• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قارئین الیکشن کے علاوہ بھی تو کچھ اور پڑھنا، سننا اور دیکھنا چاہتے ہیں یعنی
کچھ اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
اس وقت چوبیس گھنٹے سوائے الیکشن، امیدواروں، ان کے کردار، ماضی کے کرتوت، غلط بیانیاں، جھوٹی ڈگریاں، رشوت ستانیاں، اہلیت اور نااہلیت وغیرہ ہی موضوع ِ سخن ہیں۔ اس میں کچھ تبدیلی پیدا کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں دو اہم کتابوں پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں۔ دونوں کتابیں اپنی اپنی جگہ اہم ہیں اور ہماری تاریخ کے اہم واقعات پر روشنی ڈالتی ہیں۔ ان کتابوں کا مطالعہ چونکہ قارئین کی اکثریت کیلئے ناممکن ہے اس لئے اپنے ہر دلعزیز روزنامہ کے ذریعے آپ کو ان میں بیان کردہ دلچسپ اور اہم واقعات کے بارے میں بتا رہا ہوں۔
(1)پہلی اہم کتاب جو تاریخی اہمیت کی ہے وہ ہے میاں عبدالوحید کی آب بیتی”Before Memory Fades“ یعنی ”قبل اسکے کہ یادداشت جواب دے جائے“۔ اسکے ٹائٹل میں آپ نے لکھا ہے "Emergence of Pakistan as a nuclear power" اس طرح ملک کی تاریخ کے ایک معجزے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ میاں عبدالوحید سابق آرمی چیف و صدر جنرل ضیاء الحق کے فرسٹ کزن ہیں یعنی ان دونوں کے والدین سگے بہن بھائی تھے۔ میاں صاحب کے سسر بٹالہ کے مشہور صنعت کار جناب سی ایم لطیف بٹالہ انجینئرنگ کمپنی BECO کے مالک تھے جو غیرمنقسم ہندوستان میں ایک اعلیٰ درجہ کی فیکٹری تھی۔ توقعات اور امیدوں کے خلاف اور ماؤنٹ بیٹن اور ریڈ کلف کی غداری کی وجہ سے یہ علاقہ آخری لمحوں میں ہندوستان کو دیدیا گیا تھا۔ انہوں نے پاکستان ہجرت کرکے لاہور میں PECO یعنی پاکستان انجینئرنگ کمپنی کے نام سے نئی فیکٹری قائم اور اعلیٰ مشین بنانے لگے۔ جب 1976ء میں، میں نے کہوٹہ کی بنیاد رکھی تو ہم نے ان سے لاتعداد مشینیں خریدیں جن سے اہم کام لیا گیا تھا۔میاں وحید سفارت کار ہیں، پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اکنامکس اور امریکہ کے مشہور فلیچر اسکول آف لاء اور ڈپلومیسی اور ہارورڈ سے تعلیم حاصل کی ہے۔ شروع میں پولیس سروس میں ملازمت کی۔ صوبہ سرحد میں ڈی آئی جی رہے ، بعد میں سفارتی زندگی کا آغاز کیا اور27 برس کی مدت کے دوران دنیا کے بہت سے ممالک میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ آپ کی اہم تعیناتی بطور سفیر جرمنی اور اٹلی میں تھیں۔ آپ نے وزارت خارجہ سے استعفیٰ دے کر الیکشن میں حصہ لیا تھا اور 1990ء اور 1997ء میں قومی اسمبلی میں نمائندگی کی تھی۔ آپ 1997ء میں قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے خارجہ امور کے چےئرمین بھی رہے ہیں۔ میاں وحید کی جرمنی میں تعیناتی پہلے1997ء سے 1981ء تک اور پھر 1984ء سے1987ء کا وقت ہمارے لئے، خاص طور پر ہمارے نیوکلیئر پروگرام کے لئے بہت اہم تھا۔ جب بھٹو صاحب نے یورینیم کی افزودگی (اور ایٹمی ہتھیار کا) پروگرام 1976ء میں میرے حوالہ کیا تو اس وقت بلجیم میں اور بعد میں پیرس میں منیر احمد خان کا نہایت معتمد اور دست راست اور پرانا ساتھی شفیق احمد بٹ وہاں پروکیورمنٹ افسر تھا۔ یہ ضرورت سے زیادہ ہی منیر کے وفادار تھے اور وجوہات میں بیان نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے فوراً اپنا افسر بھیجنا تھا۔ میری درخواست پرPOF کے چےئرمین جنرل علی نواب نے جو ایک نہایت قابل انجینئر اور فرشتہ خصلت انسان تھے اپنا ایک نہایت اچھا، جرمن زبان بولنے والا اور جرمنی میں پہلے کام کرنے والا افسر انجینئر اکرام الحق مجھے دے دیا اور میں نے ان کو بون میں پوسٹ کر دیا۔ ان کے میاں وحید سے بہترین تعلقات تھے۔ پہلے یہ قونصلر تھے اور بعد میں کمرشل منسٹر بنے اور انہوں نے طویل عرصہ تک بہترین، مفید خدمات انجام دیں۔ میاں وحید نے ہمیشہ ان کی مدد کی جو ہمارے پروگرام کی تکمیل کیلئے اہم ثابت ہوئی۔میاں عبدالوحید کی اس اہم کتاب کی اشاعت جمہوری پبلی کیشنز،2 ۔ایوان تجارت روڈ، لاہور (042-36314140) نے کی ہے۔ یوں تو پوری کتاب ہی نہایت دلچسپ تاریخی واقعات سے پُر ہے لیکن میں خاص طور پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر لکھے گئے باب پر تبصرہ کروں گا چونکہ میں خود ان حقائق سے پوری طرح واقف ہوں اور میاں صاحب چونکہ جنرل ضیاء الحق کے فرسٹ کزن کی حیثیت سے ان سے باقاعدگی سے ملا کرتے تھے اور جنرل ضیاء ان کو اعتماد میں لے کر ہمارے کام کی ترقی سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔
میاں عبدالوحید نے اپنی کتاب کے 12-A باب میں پاکستان بطور ایٹمی قوت بننے کی کچھ تفصیلات بیان کی ہیں۔ ہندوستان کے 18 مئی 1974ء کے ایٹمی دھماکے کے بعد میں خاصا پریشان اور شش وپنج میں تھا اور آخر کار ستمبر 1974ء کو میں نے ہمارے سفیر، فرشتہ خصلت اور نہایت محب وطن جناب جے جی خراس کی معرفت بھٹو صاحب کو خط لکھا تھا کہ اگر پاکستان نے فوراً جوابی اقدامات نہیں کئے تو پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا اور یہ کہ میں اس سلسلے میں رہنمائی کر سکتا ہوں۔ میاں صاحب نے اس خط کی آمد اور بعد کے واقعات پر روشنی ڈالی ہے۔ میں پہلے دسمبر 1974ء میں بھٹو صاحب کی دعوت پر آیا اور پھر دسمبر1975ء میں دوبارہ آیا تو انہوں نے روک لیا۔ ہمارا ارادہ رکنے کا قطعی نہ تھا مگر ان کے اصرار پر رک گئے۔ میں کوئی ڈرائنگز یا معلومات نہ لایا تھا، سب کچھ دماغ میں تھا اور تجربہ میرا اثاثہ تھے۔ چند ماہ بعد پروجیکٹ کو اٹامک انرجی سے علیحدہ کرکے میرے حوالے کردیا گیا کیونکہ اس کی نگرانی میں یہ ناممکن تھا۔ ہم نے پھر مڑ کر نہیں دیکھا اور نہ صرف یورینیم کو بم کے لئے افزودہ کیا بلکہ جنرل ضیاء کی ہدایت پر ایٹم بم بھی بنا دیا اور ان کو 10دسمبر1984ء کو تحریری طور پر آگاہ کردیا کہ ہم ہفتہ کے نوٹس پر ایٹمی دھماکہ کرسکتے ہیں۔میاں عبدالوحید نے اس خط کی آمد پر جنرل ضیاء کی خوشی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ کس طرح منیر احمد خان اور اس کے حواری ہمارے خلاف کام کر رہے تھے اور کس طرح DG-MO کے پاس سیف میں رکھوائی گئی ایٹم بم کی ڈرائنگز اور تفصیلات وائس چیف آف آرمی اسٹاف جنرل خالد محمود عارف نے نکلوا کر منیر احمد خان کو دے دی تھیں تاکہ اس کے حواری اس کی نقل کرکے ایٹم بم بنانے کے دعویدار بن جائیں۔ جنرل ضیاء نے جنرل عارف کی اس سازش کا ذکر میاں وحید سے کیا تھا اور سخت اظہار برہمی کیا تھا۔ میاں وحید نے ویانا میں سفارت خانے کے اسٹاف کے خلاف بھی منیر احمد خان کی سازشوں کا تذکرہ کیا ہے۔ان تمام حقائق کو پڑھ کر افسوس ہوتا ہے کہ اس ملک میں ذاتی مفاد، خاندانی دوستی، برادری کے تعلقات قومی مفادات پر افضلیت رکھتے ہیں اور لوگ ملکی مفاد کو نقصان پہنچانے کی خاطر کسی بھی غیر اخلاقی اور قابل ِ مذمت حرکت کرنے سے باز نہیں آتے۔ میاں وحید کی یہ کتاب خزینہ معلومات ہے۔
