• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ووٹ کس کو دیں۔ ووٹر کا اپنے ضمیر سے فکر انگیز مکالمہ!

حالات تو مزید کنفیوژ ہو گئے ہیں، لاہور ہائیکورٹ نے انتخابات ملتوی کرنے کی رٹ سماعت کیلئے منظور کر لی۔ حیدرآباد میں ایک جماعت کا امیدوار قتل کر دیا گیا ہے۔ غلام احمد بلور نے اعلان کر دیا کہ سیکورٹی مسائل کی وجہ سے جلسے نہیں کر سکتے جبکہ کور کمانڈر فارمیشن کانفرنس میں الیکشن کیلئے سیکورٹی پلان بنا لیا گیا ہے۔ ادھر تقریباً تمام بڑی جماعتوں نے اپنے اپنے منشور کا اعلان کر دیا ہے اور بڑے بڑے سبز باغ عوام کی سیر کیلئے تیار ہیں۔ اس وقت ملک میں نظریہٴ پاکستان کی بحث بھی عروج پر ہے دوسری طرف تمام منشوروں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں 80فیصد سے زائد نکات ایک جیسے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 62، 63کی روح کو مسخ کرنے کیلئے تابڑ توڑ حملے ہو رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کا ووٹر جس کی تعداد 8کروڑ 64لاکھ سے زائد ہے وہ تو مزید کنفیوژن کا شکار ہو چکا ہے۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ الیکشن ہوتے بھی ہیں کہ نہیں اور اگر ہو گئے تو کس کو ووٹ دیا جائے ۔اس کنفیوژن سے نکلنے کیلئے اس نے اپنے ضمیر سے مکالمہ کیا ہے۔ دیکھتے ہیں ووٹر کنفیوژن سے نکل پائے گا یا مزید کنفیوژ ہوتا ہے۔
ووٹر: میں نے تو اس مرتبہ بھٹو کو ووٹ دینا ہے نہ بے نظیر کو بلکہ میرا ووٹ تو زرداری کیلئے ہے۔ جس نے اپنی بہن فریال تالپور، ڈاکٹر عذرا اور اپنے بہنوئی کو بھی کھڑا کیا ہے۔
ضمیر: تم زرداری کو کیوں ووٹ دینا چاہتے ہو۔
ووٹر: اس وقت وہ ملک کے صدر ہی نہیں بلکہ پاکستان کے سب سے بڑے، کامیاب سیاستدان ہیں جنہوں نے ایک سو سے کم سیٹیں لے کر ملک میں پانچ سال مکمل کئے ہیں جو پاکستان کی جمہوری تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔ وہ مفاہمت کے حامی ہیں اور یہ ثابت کر کے دکھایا کہ وہ لوٹ مار اور اقتدار سے اکیلے ہی محظوظ نہیں ہوتے رہے بلکہ ہر اتحادی کو بھی خوش کرتے رہے ہیں۔کیا مجال ہے کسی اتحادی کی خواہ وہ ایم کیو ایم ہو ، فضل الرحمن ہوں یا پی پی کی سب سے بڑی مخالف ق لیگ، وہ ان کی مرضی کے بغیر حکومت سے باہر ہوتے۔
ضمیر:مگر پی پی کا نعرہ تو روٹی،کپڑا اور مکان تھا۔
ووٹر : ہاں وہ کون سے اپنے نعرے سے پیچھے ہٹی ہے۔ صرف پی پی کے اصل وارثوں کو پیچھے ہٹایا ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان اپنی جگہ قائم ہے۔ یہ بھلا کم ہے کہ اس نے ہر کسی کو اجازت دے رکھی تھی کہ وہ روٹی، کپڑا اور مکان کیلئے جیسے مرضی ریلوے ، اسٹیل ملز، پی آئی اے اور جہاں جہاں دل کرے لوٹ مار کرے ۔
ضمیر: لیکن تمہیں پتہ ہے کہ اس بندر بانٹ کی وجہ سے ملک دیوالیے کی طرف ہے اور لوگوں نے ہی نہیں بلکہ زرداری ٹولے نے بھی ذہن بنا لیا ہے کہ اب ان کا دوبارہ آنا مشکل ہے تو تم کیوں اپنا ووٹ ضائع کرنا چاہتے ہو۔ اس کے تو اپنے جیتنے والے امیدوار دوسری جماعتوں کا رخ کررہے ہیں۔
