• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے دنیا سے کٹے ہوئے پانچواں دن تھا ۔پیانگ یانگ میں نہ کو ئی بیرونی رابطہ،نہ کو ئی ٹی وی ڈش ، نہ اخبار، نہ انٹرنیٹ، نہ ایس ایم ایس۔
پہلے مجھے سانپوں کے فارم میں لے جایا گیا۔ زندگی میں پہلی دفعہ لاکھوں کروڑوں رینگتے ، بل کھاتے ، باریک ہوا دار جالیوں پر چڑھتے اور اترتے ہو ئے سانپ اکٹھے دیکھے۔ مجھے طالب علمی کے دور کی ہالی وڈ فلم ”سانپوں کا انتقام“ یاد آ گئی جسے دیکھتے ہوئے اکثر لوگ اپنی سیٹ اور کپڑوں میں رینگتے ہوئے سانپ محسوس کرکے اچھل پڑتے تھے۔ گائیڈ نے بتایا کہ یہ سانپ ویکسین کے لئے زہر پیدا کرتے ہیں جس کے بعد ان کے سر کاٹ کر انہیں الکوحل میں پیک کر دیا جاتا ہے، جس کی پیلے سمندر کے ارد گرد پھیلے ملکوں میں بڑی مانگ ہے ۔ کین سانگ صوبے کے اسی پہاڑ کی چوٹی پر جن سنگ کے لہلہاتے کھیت ہیں جو شمالی کوریا سے چین میں ایکسپورٹ اور اردگرد کے ممالک میں اسمگل ہوتی ہے۔ مو لی کی طرح زیر زمین اگنے والی مہنگی ترین جن سنگ کو یہاں ”گولڈن گرل“ بھی کہا جا تا ہے۔ کین سانگ کے پہاڑ مری کی طرح کے ہیں لیکن اتنے اونچے نہیں ۔ اس کی دوسری جانب اترتے وقت یوں لگا جس طرح سامنے پنجاب کے کسی صوفی بزرگ کا کوئی عرس سجا ہوا ہے۔ جہاں تھیٹروں اور ٹھیلوں کے لاوٴڈ اسپیکر مقابلہ بازی میں مصروف ہیں۔ یہ شمالی اور جنوبی کوریا کا گرم ترین بارڈر ہے جہاں اکثر جنوبی کوریا اور امریکہ کے فوجی ایک دوسرے پر فائرنگ کرتے ہیں۔
فلیگ میٹنگ کا کمرہ ہے جہاں مذاکرات کے دوران کئی مرتبہ یہ فوجی ایک دوسرے کو قتل کر چکے ہیں۔ جنوبی کوریا کے لاوٴڈ اسپیکر شمالی کوریا کو خونخوار امریکی استعمار کا ایجنٹ کہتے ہیں جبکہ دوسری طرف کے لاوٴڈ اسپیکر جنوبی کوریا کو سیاہ دور کی ڈکٹیٹر شپ اور انسانیت کی بند گلی کے ناموں سے پکارتے ہیں۔ غالباً یہ دنیا کی واحد جگہ ہے جہاں لاوٴڈ اسپیکروں پر انگریزی اور کوریائی زبانوں میں گالیوں کا عالمی مقابلہ مستقل بنیادوں پر ہوتا ہے، وہ بھی روزانہ۔ اس تلخی کی اصل وجہ انیس سو تیس سے انیس سو پچاس کے درمیان ہونے والی کوریائی جنگوں کے علاوہ ایشیاء کی وہ دیوار برلن بھی ہے جس نے جزیرہ نما کوریا کو کنکریٹ سے دو لخت کر رکھا ہے ۔ یہ دیوار اس خون آشام دور کی لہو رنگ یادگار ہے جس میں شمالی کوریا کے دارالحکومت پیانگ یانگ میں آباد ایک ملین شہریوں پر دو ملین بم گرائے گئے تھے اور اس جنگ میں اس جزیرے کی واجبی آبادی میں سے تیس لاکھ سے زائد لوگ امریکہ اور جاپان کے بارود سے بھسم ہو گئے تھے۔