(2)دوسری اہم، تاریخی واقعات سے پُر کتاب ”اِدھر ہم،اُدھر تم“ ہے۔ اس کے مصنف مشہور وکیل صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری ہیں۔ اس کو اخوندزادہ پرنٹنگ پریس راولپنڈی نے شائع کیا ہے۔ جناب احمد رضا خان قصوری ہمیشہ سے ایک رنگین اور ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں۔ آپ سیاست داں بھی ہیں اور خاصے متنازع بھی ہیں۔ انہوں نے اپنی اس روئیداد میں نہ صرف اپنے خاندان کے پس منظر پر روشنی ڈالی ہے بلکہ اپنی تقریباً 50 سالہ پیشہ ورانہ اور سیاسی سرگرمیاں بھی بیان کی ہیں۔ پہلے تو یہ عرض کروں کہ خان صاحب واقعی اصلی پٹھان ہیں اور یوسف زئی قبیلہ سے تعلق ہے۔ خاندانی بیک گراؤنڈ اعلیٰ ہے۔ آپ کے خاندان کا تعلق نواب آف لوہارو سے ہے۔ یہ ریاست دہلی کے قریب جلال آباد و مظفر نگر کے قریب ہے اور پورا علاقہ پٹھانوں کی بستیاں ہیں یعنی یہاں افغانستان اور قبائلی علاقوں سے آنے والے پٹھان رہائش پذیر تھے۔
میں اس علاقہ سے اسلئے واقف ہوں کہ بھوپال میں ہمارے پڑوسی (نہایت خوبصورت دراز قد والے) شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے پٹھان تھے ان کی جائیداد جلال آباد میں تھیں اور ان کا کوئی فرد ہر سال موسم گرما میں وہاں جاکر کسانوں سے رقم لے کر آتا تھا اور عموماًجاتے وقت میرے مرحوم بڑے بھائی عبدالرؤف خان کو ساتھ لے جاتا تھا وہاں سے وہ ڈوری میں پروئے ہوئے بڑے بڑے بیر لاتے تھے۔ یہ بے حد لذیز ہوتے تھے سیب سے بھی زیادہ لذیز۔ دوم کراچی میں میرے نہایت عزیز دوست (اور بعد میں کے آر ایل میں میزائل سیکشن کے ڈی جی) انجینئر بدرالاسلام کا تعلق بھی مظفر نگر سے ہے۔
قصوری صاحب کا تعلق ایک طرح سے لوہارو کے شاہی خاندان اور پھر پاکستان تحریک کے مشہور اور قائد اعظم کے معتمد خاص بیرسٹر نواب اسماعیل خان سے ہے۔ پٹھان ہونے کے ناتے سے بہت جلد غصے میں آجاتے اور دل کی بات زبان پر لانے میں نہیں ہچکچاتے۔قصوری صاحب نوجوانی ہی سے سیاست میں دلچسپی لیتے رہے ہیں۔ ایوب خان کے دور میں جیل گئے اور پھر تاشقند معاہدہ کے بعد ایوب خان کے خلاف تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس طرح بھٹو صاحب کے رفیق کار بن گئے اور جب بھٹو صاحب نے پی پی پی کی بنیاد ڈالی تو یہ پارٹی کی بنیاد رکھنے والے افراد میں شامل تھے۔
بعد میں بھٹو صاحب کی غیر جمہوری پالیسیوں سے دل برداشتہ ہو کر علیحدہ ہوگئے اور تابڑ توڑ حملے کئے۔ 1971ء کے الیکشن کے بعد جب بھٹو صاحب نے یحییٰ خان کی پالیسی پر عمل کرکے شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار سونپنے سے انکار کیا اور پاکستانی نمائندوں کو ٹانگیں توڑنے اور ون وے ٹکٹ کی دھمکی دی تو انہوں نے کھل کر بغاوت کا علم بلند کردیا۔
ASF کے سربراہ مسعود محمود نے جب اپنے کارندوں سے ان پر حملہ کیا تو ان کے والد شہید ہوگئے اور یہ بچ گئے۔ FIR میں انہوں نے بھٹو کو موردِ الزام ٹھہرایا اور اسی بنا پر ضیاء الحق کے دور میں ان کی غلام عدلیہ نے بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی اور قصوری صاحب ضیاء الحق کے چہیتوں کی فہرست میں آ گئے۔ بدقسمتی سے یہاں ان کو یہ صحبت اس قدر پسند آئی کہ بعد میں مشرف کے دست راست بن گئے۔ مجھے ان کو مشرف کے ساتھ اور اس کی حمایت کرتے دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ ایک اعلیٰ خاندان و غیور پٹھانوں کی نسل سے وابستہ شخص ایسے بدکردار شخص کا کیسے ساتھی بن گیا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے ایک شیر ایک گیدڑ کے پیچھے سر جھکائے اور دم ہلاتے گھومتا پھرے۔ پھر یاد آیا کہ بعض اوقات غیور اور بہادر پٹھان بھی مصلحت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کیا افغانستان کے بہادر اور غیّور پٹھانوں نے بچّہ سقّہ کو اپنا رہبر و بادشاہ قبول نہیں کرلیا تھا؟
تازہ ترین