ووٹر: تو ٹھیک ہے میں اس کو نہیں بلکہ ن لیگ کو ووٹ دے دیتا ہوں کیونکہ ن لیگ نے پی پی کو اپنی پانچ سالہ باری پوری کرنے میں بھرپور مدد کی ہے۔ اب زرداری کی پی پی بھی تو اس کی ٹرن پوری کرائے گی۔ ویسے بھی نواز شریف نے کہا ہے کہ پہلے انہوں نے ایٹمی دھماکہ کیا تھا اب معاشی دھماکہ کریں گے اور ان کی پنجاب میں حکومت رہی ہے جس نے دانش اسکول بنائے، بی ایس چار سالہ پروگرام شروع کیا، ہیلتھ اور ایجوکیشن پر خصوصی توجہ دی، لوڈشیڈنگ پر خود بے شک کچھ نہ کیا مگر وفاق کے خلاف احتجاج کرتے رہے اور اپنے آپ کو ایئر کنڈیشن دفاتر سے نکال کر ٹینٹوں کے دفاتر میں منتقل کر دیا ۔ سب سے بڑی بات کہ اس نے عوام کیلئے میٹرو بس شروع کی۔ جس پر عوام کیلئے ایک ہفتہ مفت سفر کی سہولت تھی اور میں نے تو ایک مرتبہ مفت سفر بھی کیا ہے اب میں نمک حرامی تو نہیں کر سکتا، ووٹ تو اسکا حق بنتا ہے۔
ضمیر: دیکھو بھئی ۔یہ سب تضادات ہیں کچھ عرصے بعد تمہیں پتہ چل جائے گا کہ انہوں نے بی ایس پروگرام شروع کر کے تعلیمی نظام کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ عام شہری جو تھوڑی سی فیس کے ساتھ سرکاری کالجوں میں بی اے کر سکتا تھا اب مجبوراً وہ پرائیویٹ کالجوں کی طرف رخ کر رہا ہے۔ اس پروگرام کی وجہ سے ایک تو سرکاری کالجوں میں داخلے ملنے بند ہو گئے اور جو بی ایس پروگرام میں داخل ہوئے تھے وہ آسمان سے گر کر کھجور میں اٹک گئے ہیں۔60سے 70فیصد طالب علم اس پروگرام کا مستقبل نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ چکے ہیں ۔ دانش اسکول ایک نئے طرح کے امراء کا طبقہ پیدا کرے گا۔ سستی روٹی اسکیم تو ان کے گلے کا پھندا بنے گی۔
ووٹر: تو پھر ٹھیک ہے میں عمران خان کو ووٹ دیتا ہوں ۔ وہ تو بڑا پکّا سچا اور باضمیر ہے۔ جو کہتا ہے کر کے دکھاتا ہے اب اس نے 25سے 30فیصد نوجوانوں میں ٹکٹ بانٹے ہیں۔ یہ90دنوں میں ملک سے کرپشن ختم کرنے کا اعلان کر چکا ہے اور اس نے تو پاکستان کو امریکی غلامی سے نجات دلانے کا بھی وعدہ کیا ہے۔
ضمیر: لگتا ہے تم اپنا ووٹ ضائع کرنے جا رہے ہو کیونکہ عمران خان خود بہت بڑا ڈکٹیٹر ہے اور وہ سیاست کو کرکٹ سمجھ کر میدان میں اترا ہے۔ اس کو لگ پتہ جائے گا کہ تھانے کچہری کی سیاست کیا ہوتی ہے۔ وہ گورنر ہاؤس ختم کرنے کی باتیں کرتا ہے، امریکہ کی غلامی سے نجات دلانا چاہتا ہے کیا امریکہ اسے جیتنے دے گا، تمہیں پتہ ہونا چاہئے کہ نگران حکومتیں امریکی مرضی کے بغیر نہیں بن سکتیں تو مستقل حکومت کون بنوائے گا۔ جہاں تک ٹکٹوں کی تقسیم کا تعلق ہے تو پارلیمانی بورڈ صرف نام کے تھے سب فیصلے پہلے ہو چکے تھے اور ٹکٹوں کی تقسیم میں اس جماعت نے اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کی ہے، اس لئے اپنا ووٹ مت ضائع کرنا ۔
