• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اے این پی اپنے سیاسی کیریئر کے روز اول سے ہی وہ مصائب و مسائل چادر میں ڈالے قریہ قریہ سرگرداں ہے جو اسے ورثے میں ملے۔ بعض نام نہاد انقلابی اس بات کا شد و مد سے اظہار کرتے رہتے ہیں کہ اے این پی موروثی جماعت ہے لیکن اس امر کو خاطر میں نہیں لاتے کہ اس جماعت کے قائدین نے غم و ستم کے جو دریا عبور کئے، بڑے بڑے سورماؤں کا اس طرح کے واقعات کے محض ذکر سے ہی دم خم نکل جاتا ہے۔ اے این پی نے برصغیر پاک و ہند میں قربانیوں کی بے نظیر تاریخ مرتب کرنے والی جنگ آزادی کی سرخیل خدائی خدمتگار تحریک کے سیاسی بطن سے جنم لیا۔اس کی پیشرو نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) اور این ڈی پی نے ایوب خان، یحییٰ خان اور ضیاء الحق کی آمریت کیخلاف جو تاریخ ساز جدوجہد کی،پاکستان کی کوئی بھی جماعت اس حوالے سے اپنی مثال پیش نہیں کر سکتی۔ باچا خان30 سال پس دیوار زنداں اور 15 سال جلاوطن رہے انگریز کیخلاف مردان مارچ میں اس مردِ حُر کی دونوں پسلیاں ٹوٹ گئیں۔ باچا خان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب لاہور میں شہید کر دیئے گئے۔ خان عبدالولی خان پر چار مرتبہ تیمر گرہ، گوجرانوالہ ریلوے اسٹیشن، سوات اور لیاقت آباد راولپنڈی میں قاتلانہ حملے ہوئے۔ نیپ پاکستان کی واحد جماعت ہے جس پر دو مرتبہ 26 نومبر 1971ء کو یحییٰ خان اور 9 فروری 1975ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے پابندی لگائی۔ بدنام زمانہ حیدرآباد سازش کیس کے تحت نیپ کی پوری قیادت کو جیل میں ڈالا گیا۔ خان عبدالولی خان کیخلاف500 گواہ تھے۔ مقدمے کو طول دینے کیلئے چار سال میں صرف 22 گواہ بھگتائے گئے، جس پر خان عبدالولی خان نے سماعت کے موقع پر جج صاحب سے التماس کی کہ جناب والا، آبِ حیات کا انتظام کیجئے، آپ بھی نوش فرما لیں مجھے بھی دے دیں اور ان گواہوں کو بھی پلائیں تاکہ مقدمہ نمٹائے جانے تک ہم سب زندہ رہیں۔ اکتوبر 2008ء میں جناب اسفند یار ولی خان پر ولی باغ چارسدہ میں خودکش حملہ ہوا، بشیر بلور صاحب اور کراچی کے شہداء سمیت کیا کیا ہستیاں و جوانیاں اپنے خون میں نہا گئیں!! سب کچھ عیاں ہونے کے باوجود تاریخ کا یہ ایک مخمصہ ہے کہ پاکستانی عوام کیلئے آج بھی یہ ایک سربستہ راز ہے کہ اے این پی کے قائدین و کارکن آج کیوں بندوق کی نوک پر ہیں اور کل کیوں اس کی پیشرو جماعتیں زیر عتاب تھیں!؟
جہاں پاکستان میں اکثر واقعات جھوٹ کے پردوں میں لپیٹ کر مصنوعی بناوٹ و سجاوٹ کے بعد قوم کے سامنے پیش کئے جاتے رہے ہیں، یہی کچھ باچا خان کی سیاست اپنانے والوں کے ساتھ کیا گیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ باچا خان اور ان کے مکتب فکر کو عوام بالخصوص پختونوں میں ہمیشہ پذیرائی ملنے کی ایک وجہ یہی حق و سچ بات پر ڈٹ جانا ہے اور جب بھی انہیں عوام کے سامنے جانے کا موقع ملا تو وہ ان کے ساتھ ساتھ رہے۔1937ء کے پہلے انتخابات میں خدائی خدمت گار تحریک نے فقید المثال کامیابی حاصل کی اس وقت بھی حالات بالکل آج کی طرح تھے۔ باچاخان کے صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) میں داخلے پر پابندی تھی۔ خیر وہ تو انگریز کی حکومت تھی آج اس آزاد مملکت میں تاریخ کا جبر ملاحظہ فرمائیں کہ باچا خان ہی کی طرح اسفند یار ولی بھی اپنے صوبے میں نہیں جا سکتے، دوسرے معنوں میں ان پر بھی پابندی ہے مگر انگریز کی پابندی کے باوجود خدائی خدمتگار تحریک کو عوام نے سر پر بٹھا لیا تھا اور خدائی خدمتگاروں نے انگریزوں کے خان بہادروں کو شکست فاش دی تھی۔ سر صاحبزادہ عبدالقیوم خان گاؤں زیدہ (صوابی) کے خدمتگار عبدالعزیز کاکا سے شکست کھا گئے، ارباب شیر علی خان، عبدالغفور خان سے ہار گئے۔ صوبے کے سب سے بڑے جاگیردار نواب سر محمد خان کو خدمتگار امیر محمد خان نے شکست دی۔ کرک کے بڑے خان اور جنرل حبیب اللہ، یوسف خٹک، اسلم خٹک کے والد اور جنرل علی قلی خان کے دادا خان بہادر قلی خان کو خدمتگار محمد افضل خان نے شکست فاش دی۔ 1937ء کی طرح 1946ء کے انتخابات کے نتیجے میں بھی باچا خان کے سپاہیوں کی حکومت بنی۔ قیام پاکستان کے بعد 1970ء کے انتخابات کے نتیجے میں صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) اور بلوچستان میں نیپ نے حکومت بنائی۔ بعدازاں جب بھی انتخابات ہوئے اے این پی خیبرپختونخوا میں صف اول میں رہی۔ 2013ء کے انتخابات کے حوالے سے اے این پی کے کارکنوں نے جس طرح گھر گھر رابطہ مہم شروع کر رکھی ہے اور عوام جس طرح جذباتی انداز میں اس جماعت کے کارکنوں سے بھی بڑھ کر ان انتخابات کو سنجیدہ لے رہے ہیں، عام اندازوں کے برعکس ایسا لگتا ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں بھی اے این پی حیران کن نتائج کے ساتھ سرخرو ہو گی۔ البتہ ان انتخابات میں اے این پی کو تاریخ کے سب سے زیادہ پُرخطر حالات کا سامنا ہے بلکہ یہ جماعت ایک قسم کی قبل ازپولنگ دھاندلی سے دوچار ہے۔ مورخ یقیناً اسے تاریخ کی سب سے بڑی ناانصافی قرار دے گا کہ ایک جماعت کے تو ہاتھ پاؤں باندھ دیئے جائیں اور مخالف فریقوں کو کھلا چھوڑ دیا جائے کہ وہ جیسے اور جس طرف سے چاہیں بندھے ہوئے حریف پر حملہ آور ہو سکیں۔ آج عمران خان، نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور دیگر تو ملک بھر میں جلسے کر رہے ہیں لیکن اسفند یار ولی خان اپنے حلقے میں بھی نہیں جا سکتے، اگر جائیں گے تو اپنے سے زیادہ ان لوگوں کو خطرے میں ڈالیں گے جو ان کے اردگرد موجود ہوں گے۔ اسفند یار ولی خان اس صورتحال پر اس قدر دکھی ہیں کہ بدھ کے روز ایک چینل کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اگر کسی کو مجھے مار کر خوشی ہو سکتی ہے تو وہ کوئی جگہ بتا دیں، میں تن تنہا وہاں آ جاؤں گا لیکن میں یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ بے قصور لوگ میرے جلسے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ جلسے کے دوران اسٹیج کی حد تک تو سیکورٹی کے انتظامات ہو جاتے ہیں لیکن پورے جلسہ گاہ کو محفوظ بنانا ناممکن ہے۔
