• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پورے ملک میں الیکشن کا بخار بڑے زور شور سے چڑھا ہوا ہے ۔ سیاسی جماعتیں بڑھ چڑھ کر اپنی کامیابیوں کے دعوے کررہی ہیں ۔ میڈیا پر بھی معرکہ آرائی جاری ہے مگر قوم گم سم ہے۔ وجہ صاف ہے کہ سیاستدانوں کے ہاتھوں66سال سے وہ بے وقوف ہی بنتی آرہی ہے اور اندیشہ ہے کہ اس الیکشن کے بعد بھی اگر وہی سیاستدان ہیں اور وہی پرانی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو سہارا دے کر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے پھر کامیاب ہو جائیں گی۔ عمران خان ان انتخابات میں پہلی مرتبہ پوری تیاریوں کے ساتھ وارد ہوئے ہیں جن کا منشور90دنوں میں ملک سے کرپشن ختم کرنے کا دعویدار ہے۔ جس پر بقول شاعرفی الحال یہی کہناممکن ہے کہ۔ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
ہر چورن بیچنے والے کو اپنے چورن کی افادیت کا پتہ ہوتا ہے مگر وہ خریدار کے سامنے مبالغہ آمیز دعوے کر کے بیچنے میں کامیاب ہوتا ہے۔آج کل کچھ ایسا ہی کاروبار ہمارے سیاستدان اس الیکشن میں کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ کہیں کہیں تو الیکشن سے عوام بھی محظوظ ہورہے ہیں، مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں ماضی کی پشتو فلموں کی ہیروئن اداکارہ مسرت شاہین بھی اپنا یہ شوق پورا کرنے انتخابی میدان میںآ رہی ہیں۔ کئی علاقوں سے خواجہ سرا بھی الیکشن کی تیاری کئے ہوئے ہیں۔ مجھے ایک ای میل حافظ آباد سے ایک خواجہ سرا نسرین نامی کی موصول ہوئی ہے ، اس ای میل میں انہوں نے قوم کو مشورہ دیا ہے کہ وہ66سال سے تمام سیاستدانوں بشمول مرد حضرات ، عورت ، فوجی ، صنعت کار ، وڈیروں ، چوہدریوں ، نوابوں سب کو آزمایا اور سب نے مایوس کیا،اس الیکشن میں ہم مظلوموں کو بھی ایک موقع دیں۔ میں نے سن رکھا تھا کہ حافظ آباد میں ہر سال خواجہ سراوٴں کا خفیہ کنونشن ہوتا ہے اور نسرین صاحبہ غالباً اس کی صدر ہوں گی تو الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ بھی ہوا ہو گا ۔ ذکر ہو رہا تھا الیکشن کی گہما گہمی کا مگر وہ تو دور دور تک نظر نہیں آرہا باوجود اس کے کہ ایک ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے، دھڑا دھڑ الیکشن کمیشن ، عدلیہ ریٹرننگ افسران سے کاغذات نامنظور پھر منظور، جعلی ڈگری والے جیل جا رہے ہیں اور پھر ان کو دوبارہ الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی جارہی ہے ۔ عوام ہر دن ایک نیا فیصلہ سن رہے ہیں۔ایک علاقے سے کاغذات مسترد تواسی امیدوار کے دوسرے علاقے سے کاغذات نامزدگی منظور ہو رہے ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ بھی ایک نئی روایت کو جنم دے سکتا ہے۔ البتہ نگران حکومت سے جو عوام کو امیدیں وابستہ تھیں وہ بھی پوری نہیں ہو رہیں۔انکی سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ الیکشن کیسے شفاف ہوں گے سیاسی وابستگیاں تو سب پر عیاں ہے، صرف چہرے بدلے ہوئے ہیں نظام تو اسی طرح کام کر رہا ہے البتہ مخالف سیاسی پارٹیاں واویلا کر رہی ہیں۔ کچھ جماعتوں کو تو الیکشن کمیشن پر بھی تحفظات ہیں وہ الیکشن کے نتائج کو کیسے مانیں گی ۔ اگر الیکشن کو مکمل طور پر شفاف بنانا ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ مکمل فوج کی نگرانی میں پولنگ ہونی چاہئے۔ جس طرح صرف ایک مرتبہ جنرل یحییٰ خان نے جو الیکشن کرائے تھے صرف آج تک ان کو شفاف الیکشن کے طورپر یاد کیا جاتا ہے ۔یہ ایک الگ بات ہے خود یحییٰ خان نے الیکشن تو کرا دیئے مگر اقتدار مجیب الرحمن کو نہیں سونپا جس سے اس ملک کو آدھے پاکستان سے ہاتھ دھونا پڑا اور آج بھی اس کے صوبوں میں علیحدگی کی تحریکیں جنم لے چکی ہیں۔ ہر ایک کی زبان پر ہے کہ اس ملک کا کیا بنے گا؟ کاش قوم خود یہ فیصلہ کرے کہ اس نے اس ملک کو بحران سے نکالنا ہے،باہر سے کوئی آکر نہیں نکالے گا۔اگر ہم ذات برادری کو چھوڑ کر بالکل صحیح امیدواروں کو چن لیں تو یہ ملک گرداب سے نکل سکتا ہے اور قدرت نے یہ نادر موقع بھی الیکشن کی صورت میں فراہم کر دیا ہے ۔ایسے مواقع پر یہ کہنا کہ ہم کیا کرسکتے ہیں دراصل حقیقت سے فرار ہے ۔ حقیقت یہ ہے صرف نعروں اور وعدوں سے ملک ترقی نہیں کرتے اس کیلئے تعلیم اور جدوجہد ضروری ہے وہ ہم سب کو مل کر کرنی چاہئے اور اللہ سے ناامید نہیں ہونا چاہئے ۔ خود کو یا ملک کو برا بھلا کہنے سے تقدیریں نہیں بدلتیں اس کیلئے قوم کو قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ آئیے اس الیکشن سے اپنی تقدیریں بدل کر قائد اعظم کے پاکستان کو صحیح سمت میں گامزن کریں۔ دراصل یہ الیکشن قوم کی آزمائش ہے سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔
تازہ ترین