ووٹر: تو میں ایم کیو ایم کو ووٹ دے دیتا ہوں کم از کم مجھے یہ اطمینان رہے گا کہ میرا ووٹ ضائع نہیں ہوگا کیونکہ1985ء کے بعد میں نے نہیں دیکھا کہ یہ جماعت اقتدارسے باہر ہو۔ کل کوئی بھی پارٹی حکومت بنائے یہ اس میں شامل ہوگی۔ اس نے تو گزشتہ پانچ برسوں میں ثابت کیا ہے کہ جتنے مرضی ذوالفقار مرزا ان کو حکومت سے نکالنے کی کوشش کریں مگر ایسا ضمیر پایا ہے کہ وہ حکومت سے نکل نہیں سکے۔
ضمیر : تم سندھ اور کراچی کی بات نہ کرو۔ تمہارا ووٹ تو پورے پاکستان کیلئے ہے اور سندھ میں یہ اقتدار رکھنے کے باوجود نہ بلدیاتی نظام نافذ کرا سکے اور نہ ہی امن وامان لا سکے بلکہ سب سے زیادہ دہشت گردی کو پروان اسی دور میں ملا اور دہشت گردی کی جڑیں کراچی میں اسی دور میں مضبوط ہوئیں۔
ووٹر: میں ایسا کرتا ہوں کہ مولانا فضل الرحمن کی پارٹی کو ووٹ دے دیتا ہوں اس نے تو منشور میں اعلان کیا ہے کہ وہ مزدور کی تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر کر دیں گے اور ایک تولہ سونا تمہیں پتہ ہے کہ 60ہزار روپے کا ہے۔
ضمیر: لگتا ہے کہ تم ان کے پس منظر سے پوری طرح واقف نہیں ہو، ماشاء اللہ ہر دور میں اقتدار میں رہے اور اپنا اقتدار بچانے کیلئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ جہاں تک ایک تولہ سونے کے برابر مزدور کی تنخواہ کا تعلق ہے تو وہ کیسے دے سکتے ہیں اس پر تو ہر مزدور کو سالانہ ٹیکس دینا پڑے گا اور بھلا مولانا کیسے برداشت کر لیں کہ وہ خود تو جمشید دستی سے بھی کم ٹیکس دیں، ان کا بھائی وہ بھی نہ دے تو تمام مزدور کا ٹیکس دینا ان کے ضمیر پر بہت بوجھ ہوگا۔
ووٹر: چلئے میں جماعت اسلامی کو ووٹ دے دیتا ہوں وہ کم از کم امریکہ کے خلاف تو ہے اور نظام کی تبدیلی کیلئے قیام پاکستان سے پُرعزم۔
ضمیر:تمہاری مرضی ہے ووٹ ضائع کرنا چاہتے ہو تو کر لو کیونکہ لوگ انہیں اچھا تو کہتے ہیں مگر ووٹ نہیں دیتے اور نہ ہی چاہتے ہیں کہ یہاں کوئی بہتر نظام آ سکے۔
ووٹر:پھر ٹھیک ہے اگر الیکشن کمیشن نے ووٹر پرچی پر خانہ خالی رکھا تو میں اس میں مہر لگا دوں گا۔ کم ازکم تمہیں (اپنے ضمیر کو) مطمئن تو کر سکوں کیونکہ میں نے بہت شور سنا تھا کہ اس بار بڑی سخت اسکروٹنی ہوگی، ہر کسی کو آرٹیکل62/اور 63کی چھلنی سے گزارا جائے گا، ضمیر فروش، چور اچکے، ٹیکس چور، یوٹیلٹی بلز اور بینکوں کے نادہندہ الیکشن نہیں لڑ سکیں گے مگر آہستہ آہستہ62، 63کی چھلنی سے کیا گزرتے کہ خود ان آرٹیکلز کو کرپٹ ذہنوں کی چھلنی میں پھنسا کر رکھ دیا گیا ہے اور آج اس کی بنیاد پر پاکستان کے قیام کے نظریئے کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ میں پوری قوت کے ساتھ کرپٹ لوگوں، کرپٹ نظام کے خلاف ووٹ ڈالوں جب تک جمہوری نظام کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کرنے کے اقدامات نہیں اٹھائے جاتے اس وقت تک نہ کسی بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے اور نہ ہی کوئی تبدیلی پاکستان میں آسکتی ہے۔
ضمیر:بات تو تمہاری ٹھیک ہے مگر اس تناظر میں تو پھر الیکشن ہوتے نظر نہیں آتے۔نگرانوں کے دن لمبے ہو سکتے ہیں!
تازہ ترین