• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عرض تمنا … خالد محمود جونوی
چھ ہفتے قبل امریکہ میں ایک سیاہ فام جارج فلائیڈ پولیس کی حراست میں مر گیا جس کے احتجاج میں سیاہ فام کمیونٹی کا سفید فام کمیونٹی سمیت ہر اس شخص سے بھرپور ساتھ دیا جو انسانی حقوق کی بالادستی پر یقین رکھتا ہے۔ یہ احتجاج (اگرچہ اس میں بعدازاں تشدد کا عنصر بھی شامل ہوگیا) مگر اس کی بازگشت پوری دنیا میں پہنچی اور Black Lives Matterکے نعرے کو تقویت پہنچی کہ ہر شخص کو رنگ و نسل کی تمیز کئے بغیر اس کی جان و عزت نفس کی توقیر کی جائے۔ مگر یہ خیال گزشتہ کئی دنوں سے جی کو پریشان کررہا ہے کہ ایک شخص کی موت سے دنیا ہل جاتی ہے لیکن جب اس کا موازنہ اپنے وطن کشمیر سے کرتا ہوں جہاں ہر روز درجنوں لوگ شہید ہورہے ہیں بالخصوص چند دن قبل کی وہ المناک ویڈیو جو وائرل ہوئی ہے جس میں تین سالہ نواسے کے سامنے اس کے نانا کو شہید کردیا جاتا ہے تو کہیں سے بھی Kahmiri Lives Matterکی صدا بلند نہیں ہوتی۔ کبھی کبھی سوچتے ہیں کہ لاکھوں قربانیوں کے باوجود اور ایک جینوئن تحریک ہونے کے باوجود کیا وجہ ہے کہ غیر تو غیر خود ہمارے نام نہاد برادر اسلامی ممالک بھی اس معاملے پر کھل کر ہمارا ساتھ دینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہر کیوں کررہے ہیں؟ جب ساری صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو اس میں دوسروں کی غلطیاں کم اور اپنی کوتاہیاں زیادہ ہیں۔ آزادی کے خواب دیکھنے والوں کے چلن اس طرح کے نہیں ہوتے۔ اس سلسلے میں آزاد کشمیر حکومت کا کردار ہو یا برطانیہ و یورپ میں موجود کشمیری ڈسفرا کا، ہماری روزمرہ کی زندگی کے معاملات میں اس جدوجہد سے وابستگی کی ذرا بھی نسبت نہیں ملتی۔ مقبوضہ وادی میں جہاں ظلم و ستم اپنی تمام حدیں عبور کرچکا ہے مگر ایک ہم ہیں سارے پہلوئوں سے پہلوتہی کررہے ہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے خلاف مقامی سطح پر احتجاجی مظاہرہ ترتیب دیا گیا تو کمال کا نظم و ضبط تھا۔ شرکاء نے بارش میں بھیگنے کے باوجود اپنی جگہ سے نہ ہلے مگر اس جگہ پر ہمارا بھی ایک مظاہرہ چند ماہ پہلے ہوا تھا عوام تو بے چاری اپنی جگہ پر کھڑی رہی مگر ہمارے لیڈران کرام نے اسٹیج سے ایک دوسرے کو دھکے دے دے کر اپنی کہنیاں تک زخمی کرلیں حالانکہ یہ مقامی سطح کا مظاہرہ تھا۔ رہنما اور شرکاء بھی ایک دوسرے سے واقف تھے مگر اس حساس موقع پر بھی ریاکاری اور خودنمائی کرنے والوں نے بہت سارے سنجیدہ لوگوں کو مضطرب کردیا۔ بھارت نے گزشتہ سال جب آزاد جموں و کشمیر کی جداگانہ حیثیت ختم کی تو اس کے احتجاج کے طور پر ہم نے مظاہرے کئے جن میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام کی تعداد بھی کم ہوتی گئی۔ اب تو بھارت نے غری ریاستی لوگوں کو ریاست باشندہ سرٹیفیکٹ بھی بانٹنا شروع کردیئے ہیں۔ اس ساری صورتحال کے باوجود کہیں کہیں احتجاج کی معمولی معمولی صدائیں بلند ہوئیں اور پھر زندگی ہمارے پرانے ڈگر پر چل پڑی اور شاید ہم لوگ مذمت کے علاوہ کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ زیادہ دور کیا جائیں لیبر پارٹی کے حوالے سے ہمارے لوگوں نے اپنی ساری ہمدردیاں اس کے پاس گروی رکھی ہوئی ہیں اور اس کے نئے لیڈر کا بیان (اگرچہ پارٹی پالیسیوں کے متصاد تھا) ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے کافی تھا اس نے شاید یہ بیان قدرے عجلت میں جاری کیا لیکن اس کے بعد ہمارے رہنمائوں کا یہ فرض تھا کہ معاملات طے کرکے اسے ساری صورتحال سمجھاتے، تحریک آزادی کشمیر کا بیس کیمپ اگرچہ اقتدار پسند طبقے کی مجرمانہ غفلتوں کے باعث ہمیشہ ناقدین کی زد میں رہا کہ ضرورت اس امر کی تھی کہ سارے وسائل جدوجہد آزادی کو تقویت پہنچانے میں صرف کئے جاتے مگر عقل و فہم سے عاری یہاں کی قیادت نے اسے اپنی حتمی منزل سمجھ لیا۔۔۔۔لیٹروں نے جنگل میں شمعیں جلا دیں۔۔۔ اور مسافر یہ سمجھے کہ منزل یہی ہے۔۔۔۔۔آزادی کشمیر کے بیس کیمپ سے ابھی گلے شکوے ختم نہیں ہوئے تھے کہ سرحد پار سے بھی بدقسمتی سے کچھ حوصلہ افزا خبریں نہیں مل رہیں۔ حریت قیادت میں اختلافات اتنے شدت اختیار کرگئے ہیں کہ جدوجہد آزادی کشمیر سے ایک گہری وابستگی رکھنے ایک پیرمقاں سید علی گیلانی بھی استعفیٰ دینے کے فیصلے پر جا پہنچا۔ المختر مندرجہ بالا تمام نوحے پڑھنے کے بعد حالت اگرچہ گھمبیر ہی سہی لیکن ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیئے۔ ہمارے لیڈران کرام جن کے عیبوں کو بھی بدقسمتی سے ہنر کہتے آتئے ہیں۔ ان کی ہدایت کی دعا کے ساتھ ساتھ ہم اپنی پچھلی غلطیوں اور کوتاہیوں کی تو یہ تائب کرتے ہوئے اپنا اپنا قبلہ درست کرتے ہیں ہمیں یقین ہے جس دن ہم نے ٓاصلاح کی ٹھان لی پھر نتائج بھی مختلف ہونگے لہذا آیئے مل جل کر ’’ہم عوام‘‘ فکر و عمل کے نئے دریچے کھولتے ہیں، جو جاندار اور قابل فہم ہوں جن سے حقیقی معنوں میں کشمیریوں کی آزمائشیں کم ہوں۔۔۔۔یا رب! کسی طرح یہ سیاست شرف بنے۔۔۔۔قائد نہ اور دے تو ہمیں، دے عوام اور ۔۔۔
تازہ ترین