• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا آپ کبھی کسی کی محبت میں گرفتار ہوئے ہیں ؟ اگر نہیں تو پہلی فرصت میں کوئی محبوب تلاش کیجئے اور یہ تجربہ کر ڈالئے کیونکہ جس جذبے کے تحت دنیا میں جنگیں چھڑ جاتی ہیں ،سلطنتیں قربان کر دی جاتی ہیں اور لوگ بیٹھے بٹھائے اپنے آپ کو جنت میں محسوس کرنا شروع کر دیتے ہیں ،اگر کوئی انسان زندگی بھر اس جذبے کا تجربہ ہی نہیں کر پاتا تو پھر اسے چاہئے کہ فوری طور پر کسی حکیم سے اپنا علاج کروائے ۔اور جو لوگ محبت کا تجربہ کر چکے ہیں(اور یہ تجربہ تا حال جاری ہے) ان سے سوال ہے کہ کیا کبھی آپ کو اپنے محبوب میں کبھی کوئی برائی یا کجی نظر آئی؟ اس سوال کا جواب یقینا وہی ہوگا جو آپ کے اور میرے ذہن میں ہے لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے کہ محبوب میں جتنی بھی برائیاں یا کمزوریاں ہوں، وہ سب عاشق کی آنکھوں کے آگے دھندلا جاتی ہیں ،محبوب کی بے تکی باتوں کے آگے افلاطون کا فلسفہ ہیچ نظر آتا ہے،اس جیسا خوبصورت دنیا میں اور کوئی نہیں لگتا چاہے اس کی آنکھیں ایک وقت میں دو لوگوں کو دیکھنے کی صلاحیت ہی کیوں نہ رکھتی ہوں ،اس کی پھٹی پرانی جینز میں بھی ”کلاس“ دکھائی دیتی ہے ،اس کا ایف اے میں فیل ہونا کوئی معنی ہی نہیں رکھتا (بل گیٹس بھی تو کالج ڈراپ آؤٹ تھا)اور اس کے بیروز گار ی کو خودی کی معراج سمجھا جاتا ہے!ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جس شخص سے محبت ہو، ذہن اس کے بارے میں منفی باتیں سوچنا ہی نہیں چاہتا ؟
ذہن کی اس کیفیت کو scotomaکہتے ہیں ۔طبی زبان میں اسے blind spotکہا جاتا ہے ،یہ ہر دودھ دینے والے جاندار کی آنکھ میں پایا جاتا ہے ۔نفسیات میں اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی ذہن وہی کچھ دیکھتا ہے جو وہ دیکھنا چاہتا ہے ۔اس کی مثال ایسے ہے کہ انسان کو اپنی ذات کی جملہ خصوصیات کا کبھی ادراک نہیں ہو پاتا جبکہ وہ خصوصیات دوسرے انسانوں کے سامنے کھلی کتا ب کی مانند ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر آپ کبھی کسی نفسیا ت دان کے چند سوالوں کا ٹھیک ٹھیک جواب دیں تو وہ آپ کی شخصیت کے بارے میں ایسی باتیں کھول کر بیان کر دے گا کہ آپ حیرت میں ڈوب جائینگے ۔محبت کے ضمن میں یہ scotomaہی کا رفرما ہوتا ہے ۔محبوب کے بارے میں آپ کو وہی کچھ نظر آتا ہے جو آپ کا ذہن دیکھنا چاہتا ہے۔ اگر آپ کی محبت تازہ دم ہے (سچی یا جھوٹی محبت کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ایک طویل بحث ہے ) تو پھر بھلے ساری دنیا آ پ کو سمجھائے کہ برادر جس لڑکی سے تم شادی کرنا چاہتے ہو وہ کالی ہے تو گھسا پٹا جواب آئے گا کہ لیلیٰ بھی تو کالی تھی اور ویسے بھی محبت جسم سے نہیں روح سے کی جاتی ہے۔اب پتہ نہیں اس کا کیا مطلب ہے کیونکہ میں نے آج تک بڑے سے بڑے عاشق کو کسی روح سے شادی کرتے نہیں دیکھا ۔اور اگر عاشق کسی قدر ترقی پسند اور تخلیقی ہو تو لیلیٰ کی مثال دینے کی بجائے ہالی وڈ کی اداکارہ ہل بیری کی مثال دے ڈالے گا اور ساتھ میں یہ بھی کہے گا تم رجعت پسند اب تک انسانوں کو رنگ و نسل سے ممتاز کرتے ہو ،شرم آنی چاہئے۔انسانی ذہن بڑی پیچیدہ چیز ہے ،اگر کسی وجہ سے محبوب سے قطع تعلق کرنا مقصود ہو تو اس صورت میں عاشق کا ذہن اپنے محبوب میں ایسے ایسے کیڑے تلاش کریگا جو صرف محدب عدسے سے ہی نظر آسکتے ہیں ۔یہاں بھی scotomaفعال ہو جائیگا اور اب عاشق وہی کچھ دیکھے گا جو اس کا ذہن دیکھنا چاہتا ہے ،اب اسے محبوب کی سچی محبت کا یقین آئے گا اور نہ وہ جینے مرنے کی قسمیں یاد آئیں گی جو دونوں نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر کھائیں تھی ۔ جس محبوب کے جوتوں کے تسمے اپنے ہاتھوں سے بند کرتے وقت طمانیت محسوس ہوتی تھی اب اس کا نام سنتے ہی طعنوں کی طویل فہرست ذہن میں آجائے گی ۔محبت کا ڈراپ سین ہو جائے گا ،دی اینڈ!