کین سانگ کے پہاڑ کے نزدیک ہی وہ تجربہ گاہ ہے جہاں سے امریکی فوج نے سیئول کی فرمائش پر آگ سے بھرے میزائل کو ٹیسٹ کرنے کا ارادہ کیا۔ اسی کے نتیجے میں شمالی کوریا کے نوجوان صدر نے سخت ردعمل کا عملی مظاہرہ کیا۔ جس کے بعد تلخی اور طیش کی ریگولر قسطیں چلنا شروع ہو گئیں۔ لفظوں کی گولہ باری کا یہ عالم ہے کہ سیئول کم بو لتا ہے جبکہ اس کے امریکی مہمان اور مہربان ادارے بہت زیادہ۔ عوامی جمہوریہ چین کے تعاون سے دونوں کوریائی حکومتوں میں کشیدگی کی کمی اور نیو کلیئر فری جزیرے کے لئے ہونے والے اقدامات کا رول بیک بھی لمحہٴ فکریہ ہے۔ کورین اکنامک ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن جسے عرف عام میں ”کیڈو“ کہا جاتا ہے اس کا کردار شروع میں ہیر جیسا تھا اب اس کے چچا کیدو جیسا ہے ۔ جنوبی کوریا نے اقتصادی تعاون اور مشترکہ تجارت کے منی بازار بند ہوتے ہی وہ ایٹم گھر پھر چالو کر دیا جس کی بھٹی دنیا بھر کے کیمروں کے سامنے دھماکہ خیزمواد لگا کر اڑائی گئی تھی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ سیئول کے بارڈر پر امریکی فوجیں اور پیانگ یانگ کے بارڈر پر عوامی فوجیں صرف آنکھ جھپکنے کے انتظار میں ہیں۔ ایک ذرا سے غلط اندازے یا پھر عراق میں تباہی کے بڑے ہتھیاروں کی موجودگی جیسی امریکی انٹیلی جنس ایشیاء کو ایٹم بم کا تیسرا تحفہ دے سکتی ہے۔ ویسے بھی کین سانگ کے پہاڑوں سے جاپان کی سرحد زیادہ دور نہیں اس لئے بنیادی سوال یہ ہے کہ نسل آدم و حوّا کا وہ خون جو دنیاکے پہلے ایٹم بم سے لے کر کرہٴ ارضی پر چلائے گئے آخری ایٹم بم تک ایشیاء میں ہیروشیما اور ناگاساکی کے شہروں میں بہہ چکا ہے۔
اس کے لئے مظلوم جزیرہ نما کوریا کو کس کے ہاتھوں جنگی تجربہ گاہ بنایا جا رہا ہے؟ مگر اس سے بھی زیاددہ اہم اور ضروری سوال یہ ہے کہ کیا دونوں جانب کے کوریائی عوام میں شعور نہیں کہ اپنے سرپرستوں کے بجائے اپنے سر استعمال کریں؟ اور ایشیاء کی زمین پر پکی ہوئی سروں کی نئی فصل کو ایٹمی تندور میں گرنے سے بچا لیں؟ مجھے ابھی تک ایشیاء کی اُن علاقائی تعاون کی ریاستی اور غیر ریاستی تنظیموں اور اداروں کے کردار پر حیرت ہو رہی ہے جن کے کان بہرے ہیں اور وہ ایشیاء کی چھاتی پر پھٹنے کو تیار تیسرے ایٹم بم کی سیٹی نہیں سن سکتے۔ اسی طرح دوسری عالمگیر جنگ کے بعد بننے والے یو این او جیسے ادارے کیا اندھے ہیں؟َ جنہیں امریکہ کے حکومتی اور فوجی عہدیداروں کے بیانات اور پیانگ یانگ کے نوخیز لیڈر کی تقریروں اور احکامات کی سُن گُن نہیں ہے؟ اگر ہے تو پھر ایشیاء کے لیڈر اور دنیا کے بڑے کس وجہ سے مجرمانہ غفلت کی پالیسی اپنا رہے ہیں؟ آئن اسٹائن نے درست کہا تھا کہ تیسری ایٹمی جنگ دنیا کو اسٹون ایج یعنی پتھرکے زمانے میں واپس لے جائے گی۔کوریا کی کشیدگی اور عالمی اسلحہ سازوں کا جنگی جنون ایشیاء کے لئے تیسرا ایٹم بم کندھے پر اٹھا کر پھر رہا ہے جس میں بظاہر نہ تو کوئی سیفٹی کیچ ہے اور نہ ہی اس کے چلنے میں کوئی نظر آنے والی رکاوٹ۔ اس لئے ایشیاء کے لیڈروں کو کوریا کا مسئلہ پانچ ملکوں کے گروپ کے علاوہ وسیع البنیاد علاقائی کا نفرنس میں لے جانا ہوگا۔ جہاں عالمی طاقت کے دلالوں یعنی پاور بروکرز کو بٹھا کر گفتگو کرنے کے بجائے مصنوعی کنکریٹ کی دیوار سے تقسیم کی گئی کوریائی قوم کے لیڈروں کو ایک کمرے میں بند کر دینا چاہئے ۔ انہیں کہنا چاہئے کہ جزیرہ نما کوریا ،سافٹ ایشیاء اور زخموں سے چور عالمی امن کے محفوظ مستقبل کا راستہ نکال کر کمرے سے باہر نکلیں۔
