• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابالغ کیخلاف کرمنل چارجز نہیں لگا سکتے، عدالت کو خیال کرنا پڑیگا،حامدخان

’نابالغ کیخلاف کرمنل چارجز نہیں لگا سکتے‘


کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے ماہر قانون حامد خان نے کہا ہے کہ نابالغ کیخلاف کرمنل چارجزنہیں لگاسکتے،عدالت کوخیال کرنا پڑیگا،کوئی قانون بالخصوص اگر وہ کرمنل لاء ہے تو اسے پچھلی تاریخ سے اپلائی نہیں کرسکتے۔

ذوالفقار مرزا کی اہلیہ وفاقی وزیر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا کہ پی پی قیادت سے پوچھیں فریال تالپورعذیرکے گھرکیوں گئیں،اس کے سرکی قیمت کیوں ختم کی گئی ،امن ایوارڈ کیوں دیئے،ماہر ٹیکس امور اشفاق تولہ نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جو دستاویزات ایف بی آر میں جمع کروادی ہیں ،اس کے بعد یہ معاملہ سرینا عیسیٰ اور ریاست کے درمیان ہوگیا ہے۔

ماہر قانون حامد خان نے کہا کہ یہ جو فائنڈنگ ہوتی ہے یہ سردست ہوتی ہے،کہتے ہیں کہ جو کچھ میٹریل ہے اس سے نظر آتا ہے کہ اس میں کرپشن یا کرپٹ پریکٹسز ہوئی ہیں، عدالت نے ابھی جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ کوئی حتمی نتیجہ نہیں ہے، وہ صرف اور صرف اس وقت ضمانت دینے کی حد تک انہوں نے میٹریل کو ایگزامن کر کے اپنا فیصلہ دیا ہے۔

حامد خان نے کہا کہ انہوں نے بہت سخت ویو لیا ہے، اس کے پیچھے ایک بہت بڑی وجہ ہے لیکن یہ ایک بڑی لارجر پروپوزیشن ہے کہ نیب کا قانون 1999ء میں آیا ہے اور اس کا اطلاق یکم جنوری 1985ء سے کردیا ہے، عام طور پر دنیا میں کہیں پر بھی اور یہ ساری دنیا میں یہ اسٹیبلش بات ہے کہ آپ ان چیزوں کو کرائم ڈیکلیئر نہیں کرسکتے جب وہ commit کی جاتی ہیں اس وقت وہ کرائم نہیں تھیں، یہ تو ایک بنیادی بات ہے لیکن جس زمانے میں یہ قانون لایا گیا وہ ملٹری دور تھا، اس کو جب اپ ہولڈ کیا گیا اس وقت بھی آپ سمجھئے ملٹری دور ہی تھا۔

اس لئے وہ ججمنٹ جو ہے اسے ایک دفعہ ری وزٹ ہونا چاہئے اور اس لائٹ میں ری وزٹ ہونا چاہئے کیا ایک کرمنل لاء جو آپ 1999ء میں بناتے ہیں اس کا اطلاق 1985ء سے کرسکتے ہیں یا نہیں، یہ ایک یونیورسل آئینی اصول ہے کہ آپ کوئی قانون بالخصوص وہ اگر کرمنل لاء ہے تو اسے پچھلی تاریخ سے اپلائی نہیں کرسکتے۔

فی الحال جو صورتحال ہے اسفندیار ولی خان کیس کو سامنے رکھتے ہوئے کہ یہ معاملہ لایا گیا تھا اس وقت ارشاد حسن خان صاحب چیف جسٹس تھے اور جیسے ہم سب جانتے ہیں انہوں نے اس وقت کے پی سی او کا حلف لیا ہوا تھا تو ان سے کوئی بہتر فیصلے کی ہم توقع نہیں رکھتے، میں سمجھتا ہوں کہ اب اس کو ری وزٹ ہونا چاہئے۔

میں سمجھتا ہوں کہ یہ ویسے بھی کرمنل لاء کا اصول بھی ہے کہ آپ نابالغ کے خلاف کرمنل چارجز نہیں لگاسکتے جبکہ آپ یہ چارجز لارہے ہیں اس وقت وہ نابالغ تھے، میرا خیال ہے کہ عدالت کو اس چیز کا خیال کرنا پڑے گا۔ شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف کی گرفتاری کو 120دن ہوگئے ہیں، 28فروری کو نیب نے انہیں طلبی کا نوٹس جاری کیا وہ 5مارچ کو پیش ہوگئے۔

پھر انہیں 12مارچ کو طلب کیا وہ پیش ہوئے مگر نیب نے انہیں شکایت کی تصدیق کے مرحلہ پر ہی گرفتار کرلیا، اس لئے لاہور ہائیکورٹ میں غیرقانونی گرفتاری کے خلاف اور ضمانت کیلئے درخواست دائر کی گئی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ نیب نے شکایت کی تصدیق کے مرحلہ میں انہیں گرفتار کرلیا تھا حالانکہ وہ نیب کے سامنے پیش ہورہے تھے۔

انہیں لاہور آفس میں طلب کیا گیا اور اسی دن اسلام آباد سے ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیئے گئے اس لئے میرشکیل الرحمٰن کی گرفتاری کو غیرقانونی قرار دیا جائے، جسٹس سردار احمد نعیم اور جسٹس فاروق حیدر پر مشتمل دو رکنی بنچ نے درخواست سنی اور یہ درخواست سات اپریل کو مسترد کردی گئی۔

