• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکشن کمیشن نے انتخابی امیدواروں کی جعلی ڈگریوں کے چیک کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، اس سے یہ امید پیدا ہو چلی تھی کہ پاکستان میں ''الیکشن بمطابق آئین ''کا آغاز ہو گیا ہے۔ دوسرا اہم چیک ، ٹیکس چوری اور قرضے خوری کا تھا ، جس کے لئے متعلقہ حکومتی اداروں نے کمیشن کو ریکارڈ بھی فراہم کیا ۔ گویا دستاویزی ثبوت موجود ہیں ۔ اس حوالے سے کمیشن ایک حد تک کچھ چھوٹی بڑی مچھلیوں کو پکڑ کر اپنی آزادانہ اور مستعد پوزیشن کے تاثر کو بر قرار رکھ سکتا تھا ، لیکن قوم اب ایک بار پھر مایوس ہے کہ کمیشن نے جس طرح فقط ڈگریوں کے چیک کے ساتھ سکروٹنی کے عمل کو کسی حد تک آئین کے تابع کیا تھا اس کو بھی ریورس گیئر لگ گیا ۔ پھر سے انتخابی عمل حسب سابق روایتی انداز ہی کا ہوکر رہ گیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ 189اراکین اسمبلی کی جن ڈگریوں کی تصدیق اب تک نہیں ہو پا رہی تھی ان کی تعداد اب کتنی رہ گئی ؟ جو نکل گئے ، وہ جعلی ڈگریوں کا ایشو اٹھنے سے اب تک اپنی ڈگریوں کی تصدیق کیوں نہ کرا سکے تھے ؟ اب انہیں سکروٹنی کے موقع پر ہی کون سے گیڈر سنگھی مل گئی کہ یک دم وہ کلیئر ہو گئے ۔ شہرت یافتہ چھوٹے بڑے جعلی ڈگری ہولڈرز کے کمیشن کی چھلنی سے نکلنے کے علاوہ ریٹر ننگ آفیسر ز کے مضحکہ خیز سوالات اور اوٹ پٹانگ اعتراضات نے کمیشن کی استعدا د کا مایوس کن تاثر پیدا کر نے میں اہم کر دار ادا کیا ۔کیونکہ یہ کار بد ملک گیر سطح پر ہوا ، اس لئے ریٹر ننگ آفیسرز اور ان کے سوالات ہی مضحکہ خیز ثابت نہیں ہو ئے بلکہ الیکشن کمیشن کا تیزی سے بنتا اعتبار بری طرح متاثر ہوا ۔”الیکشن بمطابق آئین “کی مطلوبہ ضرورت صرف آرٹیکلز 62،63 کے جزوی اطلاق سے ہی پو ری ہو سکتی تھی ، جزوی اس لئے کہ ان آرٹیکلز کا ایک حصہ تو 2نمبر سیاست دانوں پر ایک بہت واضح اور غیر متنازعہ چیک ہے ، جیسے ٹیکس چوری ، قرض خوری اور جعلی ڈگری بنوانے کا مرتکب ہونا ، لیکن دوسرا حصہ متنازعہ اور مبہم ہے جس کا اطلاق مشکل تر ہے ۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان آرٹیکلز میں آئینی ترمیم تک اس کے اطلاق سے گزیر کیا جاتا اور زیادہ سے زیادہ سپریم کورٹ تک پہنچنے والے کیسز میں عدلیہ کی تشریح پر چھوڑ دینا چاہئے تھا لیکن ہوا یہ کہ بحیثیت مجموعی ریٹر ننگ آفیسروں کے اپنے حد درجہ نااہل اور نیم جاہل ہو نے یا کسی سازش کا حصہ بننے کے باعث ، انہوں نے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کمیشن پر انگلیاں اٹھوانے اور اسٹیٹس کو ء کی طاقتوں ، خصوصاً ا ن کے ابلاغی معاونین سے کمیشن کی بھد اڑانے کا خوب موقع فراہم کیا ، نتیجہ یہ نکلا کہ الیکشن کمیشن پر دباؤ نے اس کے جعلی ڈگریوں پر لگے جال کے پھندے بھی کھول دیے ۔ جس میں وہ درخواست دہندگان پھر امیدوار بننے میں کامیاب ہو گئے ، جو معاشرے میں جعل ساز کے طور پر شہرت پاچکے ہیں یا جن کے گردو نواح کے لو گ اصل حقائق سے بخوبی آگاہ ہیں ۔وہ اب منہ میں انگلیاں دبائے ، حسب روایت سیاست دانوں کی مرضی کے انتخاب کے امکان نمایاں ہونے پر شدید مایوس ہیں ۔”جمہوریت پسندوں“کی جمہوریت پسندی کی اصل حقیقت بھی آشکارہو گئی ۔ ان کا مجموعی ابلاغ اس امر کا عکاس ہے کہ یہ آئین کے مطابق تو نہیں بلکہ اپنی اعراض کے تحفظ اور سیاست دانوں کی مرضی و منشاء کے مطابق ہی انتخابی عمل چاہتے ہیں ۔ اس صورت حال نے یہ شدید خدشہ پیدا کر دیا ہے کہ بعد از انتخاب ، جو بھی نیا ریاستی ڈھانچہ ، پارلیمنٹ ، وفاقی و صوبائی حکومتیں ،نئی وفاقی و صوبائی کابینہ اور محکمہ جاتی سربراہوں کی نئی ٹیم کی شکل میں وجود میں آئے گا وہ عوام سے زیادہ فقط حکمران طبقے ، اپنی جماعتوں اور ان کے کارکنوں ، سیاسی قائدین اور ان کے اہل خانہ کی خد مت پر مامور ہو گا ۔ عوام ایک بار پھر اصلاً تو بھاڑ میں جھونک دیے جائیں گے ۔ زیادہ سے زیادہ پہلے کے مقابل حالات کو قدرے بہتر بنا کر زیادہ زور اپنا الو سیدھا کر نے پر لگا رہے گا ، اور چر چا ہوگا کہ ہم پہلوں سے بہتر ہیں ۔ ملک اب کسی صورت کچھوے کی چال کے ارتقاء کا متحمل نہیں ہوسکتا۔سو، یہ سیاسی مکاری اب نہیں چلے گی ۔ بعداز الیکشن اسٹیٹس کو کے حکمران بننے والے سیاست دان اپنے دل و دماغ سے یہ نکال دیں کہ اب عوام ایک بار پھر” جمہوریت“کی خاطر انہیں بھی دوسری باری پوری کر نے دیں گے ۔وہ جس طرح کے روایتی امیدوار سامنے لا رہے ہیں اس سے تو اندازہ ہو چکاہے کہ ان کے انقلابی نعرے فقط ایک سیاسی ضرورت تھی ، وہ بدستور اسٹیٹس کو کے دائرے میں ہی رہیں گے جب تک حکمرانوں پر ان قوانین کا اطلاق نہیں ہو گا ، جن کے تحت عوام کے گھر اور کاروبار قرقی ہوتے ہیں ، وہ اپنی کم آمدنی کے بھی ٹیکس ادا کرتے ہیں ، چھوٹی چھوٹی جعل سازیوں پر نوکریاں گنواتے اور سزائیں پاتے ہیں ، جمہوریت آئے گی نہ کوئی عوام دوستی تبدیلی ۔ مرضی کے انتخابی عمل کے نتیجے میں تشکیل پائی حکومتیں اور اسمبلیاں ہر گز مستحکم ہونگی نہ معیاری ۔ اگر انتخاب کے بعد یہ نقشہ بنا تو پھر اپوزیشن کو حکومت سے زیادہ طاقت ور بننا ہوگا ، جو حکومت پر آئین کی روشنی میں چیک سے ہی ممکن ہو گا ۔ اگر بننے والی نئی اپوزیشن نے بھی اپنے رویے اور انداز سے یہی ثابت کیا کہ وہ اسٹیٹس کو ء دور کی ہی اپوزیشن ہے توقائدین سیاست اور ان کے حواری فقیر کی یہ صدا سن لیں اورذہن نشین کر لیں کہ ملک میں نئی سیاسی قوتیں پیدا ہونے کا عمل شروع ہو کر رہے گا ۔ یہ سیاسی جماعتیں گلی ،محلے ،بازاروں، فیکٹریوں اوردیہات سے برآمد ہو نگی ۔ ان کی بنیاد اور طاقت ”آئین کا مکمل اطلاق“ اور ”قانو ن سب کے لئے“ ہو گا ۔ یہ سیاسی قوتیں دائیں بازو کی ہو نگی نہ بائیں کی۔ نام نہاد لبرل ہو نگی نہ انتہاء پسند مذہبی ، نہ خاندانوں کی پوجا کر نیو الے”جمہوریت پسند“پچاریوں کی ۔ یہ پاکستان کو اسلامی جمہوریہ کے متفقہ آئین کے مطابق اسلامی جمہوریہ بنانے پر متفق ہونگی ۔ آئین کی وہ دفعات جو 2تہائی اکثریت سے مبہم ، ناقابل تشریح اور ناقابل عمل ہونگی انہیں ہذف کر دیا جائے گا ۔ یہ آئین کے”مطلق اطلاق“ اور”قانون کا اطلاق سب پر یکساں“کو اپنی نئی قومی سیاست کی بنیاد بنائیں گی ۔ یہ ایسی نئی سیاست ہوگی جو ہمیں روز اول سے ہی مطلوب ہے ۔
وہ جن کاقلم قائد اعظم کو قائد اعظم نہیں لکھ سکتا اور وہ”پارٹیشن آف انڈیا“کے بے مثال تاریخی کارنامے کو انجام دینے والے کو” مسٹر جناح“ میں محدوداور پاکستان کو لبرل اور ملّا میں تقسیم کر کے اپنی حلوہ خوری جاری رکھنا چاہتے ہیں ، ایک ایسے مستحکم پاکستان میں رہیں گے جس میں لبرل اور ملّا،دایاں اور بایاں، رجعت پسند ترقی پسند اور احسا س کمتری سے لبرل بننے والے سب ایک آئین اور ایک قانون کے تابع پاکستانی قومیت کے قومی دھارے میں زندگی گزاریں گے ۔ جس میں ہمارے Sub Cultureکو اسی قومی چھتری میں پھلنے پھولنے کے مکمل مواقع بھی ہوں گے اور یہ پاکستانی قومیت کا حسن بھی ہو گا۔
تازہ ترین