میں یہ بات بھی دنیا کو بتانا چاہتا ہوں کہ امن کو جواریوں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا کیونکہ امن نسل انسانی کے تسلسل کی پہلی ضمانت ہے، جنگ اس کے خاتمے کا اولین ذریعہ۔ اس لئے دنیا کو بنگلہ دیش میں سجائے گئے پھانسیوں کے پلٹن میدان، برما میں جلائی گئی جامع مسجد رافین اور کین سانگ کے بارڈر پر بارود کے انباروں کی طرف فوری توجہ دینی ہو گی۔کون کہے گا کہ اگر سارے ایشیاء کی لیڈر شپ کوریا میں امن کے لئے مشترکہ آواز بلند کرے تو اس کے باوجود بھی جنگ کے عالمی تاجر ایشیاء کے اجتماعی عوامی شعور کے مقابلے میں جیت سکتے ہیں؟
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ایشیاء انسانیت کا مستقبل ہے۔ برصغیر پاک و ہند سے لے کر چین تک، انڈونیشیا سے لے کر افغانستان تک ۔ وہ ممالک جنہیں کہیں حالات کی مجبوری نے کہیں جغرافیائی حقیقتوں نے اور کہیں لیڈروں کی عاقبت نا اندیشی نے سیکورٹی ریاست بنا دیا ہے وہاں کے لوگ جدید دنیا سے میلوں نہیں صدیوں پیچھے رہ گئے ہیں لیکن جن ممالک میں سر پھرے حکمران نہیں آئے ان کی معیشتیں آج وہاں کے عوام کو دنیا کے سرکردہ معاشروں میں لے گئی ہیں۔ آج ایشیاء میں ایک نہیں بلکہ کئی ”سلیپنگ جائنٹس“ہیں۔ کوریا کئی اعتبار سے ایسی ہی خوش قسمت سر زمین ہے لیکن اس کی پہلی اور آخری بدقسمتی یہ ہے کہ وہ پاکستان کی طرح علاقائی طاقتوں کی پراکسی جنگ کا میدان ہے اور بین الاقوامی طاقتوں میں کھینچا تانی کی پرانی تجربہ گاہ بھی۔ طاقت کے پجاریوں کے لئے یہ سیاست مشغلہ ہے لیکن ایشیاء کا سینہ اب کسی تیسرے ایٹم بم کے زخم برداشت کرنے کے قابل نہیں۔
ساحر لدھیانوی نے کرائے کی علاقائی جنگیں اور عالمی مشغلہ سیاست کے سامراجی ایجنٹوں کو مخاطب کر کے ایشیاء کے عوام کی زبان میں جو روڈ میپ برسوں پہلے دیا تھا وہ ایشیاء کے لئے تیار کئے گئے تیسرے ایٹم بم کو پھٹنے سے روک سکتا ہے ۔
بہت دنوں سے ہے، یہ مشغلہ سیاست کا
کہ جب جوان ہوں بچے تو قتل ہو جائیں
بہت دنوں سے ہے یہ خبط حکمرانوں کا
کہ دور دور کے ملکوں میں قحط بو جائیں
کہو کہ آج بھی ہم سب اگر خموش رہے
تو اس دمکتے ہوئے خاکداں کی خیر نہیں
جنوں کی ڈھالی ہوئی ایٹمی بلاوٴں سے
زمیں کی خیر نہیں، آسماں کی خیر نہیں
گزشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں
گزشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں
تازہ ترین