وفاقی وزیر علی زیدی کا کہنا ہے کہ صوبائی وزیر حقیقی مسئلے سے توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں، عزیر بلوچ برسوں سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حراست میں ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک بیان میں وفاقی وزیر علی زیدی نے کہا ہے کہ عزیر بلوچ کی سرپستی کرنے والے طاقتور سیاستدانوں کے نام جے آئی ٹی میں ہیں، جے آئی ٹی میں نام آنے والے طاقتور سیاستدان آزاد گھوم رہے ہیں، عزیر بلوچ کی سرپرستی کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں آنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ناز بلوچ پی ٹی آئی میں تھیں، اب پیپلز پارٹی میں ہیں، کیا ناز بلوچ اب بھی اپنے گزشتہ نظریے پر قائم ہیں؟ میں نے کھلی درخواست کی تھی کہ عزیر بلوچ کو رینجرز کی تحویل میں دیا جائے، خدشہ تھا کہ طاقتور مافیا عزیر بلوچ کو سندھ حکومت کی تحویل میں مروا دے گا۔
علی زیدی نے کہا کہ عزیر بلوچ نے بھی جے آئی ٹی میں اعترافی بیان دینے کے بعد مافیا سے خطرہ ظاہر کیا تھا، بلدیہ فیکٹری سانحے میں 250 معصوموں کی جان گئی، جے آئی ٹی میں کہا گیا کہ بلدیہ فیکٹری سانحے پر سندھ پولیس سے کوتاہی ہوئی، جے آئی ٹی میں تجویز کیا گیا کہ بلدیہ فیکٹری سانحے کی ایف آئی آر دوبارہ درج کی جائے۔
انہوں نے سوال کیا کہ سندھ حکومت 4 سال سے کیوں سو رہی تھی؟ میں نے اپنے شہر کے لیے اپنا کردار ادا کیا، میں نے ان تمام لوگوں کیلئے آواز بلند کی جو گینگ وار اور دہشت گردوں سے متاثر ہوئے، میں نے اس مقصد کیلئے اپنے خاندان کی سیکیورٹی اور اپنا سب کچھ داؤ پر لگایا۔
یہ بھی پڑھیئے: جے آئی ٹیز کا منتظر ہوں، علی زیدی
وفاقی وزیر نے یہ بھی کہا کہ میرے اور میرے خاندان کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تھریٹ الرٹ جاری کیا ہے، میں اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لے کر جاؤں گا، سپریم کورٹ میں جانے والا معاملہ کسی کے اختیار میں نہیں ہوتا، امید ہے کہ معزز جج صاحبان تمام شواہد دیکھ کر انصاف دیں گے۔