• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہیلو ،میرا نام جان ڈو ہے کیا آپ کو ڈیٹا حاصل کرنے میں دلچسپی ہے۔ یہ تھا وہ خفیہ پیغام جس سے دنیا بھر میں ہلچل مچا دینے والے معاملے پاناما لیکس کا آغاز ہوا۔ یہ پیغام سال دو ہزار چودہ میں جرمنی کے بڑے اخبار سود یوچیزیتنگ کے صحافی بیسٹئین اوبرمئیر کو ملا تو اس نے ہر وقت خبر کی تلاش میں سرگرداں دنیا بھر کے ہرصحافی کی طرح اس ڈیٹا کے حصول میں دلچسپی ظاہر کی لیکن اس کے بعد جو ہوا وہ بیسٹئین اس کے ساتھی صحافی فریڈرک اوبرمئیر حتیٰ کہ جرمن اخبار کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ جان ڈو نامی خدائی خدمت گار نے پاناما کی اس لاء فرم موساک فونیسکا کی خفیہ دستاویزات بھیجنا شروع کیں جو دنیا کے دولت مند افراد کیلئے آف شور کمپنیاں قائم کرنے کیلئے خصوصی شہرت رکھتی تھی تو ان ڈیجیٹل فائلوں کی تعداد ایک کروڑ پندرہ لاکھ تک پہنچ گئی۔ جرمن اخبار اور اس کے صحافی آج بھی نہیں جانتے کہ دنیا بھر کے امیر ترین افراد کی شناخت کا پردہ چاک کرنے کیلئے چارعشروں پر محیط دنیا کی سب سے بڑی لیکس، فراہم کرنے والے کی اپنی شناخت کیا ہے۔ جرمن اخبار کے ان صحافیوں کے مطابق خفیہ دستاویزات فراہم کرنے والے اس ’’ سورس‘‘ نے ان سے کبھی مالی مفادات کا تقاضا نہیں کیا بلکہ اس کا صرف یہ مطالبہ تھا کہ اس مواد کو شائع اور نشر کر کے ان جرائم کو منظر عام پر لایا جائے۔ جرمن اخبار نے فراہم کر دہ ڈیٹا کے حجم کو دیکھا تو یہ تقریبا اڑتیس ہزار کتابوں کے مساوی تھا جس کی جانچ پڑتال اور بطور خبراشاعت یقینا ایک نا ممکن کام تھا چناچہ اس کو ممکن بنانے کیلئے اس نے واشنگٹن میں قائم تحقیقاتی صحافیوں کے عالمی کنسورشیم آئی سی آئی جے سے رابطہ کیا اور یوں ایک سال سے زائد عرصے کی عرق ریزی کے بعد دنیا بھر سے 70 ممالک کے 100 صحافتی اداروں کے 370 صحافیوں کے اشتراک سے وہ اسکینڈل منظر عام پر آیا جو پاناما لیکس یا پاناما پیپرز کے نام سے روس سے چین اور برطانیہ سے پاکستان تک کے حکمرانوں کیلئے ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔ پاکستان کی صحافتی برادری کیلئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ دنیا بھر کی سیاست اور معیشت پر اثر انداز ہونیوالی اس غیر معمولی خبر کو منظر عام پر لانے والوں میں عمرچیمہ جیسے کہنہ مشق اور تحقیقاتی صحافی کا نام بھی شامل ہے جس پر وہ اور ان کا ادارہ دی نیوز اور جنگ گروپ خراج تحسین کا مستحق ہے۔ پاناما لیکس میں دنیا بھر کے 2 لاکھ 14 ہزار افراد ،کمپنیوں اور اداروں کے نام شامل ہیں اور ہمیں یہ ’’اعزاز‘‘ بھی حاصل ہے کہ اس میں پاکستان کے 200 ایسے افراد بھی ہیں جن کا تعلق سیاست ،کاروبار اور ملازمت سے ہے۔ پاناما لیکس میں وزیر اعظم کے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کا نام شامل ہونے کی وجہ سے ملکی سیاست کے منظر نامے پر اس کے اثرات اتنے گہرے دکھائی دے رہے ہیں کہ مستقبل قریب میں حکمراں خاندان کےلئے اس سے پہلو بچا کر نکل جانا ممکن نظر نہیں آ رہا۔ اس سے مفر نہیں کہ پاناما لیکس نے اپوزیشن خصوصا پاکستان تحریک انصاف کے تن مردہ میں نئی روح پھونک دی ہے اور اس بار کپتان کے ہاتھ ترپ کا وہ پتہ آچکاہے جس کی چال کا سامنا قوم سے خطاب ،تقریریں،پریس کانفرنسیں کرنے ،بیانات دینے، آستینیں چڑھا کر منہ سے کف نکالنے اور محض جوابی الزامات لگانے سے نہیں کیا جا سکے گا، پارٹی پلیٹ فارم سے وزیر اعظم کے صاحبزادوں کے کاروباری معاملات کا دفاع کرنے والوں کو اب تک باور ہو جانا چاہئے تھا کہ آف شور کمپنیوں سے متعلق جن دستاویزات کے منظر عام پر آنے کے بعد دنیا بھر میں اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل مچ جائے گی، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، آسٹریلین بینک کے چیف ایگزیکٹو اور دیگر معروف عالمی اداروں کے سربراہان کو مستعفی ہونا پڑے،برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور ارجنٹائن کے صدر مارسیو مکری کو عہدہ چھوڑنے کیلئے غیر معمولی دبائو کا سامنا کرنا پڑے گا وہاں ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان