• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسٹیٹ بینک کی جانب سے قومی معیشت کے بارے میں جاری کیے جانے والے تازہ ترین جائزے میں ایک بار پھر قرضوں میں مسلسل اضافے اور برآمدات میں کمی پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے جسے ہمارے معاشی حکمت کاروں کیلئے یقینا قابل توجہ ہونا چاہیے۔زرعی پالیسی کمیٹی کے فیصلے کے مطابق شرح سود چھ فی صد پر برقرار رکھنے کے اعلان کے ساتھ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت اسٹیٹ بینک سے لیے گئے قرضے تو واپس کررہی ہے لیکن اس کیلئے شیڈولڈ بینکوں پر انحصار کیا جارہا ہے جس سے قومی خزانے پر پر شیڈولڈ بینکوں کے قرضوں کا بوجھ مسلسل بڑھتا چلا جارہا ہے ۔برآمدات میں کمی کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’مشینری کی درآمد بڑھنے اور ملکی حالات میں بہتری کے باوجود کچھ عرصے سے برآمدات مسلسل گررہی ہیں اگرچہ ترسیلات زر کے بڑھنے کی وجہ سے جاری حسابات کے خسارے میں معمولی کمی واقع ہوئی ہے۔‘‘ اقتصادی جائزے کے مطابق چھ ماہ میں مہنگائی کی شرح دو اعشاریہ چھ فی صد بڑھی ہے۔سال بسال مہنگائی کی شرح جو گزشتہ سال ستمبر میں ایک اعشاریہ تین فی صد تھی،سال رواں کے تیسرے مہینے میں بڑھ کر تین اعشاریہ نو فی صد تک جاپہنچی ہے۔لیکن اس کا اصل سبب رپورٹ کے مطابق امن وامان کی بہتر ی اور حقیقی آمدنیوں کے بڑھنے کے سبب معاشی سرگرمی خصوصاً تعمیرات کے شعبے کی بڑھتی ہوئی فعالیت اور پائیدار صارف اشیاء کی طلب میں اضافہ ہے۔ بینک کی رپورٹ سے سامنے آنے والا یہ پہلو بھی حوصلہ افزاء کہ ہے کہ ترقیاتی اخراجات بڑھنے کے باوجود موجودہ مالی سال کی پہلی ششماہی میں مالیاتی خسارہ قابو میں رہا نیز اسی مدت میں ٹیکسوں کی وصولی میں بھی14.6 فی صد کا اضافہ ہوا۔آنے والے دنوں میں مزید معاشی بہتری کی توقع ظاہر کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صارفین کے مثبت احساسات اور اضافی قرضوں کی شرحوں کے نمایاں طور پر کم ہونے کے باعث نجی شعبے کے قرضے موجودہ مالی سال کے اختتام پر گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں خاصی بلند سطح پرہوں گے ۔ موجودہ مالی سال کی پہلی ششماہی میں بڑے پیمانے کی اشیاء سازی میں چار اعشاریہ ایک فی صد اضافہ ہوا جس میں گاڑیوں، سیمنٹ اور کھاد کا حصہ زیادہ تھا۔تاہم ٹیکسٹائل کا شعبہ جسے ہماری معیشت میں بنیادی اہمیت حاصل رہی ہے اور جو روزگار کے مواقع مہیا کرنے میں سب سے آگے ہوا کرتا تھا، بدستور مسائل کاشکار ہے۔فولاداور کاغذ کے شعبے کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ امید ہے کہ حکومت ان شعبوں کو قومی معیشت میں اپنا کردارپوری توانائی کے ساتھ ادا کرنے کے مواقع فراہم کرنے کیلئے ان کے مسائل کے حل پر حتی الوسع توجہ دے گی۔اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق ملک میںبنیادی غذائی اشیاء کے وافر ذخائر اور تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی کے برقرار رہنے کی وجہ سے صارفین کو اہم ضرویات زندگی بالخصوص غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جبکہ ترسیلات زر اور زرمبادلہ کے ذخائر بڑھنے کے باعث روپے کی قدر مستحکم ہے اور شرح سود میں کمی نجی شعبے کو متحرک کرنے کا سبب بنی ہے۔ رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں بھی قومی معیشت کی بہتری کی راہیں کھلی رہیں گی جن میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے رجحان کا جاری رہنا بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ موجودہ حکومت کی خوش نصیبی ہے کہ اس کے دور میں تیل کے عالمی نرخوں میں کمی کا رجحان مسلسل برقرار ہے۔ایسا نہ ہوتا تو برآمدات میں مسلسل کمی کی موجودہ صورت حال میں ہمارا توازن ادائیگی کہیں زیادہ ناموافق ہوسکتا تھا جس کے نتیجے میں معیشت پر سخت دباؤ یقینی ہوتا۔ اس سازگار صورت حال سے ہرممکن فائدہ اٹھایا جانا چاہئے۔ برآمدات میں اضافے کیلئے ملکی صنعتوں خصوصاً ٹیکسٹائل، اسٹیل اور کاغذ و گتے کی صنعتوں کے مسائل حل کیے جانے چاہئیں۔اس کے ساتھ ساتھ قوم کو مسلسل بڑھتے ہوئے ملکی اور غیرملکی قرضوں کے جال سے نکالنے کا لائحہ عمل بھی واضح کیا جانا چاہیے کیونکہ قرضوں کی موجودہ صورت حال بالکل فطری اور بجا طور پرعوام کیلئے سخت تشویش کا سبب ہے۔
تازہ ترین