Scotomaصرف محبت میں ہی کار فرما نہیں ،ہم زندگی کے ہر موڑ پر اس کا شکار ہوتے ہیں۔عاملوں، جوتشیوں، پیروں، فقیروں کی مثال لے لیں ۔ضرورت مند دیوانہ ہوتا ہے اور ہم جیسے معاشروں میں تو ہر بندہ ہی دیوانہ ہے چاہے وہ ارب پتی ہو یا ککھ پتی ۔ جو لوگ ان عاملوں وغیرہ کے پاس جاتے ہیں وہ اپنے من کی مراد پائیں یا نہ پائیں مگر ان کے لاکھوں مریدین کی تعداد مسلسل بڑھتی رہتی ہے کیونکہ زیادہ تر لوگ اس ایمان کے ساتھ ان کے در پر حاضری دیتے ہیں کہ یہ لوگ ان کا کام کر دیں گے ۔اگر مشیت ایزدی سے کام ہو جائے تو ساری عمر کے لئے مرید تو غلام بن ہی جاتا ہے وہ آگے سے اتنے کلائنٹ لے کر آتا ہے کہ پیر صاحب کو مزید مارکیٹنگ کی ضرورت نہیں رہتی۔ مریدکی آنکھیں وہی دیکھتی ہیں جو اس کا ذہن دیکھنا چاہتا ہے۔ عوام چونکہ اب ماڈرن ہوگئے ہیں لہٰذا عامل بھی ماڈرن ہو گئے ہیں ،وہ زمانہ گیا جب کھوپڑیاں کے نیچے دو ہڈیوں کی تصویریں لگا کر اشتہار بازی کے ذریعے لوگوں کو بیوقوف بنایا جاتا تھا ،اب تو سوٹڈ بوٹڈ عامل ،مرشد ،پیر ،فقیر یا صوفی جو بھی نام آپ انہیں دینا چاہیں ،ٹی وی پر انگریزی کا تڑکا لگا کے عوام کے دلدر دور کرنے بیٹھے ہیں ،اپنی والدہ کا نام اور جائے پیدائش بتائیے اور پھر دیکھئے کیسے چٹکیوں میں آپ کو حل بتایا جاتا ہے ۔اگر مسئلہ حل نہ ہو تو اگلے فقیر کے در پر حاضری دیں ،”تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی ۔“اور یہ سلسلہ جب تک جاری رہتا ہے جب تک آپ scotomaکے اثر سے باہر نہیں نکلتے ۔
سیاسی جماعتوں کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔لوگ اپنے محبوب قائد کی بارے میں تنقید سننا گوارا نہیں کرتے،یہی وجہ ہے کہ الیکشن جیتنے کے لئے لیڈر چاہے جتنے بھی ناقابل عمل وعدے کرے ہم کھلی آنکھوں کے ساتھ نہ صرف ان وعدوں پر یقین کر لیتے ہیں بلکہ اس منشور کی حمایت میں ایسی دلیلیں بھی تراش لاتے ہیں جو شاید اس لیڈر کے ذہن میں بھی نہ ہوں ۔اپنے پسندیدہ قائدین کے ضمن میں بھی ہماری آنکھیں وہی کچھ دیکھتی ہیں جو ہمارا ذہن دکھانا چاہتا ہے ،اسی scotomaکو لیڈران کیش کرواتے ہیں ۔
دانشوروں کا حال بھی مختلف نہیں ۔جو افکار عالیہ ایک دفعہ کسی دانشور کے منہ سے جھڑ جاتے ہیں ،ان کے بارے میں اس دانشور کا خیال ہوتا ہے کہ وہی درست ہیں کیونکہ scotomaکے زیر اثر انسان اپنے دلائل کی کمزوری بھی نہیں دیکھ پاتا۔ذہن یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتا کہ اس کا عقلی استدلال کمزور ہو سکتا ہے چنانچہ دانشور بھی اپنے ذہن کے تابع وہی کچھ دیکھتے ہیں جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں ہر کتاب میں اپنے موقف کی حمات میں دلیل ملتی ہے اور جہاں ان کے موقف کی حمایت نہ ہووہاں انہیں وہ کتاب مستند نظر نہیں آتی ۔دانشوروں کے ضمن میں یہ رویہ لمحہ فکریہ ہے ،صرف چند انسان ہی اس قابل ہوتے ہیں جو scotomaکے اثر میں رہے بغیر نہ صرف اپنی ذات کی اچھائیو ں اور برائیوں کا تجزیہ کر سکیں بلکہ گاہے بگاہے اپنے خیالات کی بھی ٹیوننگ کرتے رہیں۔جو دانشور اس میں کامیاب نہیں ہو پاتے ان کی سوچ کو زنگ لگ جاتا ہے اور ان کی فکر ”دی اینڈ“ ہو جاتی ہے ،بالکل اس محبت کی طرح جہاں محبوب میں کیڑے دکھائی دینے لگتے ہیں!
تازہ ترین