کر کے جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برٹش ورجن آئی لینڈ،چینل آئی لینڈ، بہاماس ،پاناما ور سیشیلز میں قائم آف شور کمپنیاں کبھی ایک راز نہیں رہیں اور نہ ہی امریکہ اور برطانیہ سمیت دیگر ممالک نے ان آف شور کمپنیوں کو قائم کرنیو الی موساک فونسیکا جیسی کمپنیوں پر کوئی پابندی عائد کی ہے حتیٰ کہ یہ آف شور کمپنیاں کبھی غیر قانونی بھی تصور نہیں کی گئیں لیکن یہ ہر ذی شعور جانتا ہے کہ اپنے ملک اور اس کے قوانین سے دور یہ آف شور کمپنیاں غیر معمولی دولت کو چھپانے،اپنی شناخت کو راز میں رکھنے اور ٹیکس کو بچانے کیلئے قائم کی جاتی ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ کسی بھی آف شور کمپنی کے ذریعے برطانیہ میں جائیداد خریدنے کا مقصد اسٹیمپ ڈیوٹی کی مد میں عائد بھاری ٹیکس سے بچنا ہوتا ہے اور یہ کھلا راز برطانوی حکومت بھی بخوبی جانتی ہے لیکن ان آف شور کمپنیوں کے ذریعے سرمایہ کاری پر کوئی قدغن عائد نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ حکمراں خاندان نے ماضی میں بھی پارک لین میں فلیٹ خریدنے کےلئے ایسی ہی آف شور کمپنیوں کا سہارالیا تھا تاہم اس وقت ان کمپنیوں کی ملکیت سے انکار کیا تھا جیسے آصف زرداری نے ایسی ہی کمپنی کے ذریعے سرے محل خرید کر اس کی ملکیت سے انکار کیا تھا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاناما لیکس کو افشا کرنے والی تنظیم آئی سی آئی جے نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ ان دستاویزات پر مبنی خبروں کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ یہ تمام آف شور کمپنیاں غیر قانونی ہیں اور ان کی ملکیت رکھنے والوں نے یقینا غیر قانونی کام ہی کیا ہے لیکن موساک فونسیکا کی گزشتہ سال کی آڈٹ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ لاء فرم نے جو 14 ہزار 86 آف شور کمپنیاں قائم کرنے کیلئے خدمات فراہم کیں ان میں سے اسے محض 204 کمپنیوں کے حقیقی مالکوں کا پتہ تھا۔ موساک فونسیکا نے خود اعتراف کیا کہ اس نے ناجائز ذرائع سے دولت کمانے والے ایک امریکی کو جعلی کاغذات کے ذریعے آف شور کمپنی قائم کر کے دی تاکہ وہ امریکی حکام سے اس دولت کو چھپا سکے۔ وزیر اعظم پاکستان نے قوم سے خطاب کے دوران یہ وضاحت پیش کی کہ ان کے صاحب زادوں نے آف شور کمپنیاں اپنے نام سے قائم کی ہیں اور بد عنوانی کرنے اور ناجائز ذرائع سے دولت کمانے والے اپنے نام سے کمپنیاں قائم نہیں کرتے،انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ یہ کمپنیاں جلا وطنی کے دوران ایک خلیجی ملک میں قائم کی جانے والی اسٹیل ملز کو فروخت کر کے قائم کی گئیں۔ یہاں بحث ان آف شور کمپنیوں کے قانونی یا غیر قانونی ہونے کی نہیں بلکہ مفادات کے ٹکراؤ کی ہے اس لئے یہ سوال ضرور جنم لیتا ہے کہ کیا اس ملک کے بینک حسین نواز کو اسٹیل ملزلگانے کیلئے خطیر قرضہ فراہم کرتے اگر وہ پاکستان کے دو بار وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کے صاحب زادے نہ ہوتے۔ حسن،حسین اور مریم کے نام کیساتھ نوازحصہ نہ ہوتا تو کیا وہ اتنے قابل ذکر ہوتے کہ پاناما پیپرزمیں جگہ حاصل کر پاتے۔ جناب وزیر اعظم صاحب ! ملکی ٹیکس قوانین حسن اورحسین نواز کو 180 دن بیرون ملک قیام پذیر ہونے کے باعث ’’نان ریزیڈینٹ‘‘ کا اسٹیٹس دیتے ہوئے انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرانے سے استثنیٰ دیتے ہوں لیکن اگر آپ سالانہ گوشواروں میں خود کو ایسا شخص ظاہر کریں گے کہ جس کی ذاتی ملکیت میں نہ گھر ہے نہ گاڑی تو آپ کی بچوں کے بیرون ملک اربوں روپے کے اثاثہ جات سامنے آنے پر لوگ اس دن دگنی رات چوگنی ترقی کا حساب ضرور طلب کریں گے جسے آپ ’’محنت‘‘ اور’’برکت‘‘ کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ محض بیان بازی سے ان کا دفاع کرنے والوں کو یہ ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ رائیونڈ کے باہر دھرنا دینے کا اعلان کرنے والے عمران خان کو معاملے کی غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کے ذریعے اگرمطمئن نہ کیا گیا تو اس بار نتیجہ مختلف بھی ہوسکتا ہے۔
تازہ ترین