راقم کو جو شواہد ملے ہیں وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اے این پی مخالف امیدواروں کیلئے ترنوالہ ثابت نہیں ہو گی۔ عام تاثر یہ ہے کہ اے این پی نے بہت دیر سے انتخابی مہم شروع کی یا شروع ہی نہیں کر سکی ہے۔ یہ خیال دیگر جماعتوں کے بڑے جلسوں کے تناظر میں بھی پیدا ہو سکتا ہے لیکن آپ کو یہ جان کر شاید حیرت ہو کہ اے این پی، ایم کیو ایم کے بعد ملک کی وہ دوسری جماعت ہے جس نے انتخابات سے قبل ہی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا تھا۔ یہ جماعت ملک کی دو چار منظم جماعتوں میں سے ایک ہے اور اس کے کارکن جدوجہد کے ہر رنگ و انداز سے آگاہ ہیں لہٰذا وہ جانتے ہیں کہ جب حالات سازگار نہ ہوں تو عوام تک کس طرح بات پہنچائی جا سکتی ہے۔ وہ گھر گھر رابطہ مہم پر ہیں، وہ ووٹ سے زیادہ عوام کو اس حقیقت سے آگاہ کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں کہ انتخابی مہم میں کیونکر رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔ پختون فطرتاً مظلوم کا ساتھ دینے کیلئے فوری تیار ہو جاتے ہیں۔ اے این پی اس دعوے میں بھی حق بجانب ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود اس کی حکومت نے5 سال میں جتنے ترقیاتی کام کرائے، اتنے65 سال میں بھی نہیں ہو سکے۔ تعلیمی اداروں کا جال بچھائے جانے کے باعث پڑھے لکھے اور نوجوان طبقے میں اے این پی کو پہلے سے زیادہ پذیرائی حاصل ہے۔ کراچی میں اے این پی پہلے سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ 2008ء کے انتخابات میں اس جماعت کو صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں ملی تھیں لیکن سینیٹر شاہی سید کی سحر انگیز و فعال شخصیت کی بدولت 2013ء میں یہ جماعت نہ صرف پختونوں کی واحد نمائندہ جماعت بن کر ابھری ہے بلکہ دیگر قومیتیں بھی مخصوص حالات میں اس کے جرأت مندانہ کردار کی معترف ہیں۔ صوبائی نشستوں کے ساتھ ان انتخابات میں قومی اسمبلی سے بھی انہیں کراچی سے نمائندگی ملنے کے امکانات ہیں۔ کراچی میں بھی بڑے جلسوں سے گریز کیا جا رہا ہے اور گھر گھر رابطہ مہم کے ساتھ پمفلٹ اور ایس ایم ایس کے ذریعے رابطے زوروں پر ہیں۔ پختونوں کو سرگرم رکھنے کی خاطر روایتی انداز بھی اپنایا جا رہا ہے اور ایس ایم ایس میں انقلابی اشعار، اقوال اور ٹپوں( پشتوشاعری کی ایک صنف)کے ذریعے خون گرمانے کا آزمودہ نسخہ بروئے کار ہے۔ انگریزوں کیخلاف جدوجہد کے دوران جب باچا خان اور ان کے ساتھیوں پر تشدد کے پہاڑ توڑے گئے اور جیلیں بھری گئیں تو خواتین میدان میں آ گئی تھیں اور ایک ٹپہ بہت مشہور ہو گیا تھا
کا دَ زلمو نہ پورا نہ شوہ
فخرِ افغانہ جینکئی بہ دے گٹینہ
یعنی اگر نوجوان مات کھا گئے تو اے فخر افغان (باچا خان) لڑکیاں آپ کی خاطر آزادی کی جنگ جیت کر دکھائیں گی۔
ان دنوں اس طرح کے ٹپے پھر ایس ایم ایس کے ذریعے زیر گردش ہیں۔ عرض یہ ہے کہ اے این پی کو مال غنیمت سمجھ کر ہڑپ کرنے کی دعویدار جماعتیں اس حقیر فقیر کی یہ بات بھی یاد رکھ لیں کہ شہیدوں اور مظلوموں کے ساتھی کم نہیں ہوتے، بڑھتے ہیں، بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔
تازہ ترین