• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزارت دفاع کا مسلح افواج میں امتیاز اور بلی انگ کے خلاف اقدامات کا اعلان

لندن (پی اے) وزارت دفاع نے فورسز میں ناقابل قبول سطح تک امتیازی سلوک، ڈرانے دھمکانے کے واقعات سے نمٹنے کیلئے اقدامات کا اعلان کردیا ہے۔ ان اقدامات میں 24گھنٹے کام کرنے والی ہیلپ لائن کا قیام شامل ہے، جس میں چین کمانڈ سے باہر کے کائونسلر موجود ہوں گے، اس کے علاوہ اہلکاروں کو نامناسب رویئے کو چیلنج کرنے کے اعتماد کو یقینی بنانے کیلئے تربیت بھی دی جائے گی۔ ان اقدامات کا اعلان ایک انتہائی سینئر فوجی افسر کی جانب سے فوج میں بچکانہ رویہ ختم کرنے کے مطالبے کے بعد کیا گیا ہے۔ چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل سر نک کارٹر نے کہا تھا کہ اس رویئے کی وجہ سے ذہین اور باصلاحیت خواتین اور نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے فوجی فورسز سے باہر جارہے ہیں۔ رواں ہفتے انھوں نے ارکان پارلیمنٹ سے باتیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلح افواج کے اندر موجود کلچر تشویشناک ہے اور تبدیلی کی رفتار ناقابل قبول ہے۔ انڈیپنڈنٹ سروس کمپلین محتسب کے شائع کردہ اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین، سیاہ فام، ایشیائی اور دیگر نسلی اقلیتوں BAME سے تعلق رکھنے والے اہلکار عام طورپر ڈرانے دھمکانے، ہراساں کئے جانے اور امتیازی سلوک کی شکایت کرتے ہیں۔ گزشتہ سال امتیازی سلوک کے بارے میں 23 فیصد شکایات خواتین کی جانب سے درج کرائی گئیں جبکہ ریگولر فورسز میں ان کی شرح صرف 12 فیصد ہے، BAME سے تعلق رکھنے والوں نے بھی بڑی تعداد میں شکایات درج کرائیں، فوج میں ان کی شرح 8 فیصد ہے لیکن ان کی جانب سے درج کرائی گئی شکایات کی شرح 11 فیصد تھیں۔ محتسب نے متنبہ کیا تھا کہ مسلم افواج میں نسل پرستی عام ہے۔ جس کے بعد مسلح افواج سے اس مسئلے پر قابو پانے کیلئے مزید اقدامات کیلئے کہا گیا تھا۔ قبل ازیں وزیر دفاع بن ویلس مسلح افواج میں تنوع کی صورتحال کو پہلے ہی خطرناک قرار دے چکے ہیں، مسلح افواج کے 150 اعلیٰ ترین افسران میں صرف 3 خواتین ہیں، نئے اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے وزیر دفاع ویلس نے کہا کہ ہماری مسلح افواج میں لوگوں کو ڈرانے دھمکانے یا ہراساں کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور میں نے اس کا مکمل طورپر خاتمہ کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ڈرانے دھمکانے کے خلاف ہماری ہیلپ لائن ایک اہم قدم ہے اور میں اس میں تبدیلی کی مسلسل کوشش کرتا رہوں گا۔ ڈیفنس منسٹر جونی مرکر کا کہنا ہے کہ ہیلپ لائن سے فوجی محفوظ ماحول میں واقعات کی رپورٹ کرسکیں گے اور شکایات کے فوری اورپروفیشنل انداز میں تدارک کو یقینی بنایا جائے گا۔ وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ ڈرانے دھمکانے کے خلاف اقدامات کا وسیع تر جائزہ لیا جاتا رہے گا تاکہ اس سے پیدا ہونے والی بہتری کا اندازہ لگایا جاسکے۔ فجی سے تعلق رکھنے والا ایک فوجی انوک موموناکیا نے، 2012 ۔ 2005 تک ڈیوک لنکاسٹر رجمنٹ کی سیکنڈ بٹالین میں خدمات انجام دیں، اس دوران وہ عراق اور افغانستان بھی گیا، جنوری 2019 میں اسے وزارت دفاع کی جانب سے نسلی امتیاز کی بنیاد 490,000 پونڈ ادا کئے گئے۔ اس نے گزشتہ ماہ بی بی سی کے پروگرام میں باتیں کرتے ہوئے بتایا کہ اسے اور دیگر فجی سے تعلق رکھنے والے فوجیوں کو ایک فوجی تربیت کی ایک ویڈیو بناتے ہوئے طالبان کا لباس پہننے کی ہدایت کی گئی جبکہ سفید فام فوجی فرینڈلی فوج کا گیم کھیل رہے تھے۔ سفید فام فوجیوں نے اس کا نام ایک سیاہ گڑیا پر لکھا، جسے ایک سینئر افسر نے اپنے دفتر میں سجایا، جس سے اسے دوسرے درجے کا فوجی ہونے کا احساس ہوا۔ 24 گھنٹے ہاٹ لائن جیسے اقدامات پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے اس نے کہا کہ اس سے اسے خوشی ہوئی ہے، کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزارت انصاف نسل پرستی کے خلاف اقدامات کر رہی ہے اور معاملات درست سمت میں جا رہے ہیں۔ اس نے ہیلپ لائن کے پرائیویٹ اور چین سے باہر رکھنے کو سراہا لیکن اس نے سوال کیا کہ اگر کوئی فوجی فون کرتا ہے تو مزید کیا اقدامات کئے جائیں گے اور اس کے بعد معاملات کا تدارک کس طرح کیا جائے گا۔ اس نے بتایا کہ نسل پرستی کے علاوہ فوج میں جنسی طورپر ہراساں کرنے اور دھمکیاں دینے کے واقعات بھی عام ہیں، اس لئے تمام فوجیوں کو ان ایشوز کے بارے میں بتایا جانا چاہئے کہ وہ ان سے کس طرح نمٹ سکتے ہیں، یہ نئے اقدامات ک ااعلان رائل ایئر فورس کے موجودہ سربراہ ایئر چیف مارشل مائیک وگسٹن کی جانب سے ایک سال قبل جاری کردہ اس رپورٹ کے بعد کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ فوج میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں، جنھیں ڈرائے، دھمکائے جانے اور نسلی امتیاز کا شکار کئے جانے کا تجربہ ہوچکا ہے۔

تازہ ترین