساس ہوا جب تجھ پر اسکے عیب عیاں ہوئے،اسکا کردار تجھ پر ظاہر ہوا، پھر تو نے اسکے کارنامے ’’سیاہ‘‘ کردئیے ؟ تو خالی ہاتھ یہاں سے گیا ،پھر تجھے کسی نے پھر پناہ دی، تجھے سہارا دیا، پھر کسی نے تربیت دی ،پھر کسی نے تجھے سکھایا۔ تیری آبیاری کی۔۔۔ تو پھر سے توانا ہوا، تو پھر اسے للکارنے لگا، تو پھر اسکے مد مقابل آگیا، اب نہ کوئی تیرا بھائی ہے نہ کوئی دوست اور نہ کوئی باپ کیونکہ اب تو خود اپنا باپ ہے۔ تیرے پیچھے کمال ہنر ہے ؟؟ کون کمال فن ہے؟ کون باکمال ہے، کون اب تیرا مسیحا ہے۔۔۔؟ بعض اوقات ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہمارے قریب ہمارے اپنے اس طرح ہمارا ساتھ چھوڑ جائیں گے ہمیں داغ مفارقت دے جائیں گے۔
وہ اس کمال سے کھیلا تھا عشق کی بازی
میں اپنی فتح سمجھتا تھا مات ہونے تک
تازہ ترین