• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب پر وزیراعظم کی نظر، کرپشن اور پاکستان ساتھ نہیں چل سکتے، کسی کو چھوٹ نہیں ملے گی، ثبوت ملنے پر سخت ایکشن ہوگا، وزیراطلاعات شبلی فراز

’سب پر وزیراعظم کی نظر، کسی کو چھوٹ نہیں ملے گی‘


اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں) وزیراطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اجمل وزیر کو ہٹا دیا ہے، عمران خان کی جانب سے کسی کو چھوٹ نہیں ملے گی انکی تمام ‏حکومتی وزراء پر کڑی نظر ہے، ‏جس وزیر کیخلاف کوئی ثبوت ہوا تو سخت ایکشن ہوگا۔

کرپشن اور پاکستان ساتھ نہیں چل سکتے، پیپلزپارٹی کا کرمنلز سے گٹھ جوڑ ثابت ہوچکا، ارشد ملک کے قصوں سے پتہ چلتا ہے ن لیگ نے ہر قسم کا حربہ استعمال کیا، ہماری پارٹی میں کوئی گینگ یا مافیا نہیں، ہم پاکستان، اپوزیشن کرپشن کی نمائندہ ہے۔

حزب اختلاف قصہ پارینہ بن چکی ، پکڑے جانے کے خوف سے اکٹھا ہوتی ہے، جبکہ وزیراعظم معائنہ کمیشن کے چیئرمین احمد یار ہراج نے کہا کہ کوئی سرکاری محکمہ ایسا نہیں جسکی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیا جا سکے،ماضی کی حکومت میں 100روپے کی چیز 150میں خریدی گئی،ہم 24 انسپیکشن مکمل کر چکے ہیں، جن کی رپورٹس پیش کر دی گئی ہیں اور عملدرآمد بھی شروع ہو چکا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو پی آئی ڈی میں وزیراعظم معائنہ کمیشن کے چیئرمین احمد یار ہراج کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ 

وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ بدقسمتی سے ان اداروں کو دانستہ طور پر مفلوج کر دیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ اپنے منشور کی پاسداری کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے اداروں میں اصلاحات اور ری اسٹرکچرنگ کیلئے اقدامات اٹھائے ہیں اور وزیراعظم کی تمام تر سیاسی جدوجہد اسی لئے تھی کہ اداروں میں شفافیت ہو۔ انہوں نے کہا کہ پی آئی اے، نیپرا، پیمرا یا جتنے بھی ریگولیٹری کے ادارے ہیں ان کا فعال ہونا اہمیت کا حامل ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان ریونیو وہ ادارہ ہے جو تمام سرکاری خریداریوں اور ادائیگیوں کا کلیدی ادارہ ہوتا ہے اور اس ادارے کا فعال ہونا انتہائی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ بالفرض ایک کھرب روپے کی خریداری ہو، ایک محتاط اندازے کے مطابق ڈیڑھ سو سے 200 ارب روپے اضافی ادا کرنا پڑتے ہیں۔ 

ان میں پی آئی اے، این ایچ اے، ریلوے اور دیگر بہت سے اداروں کی خریداریاں شامل نہیں اور اگر وہ بھی شامل کر لئے جائیں تو 300 سے 350 ارب روپے زیادہ ادا کرنا پڑتے ہیں اور یہ پیسہ قوم کا پیسہ ہوتا ہے، گزشتہ چند برسوں کا تخمینہ لگائیں تو پاکستان کو شاید اربوں روپے کے قرضے نہ لینا پڑتے۔

اسی طرح صوبائی آڈیٹر جنرل کے اداروں کا بھی ہی حال ہے، بلا وجہ رکاوٹیں بڑھا کر بدعنوانی کو بھی دعوت دی جاتی ہے اور یہ بگاڑی دیگر اداروں میں سرایت کر چکا ہے، ماضی کے حکمرانوں نے اس عمل کو اپنے مالی فائدے کے لئے مزید تحفظ اور تقویت دی۔ 

سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ لیکن اب ایسا نہیں ہو گا کیونکہ وزیراعظم عمران خان وہ لیڈر ہے جسکے پاس اخلاقی جرأت ہے اور اسے عوام نے مینڈیٹ بھی اداروں کو فعال بنانے کا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ایسا کر کے جائیں گے کہ آئندہ کے لئے بہتری کی راہ ہموار ہو گی۔ 

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 20 ماہ میں جو اقدامات اٹھائے گئے اس حوالے سے احمد یار ہراج آگاہ کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ آج کل جو اپوزیشن کی ملاقاتیں جاری ہیں، ان کا مقصد عمران خان کی ذات کو نشانہ بنانا اور اس سسٹم کو درست نہ ہونے دینا ہے کیونکہ ماضی میں وہ براہ راست اس سسٹم کے بینفشری رہے ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ آج جس ادارے کیلئے یہ پریس کانفرنس کرنا پڑی وہ ہر ادارے اور ہر فرد کی دلچسپی کا ادارہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت جو اخراجات کرتی ہے لامحالہ وہ عوام کا پیسہ ہوتا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ اسپیڈ منی سسٹم کے ذریعے سرکاری خریداریوں کی مد میں اخراجات بہت زیادہ کئے گئے اور خواہ مخواہ کے اعتراضات لگا کر معاملات کو الجھانا معمول رہا ہے، ٹیکسز ایک طرف سرکاری خریداری مہنگے داموں کی جاتی ہے اور ماضی میں حکمرانوں نے اس بگاڑی کو سلجھانے کی کوئی کوشش تک نہیں کی۔ 

سردار احمد یار ہراج نے کہا کہ حکومت اپنے ہی ملازمین کی کرپشن کے پیسے ادا کر رہی ہوتی ہے لیکن وزیراعظم عمران خان نے جو وعدہ کیا ہے کہ ہم اداروں کو بگاڑ سے نکال کر شفافیت اور بہتری کی جانب لے کر جائیں گے، اس پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس محکمہ پر بھی ہاتھ رکھیں اس میں بہتری کی گنجائش ہے۔ 

انہوں نے کہاکہ وفاق میں اے جی پی آر تمام سرکاری خریداریوں کو دیکھتا ہے اور صوبوں میں بھی اے جی پی آر کے صوبائی دفاتر معاملات کو دیکھتے ہیں اور بدقسمتی سے بگاڑ درست نہیں کیا گیا اور سپلائرکے ساتھ محکمے بھی اس بگاڑ کے ساتھ ڈھلتے جا رہے ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ یہ پہلی منتخب حکومت ہے جس نے اس معاملے میں ہاتھ ڈالا ہے اور چند ماہ میں ایک ایسا نظام بنا کر دینگے جس سے بگاڑ بھی دور ہو گا اور شفافیت بھی آئے گی جس کیلئے ہم نے سفارشات مرتب کر لی ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ ہم نے سفارش کی ہے کہ وزیراعظم کے ڈیجیٹل پاکستان وژن کے تحت اب ہر خریداری کا عمل عوام کے سامنے ہو اور اس تمام عمل کو قواعد و ضوابط کے تحت اور مقررہ مدت کے اندر مکمل کیا جانا چاہیے، تاخیری حرب استعمال کر کے بدعنوانی پر اکسانے اور اخراجات بڑھاے کے عمل میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔ 

انہوں نے کہا کہ گریڈ 21 اور گریڈ 22 کی آسامیاں ہمیشہ وزیراعظم کی منظوری سے پر کی جاتی ہیں لیکن اے جی پی آر میں یہ پوسٹ وزیراعظم کی منظوری کے بغیر دی جا رہی ہیں، اس عمل میں بھی شفافیت لانے کی سفارش کی گئی ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کو بھی کہا گیا ہے کہ ایسے افسران کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ دس سال کے اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید ہمیں یہ قرضے نہ لینا پڑتے جو ماضی میں لئے گئے۔ 

انہوں نے کہا کہ ہم انہی معاملات کو سدھارنا چاہتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ مونوٹائزیشن کی سہولت حاصل کرنے والے افسران گاڑیان رکھنے کے مجاز نہیں، ہم اس معاملے کی بھی تحقیقات کرائیں گے اور جلد اس کے اعداد و شمار بھی میڈیا کے سامنے پیش کریں گے۔

تازہ ترین