• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب سے 13سال پہلے میں نے ایک مضمون لکھا تھا جس کا عنوان اردو میں کچھ یوں تھا ”ان موٹی اور بھدی بلیوں کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔“ (Who will bell the bad, fat cats) یہ مضمون ایک( انگریزی معاصر) اخبار نے اس وقت چھاپنے سے انکار کر دیا تو میں نے اپنے ایڈیٹر مرحوم احمد علی خان صاحب سے اجازت مانگی کہ کسی دوسرے اخبار میں چھپوا لوں۔ اجازت ملنے پر مرحوم عزیز صدیقی کے( انگریزی معاصر) اخبار میں جنوری 2000ء میں چھپ گیا اور پھر انٹرنیٹ کی مختلف ویب سائٹس پر بھی لگ گیا۔ اس مضمون کی یاد مجھے اب اس لئے شدومد کے ساتھ آئی جب اخباروں میں سرخیاں لگیں کہ 17/اپریل کو عدلیہ میں وہ نام بتائے جائیں گے جن کو حکومتوں کے خفیہ فنڈ سے کروڑوں کے تحفے یا عرف عام میں رشوتیں دی گئیں۔ افسوس بھی ہو رہا ہے اور ایک طرح سے خوشی بھی کہ اگر یہ تاریخی واقعہ ہوگیا اور میرے ہی قبیلے کے دوستوں اور ساتھیوں اور بعض ناپسندیدہ عناصر کے نام منظر عام پر آ گئے تو بہت دیر سے رکی ہوئی بھل صفائی ہو جائے گی مگر مجھے نہ جانے کیوں رہ رہ کر یہ ڈر لگ رہا ہے کہ جن موٹی بلیوں کے گلے میں گھنٹی باندھنے کو کوئی آج تک تیار نہیں ہوا ان کو کیا ہماری آزاد عدلیہ آئینہ دکھانے کو تیار ہو جائے گی۔ اپنے جنوری 2000ء کے مضمون میں تو میں نے اس وقت کے جتنے نام لئے جا سکتے تھے وہ لکھ دیئے تھے اور کیونکہ میرے اس وقت کے (انگریزی معاصر) اخبار کے کئی نام بھی اس لسٹ میں شامل تھے تو میرے اخبار نے وہ مضمون چھاپنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ نام اب بھی بہت مشہور ہیں اور ان صحافی خواتین اور حضرات میں سے کئی سفیر بنے، کچھ وزیر اور وزیراعلیٰ کے عہدوں تک پہنچے اور کئی اسمبلیوں کے ممبر اور سیاسی پارٹیوں کے عہدیدار ہوگئے۔ اس وقت میرا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ کئی لوگ صحافت کو سیڑھی کی طرح استعمال کر کے اپنے سیاسی عزائم اور خواہشات کو پورا کر رہے ہیں۔ یہ میرے خیال میں ایک طرح کی بے ایمانی ہے کہ پہلے آپ دوسروں پر صحافی بن کر تنقید کریں اور مشورے دیں اور پھر اچک کر کسی کرسی پر بیٹھ جائیں۔ کئی تو ایسے بھی تھے جو جب سیاست اور طاقت کے ایوانوں سے نکالے گئے تو واپس آ کر صحافتی تنقید شروع کر دی مگر اب جو نام آنے والے ہیں وہ اس سے بہت بڑے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ان لوگوں نے صحافت کو نہ صرف اپنے سیاسی عزائم کے لئے استعمال کیا بلکہ چند لاکھ روپوں کی خاطر بیچ دیا اور کرائے کے ٹٹو بن جانا پسند کیا۔ عدلیہ میں بتایا گیا کہ 200میں سے کوئی 20/ایسے کیس ہیں جن کے بارے میں مزید معلومات نہیں دی جا سکتیں کیونکہ وہ قومی سلامتی کے حوالے سے پوشیدہ رکھنا ضروری ہے۔ ٹھیک ہے مگر180کیس تو سامنے آ سکتے ہیں اور اگر یہ لسٹ شائع ہوگئی تو صحافت میں یقیناً ایک سونامی آئے گی۔ اس لسٹ کا پوری طرح چھپنا ضروری اس لئے ہے کہ بڑے بڑے جغادری جو ہر ایک کی ماں اور بہن کا خیال کئے بغیر لمبے لمبے لیکچر روزانہ اپنے کالموں میں دیتے ہیں ان کی اصلیت سامنے آئے گی۔ یہ بھی معلوم ہوگا کون کون بکا اور کتنے میں بکا۔ اصل مسئلہ یہ ہوگا کہ کئی نام جو سامنے آئیں گے وہ فوراً ہی انکار کر دیں گے کہ ان کے خلاف سازش ہوئی ہے اور انہیں بدنام کرنے کی کوشش ہوئی ہے اب یہ کام عدلیہ کا ہے کہ وہ کیسے اس سارے معاملے کو سنبھالتی ہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ جب لسٹیں عدالت میں جج صاحبان کو دی جائیں تو وہ اس بات کا یقین کروا لیں کہ شرارت تو نہیں کی گئی اور لسٹیں داخل کرنے والوں کو بھی وارننگ سختی سے دی جائے کہ اگر کسی کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ بھی سزا بھگت سکتے ہیں مگر یہ سب احتیاطی اقدام اٹھانے کے بعد جو حقائق سامنے آئیں ان کو عوام کے سامنے ضرور لانا چاہئے۔ میں تو اس امید میں بے قرار ہوں کہ کاش یہ کام ممکن ہو سکے کیونکہ میڈیا اب ایک بڑا ستون بن گیا ہے اور جمہوریت کی گاڑی کو چلانے کیلئے اور قانون اور آئین کی بالادستی کیلئے اور خود عدالتوں کے نظام کی آزادی کے لئے میڈیا کا رول انتہائی اہم ہوگیا ہے اب الیکشن کے موسم میں ہر پارٹی اور ہر شخص جو انتخاب کے عمل میں داخل ہو چکا ہے وہ میڈیا کی مدد حاصل کرنا چاہتا ہے اور کئی تو بڑی بڑی بولیاں لگانے کو بھی تیار ہیں سو میڈیا میں کالی بھیڑوں کی صفائی کا کام اب اشد ضروری ہی نہیں ناگزیر ہوگیا ہے۔ عدلیہ میں جو نام اور جو کرتوت سامنے آئیں گے وہ تو نظر آ ہی جائیں گے لیکن جو میڈیا کے لوگ حکومتوں کے علاوہ سیاسی پارٹیوں،اہم شخصیات یا کاروباری کمپنیوں سے چائے پانی کا رشتہ استوار رکھتے ہیں ان کو بھی سامنے لانا ضروری ہے۔ اب اگر کوئی لکھنے والا کہلاتا تو غیرجانبدار ہے مگر لکھتا ہمیشہ کسی ایک پارٹی یا لیڈر کے حق میں تو وہ بھی جوابدہ تو ہونا چاہئے یا پھر اس طرح کے لوگوں کو اپنی تحریروں کے ساتھ یہ لکھنا ضروری بنانا چاہئے کہ وہ کس پارٹی یا شخص کیلئے کام کر رہے ہیں۔ ہر ایک کو اپنی رائے دینے کا حق ہے مگر پیسے لے کر رائے بدل بدل کر لکھنے والے پوری طرح Expose ہونے چاہئیں۔ یہاں تو حال یہ ہے کہ یا تو پیسے پکڑ لئے یا پھر درجنوں حج کر لئے یا اپنے بھائیوں اور بھتیجوں کو حکومت میں بھرتی کروا دیا۔ کچھ نے چن چن کر بچوں کو ایسے محکموں میں بھرتی کروایا جہاں اوپر کی آمدنی خوب ہوتی ہو جیسے پٹواری یا کسٹم یا انکم ٹیکس اور پھر جب بڑی بڑی مرسیڈیز گاڑیاں دروازوں پر آ گئیں اور گھر محلات میں بدل گئے تو یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم تو ملک کے بھاری مشاہرہ لینے والے لکھاری ہیں۔ مجھے یاد آیا جنرل مشرف کا دعویٰ کہ انہیں لاکھوں ڈالر ایک لیکچر دینے کے مل جاتے ہیں یہ دعویٰ انہوں نے صدارت سے نکلنے کے بعد امریکہ میں کیا کیونکہ لوگوں نے پوچھنا شروع کیا تھا کہ آپ کے پاس لاکھوں ڈالر کہاں سے آگئے۔ بل کلنٹن کو ایک زمانے میں ایک لاکھ ڈالر ملا کرتے تھے ایک تقریر کے اور اس پر امریکی میڈیا میں دھوم مچ جاتی تھی تو مشرف کو روز یا ہفتے یا ہر مہینے وہی باتیں دہرانے پر لاکھوں ڈالر کون سا ادارہ دے سکتا ہے مگر ایک بہانہ تو بن گیا کہ آمدن ہو رہی ہے۔ اسی طرح ہمارے لکھاری بھی کبھی کسی ٹاک شو کے لاکھوں وصول کرنا شروع کر دیتے ہیں اور کبھی ان کے محلات کے دروازوں پر بڑی بڑی گاڑیاں ان کے بچوں کے سسرال سے آ کر خود بخود پارک ہو جاتی ہیں۔ میرے خیال میں یہ کھیل اور تماشے بہت ہوگئے اب عدلیہ کو چاہئے کہ ساری کہانی کھول دے۔ کس نے کتنے سرکاری حج کئے، کتنے دوروں کے ٹکٹ سرکار نے دیئے اور خرچ کیلئے کتنے ہزار ڈالر دیئے گئے۔ کون حکومتی نوکریاں بھی کر رہا ہے اور غیرجانبدار صحافی ہونے کے دعوے بھی۔ کس کو کتنے پلاٹ عطا ہوئے اور کتنے جھوٹے Affidavit داخل کر کے لئے گئے۔ عوام کس کی بات پڑھیں سنیں اور مانیں۔ ایک دفعہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جانا ضروری ہے مگر مجھے ڈر ہے ہوگا نہیں۔
تازہ ترین