اسی دوران میر شکیل الرحمٰن کے بھائی کی طبیعت خراب ہوئی تو انہوں نے اسی عدالت سے درخواست کی کہ ان کے ایک ہی بھائی ہیں میر جاوید الرحمٰن جو بیمار ہیں، انہیں کینسر ہے وینٹی لیٹر پر ہیں، والدہ ضعیف ہیں اس لئے اسپتال جانے کی اجازت دی جائے کیونکہ وینٹی لیٹر سے متعلق فیصلہ کرنا ہے لیکن ججوں کی جانب سے کہا گیا کہ وینٹی لیٹر سے متعلق فیصلہ خاندان کا کوئی بھی شخص کرسکتا ہے، اس دو رکنی بنچ نے اکتیس مارچ کو یہ درخواست مسترد کردی۔

پھر میر شکیل الرحمٰن کے بھائی کا انتقال ہوگیا، وہ نماز جنازہ میں شریک ہوئے اور پھر جب اٹھائیس اپریل کو احتساب عدالت نے میر شکیل الرحمٰن کو جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا تو اس کے بعد لاہور ہائیکورٹ سے دوبارہ رجوع کیا گیا مگر لاہور ہائیکورٹ میں ان کی درخواست ضمانت بار بار التواء کا شکار ہوتی رہی اور پھر بنچ بدلتے رہے۔

میر شکیل الرحمٰن کے جوڈیشل ریمانڈ پر جانے کے بعد پہلی بار ان کی درخواست ضمانت پر بارہ مئی کو سماعت ہوئی اور لاہور ہائیکورٹ نے نیب سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 28مئی تک ملتوی کردی مگر اس دوران دو رکنی بنچ تحلیل ہوگیا اور کیس کی سماعت کرنے والی بنچ کی 28مئی کی کاز لسٹ منسوخ کردی گئی اور پھر نیا بنچ تشکیل دیدیا گیا جس میں جسٹس طارق عباسی اور جسٹس فاروق حیدر شامل تھے۔

نئے بنچ کے سامنے میر شکیل الرحمٰن کی درخواست ضمانت 11جون کے لئے فکس ہوئی مگر اس تاریخ کو بھی سماعت نہیں ہوسکی، 6جون کو بنچ کے رکن جسٹس فاروق حیدر ایک ہفتے کی چھٹی پر چلے گئے، درخواست کی سماعت کیلئے پھر 17جون کی تاریخ مقرر ہوئی، 17جون کی سماعت کے دوران جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ ہمیں آج ہی فائل ملی ہے پڑھے بغیر کس طرح سن سکتے ہیں، اس کیس کو پیر کو سنیں گے، پھر کیس کی سماعت 22جون تک ملتوی کردی گئی، اس کے بعد ایک بار پھر بنچ تبدیل ہوگیا۔

22جون کو سماعت ہوئی جو جسٹس شہباز رضوی اور جسٹس سردار احمد نعیم پر مشتمل بنچ نے کی اور کہا گیا کہ نیب نے اپنے جواب کی دو کاپیاں کیوں جمع نہیں کروائیں، اس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ہم نے رجسٹرار آفس میں چار کاپیاں فراہم کی تھیں، جس پر جسٹس شہباز رضوی نے کہا کہ عدالت کے سامنے نیب کے جواب کی صرف ایک کاپی موجود ہے جس کے بعد مزید کارروائی 7جولائی تک ملتوی کردی گئی۔

پھر بنچ تبدیل ہوگیا اور 7جولائی کو جسٹس سردار احمد نعیم اور جسٹس فاروق حیدر پر مشتمل بنچ کے سامنے درخواست ضمانت سماعت کیلئے مقرر ہوئی، ، پھر جب سات اور آٹھ جولائی کو دو دن تک درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی تو جسٹس سردار احمد نعیم اور جسٹس فاروق حیدر پر مشتمل بنچ نے میرشکیل الرحمٰن کی درخواست ضمانت پھر مسترد کردی۔

اب لاہور ہائیکورٹ کے اسی بنچ کے سامنے ایک اور درخواست دائر کی گئی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ چونتیس سال پرانے پراپرٹی کے کیس میں میرشکیل الرحمٰن کے ساتھ ان کی اہلیہ اور بچوں کو بھی گرفتار کیا جانا چاہئے ، نیب شریک ملزمان کے خلاف مناسب ایکشن لینے میں ناکام رہا جس سے ٹرائل میں میر شکیل الرحمٰن کو فائدہ ہوا، لاہور ہائیکورٹ نے اس درخواست پر چیئرمین نیب اور دیگر سے دو ہفتوں میں جواب طلب کرلیا ہے۔

1986ء میں میر شکیل الرحمٰن کے بچوں میر ابراہیم کی عمر 8سال، عائشہ رحمٰن کی عمر 6 سال، عاصمہ رحمٰن کی عمر 4سال اور میر اسماعیل کی عمر ایک سال تھی مگر اب لاہور ہائیکورٹ نے نیب سے جواب طلب کیا ہے اور نیب کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ گرفتار کر کے تحقیقات کرتا ہے۔

شاہزیب خانزادہ نے بتایا کہ ہیومن رائٹس واچ نے اب سے کچھ دیر پہلے بیان جاری کیا ہے اور کہا ہے کہ میرشکیل الرحمٰن کی فیملی کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے، ہیومن رائٹس واچ کے مطابق میرشکیل الرحمٰن کے خلاف سیاسی طور پر لگائے گئے الزامات کو ختم کیا جائے۔  

تازہ ترین