• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں یو ایس ایڈ کے معاشی گروتھ کے سربراہ جیفری منوٹ نے حال ہی میں کراچی میں علاقائی تجارت بالخصوص افغانستان، انڈیا، سافٹا، سینٹرل ایشیائی ممالک ، چائنا اور امریکہ کے مابین ٹریڈ کو درپیش چیلنجز، اس کے فروغ اور یو ایس ایڈ کے تعاون پر ایک مختصر فوکل گروپ پر مشتمل راؤنڈ ٹیبل ڈسکشن رکھا تھا جس میں میرے علاوہ امریکی سفارتخانے کی پولیٹیکل اینڈ اکنامک آفیسر مائرہ الواڈو ، پاکستان میں یو ایس ایڈ پروجیکٹ کی انچارج مریم ریاض، وزارت تجارت کے سیکرٹری جاوید منصور، پاکستان افغانستان جوائنٹ چیمبر کی سیکرٹری جنرل فائزہ ناصر، مجید عزیز، Agility کے معین ملک اور خطے کی تجارت سے منسلک ٹرانسپورٹ، انشورنس، کارگو کے شعبوں سے تعلق رکھنے والی چند اہم شخصیات نے شرکت کی۔ امریکہ نے پاکستان کو امداد دینے کے طریقہ کار میں واضح تبدیلی کی ہے۔ پہلے یہ امداد گورنمنٹ کو دی جاتی تھی لیکن اب امریکہ یو ایس ایڈ کے ذریعے یہ امداد پاکستان میں مختلف پروجیکٹس میں براہ راست کررہا ہے اور میڈیا میں ان پروجیکٹس کی تشہیر سے لوگوں کو اس کی آگاہی ہو رہی ہے۔ یو ایس ایڈ نے پاکستان کی علاقائی تجارت کے فروغ کیلئے اہم اسٹیڈیز کرائی ہیں جن کی سفارشات عملدرآمد کیلئے ہماری وزارت تجارت کو بھیجی گئی ہیں۔ راؤنڈ ٹیبل کے شرکاء نے یو ایس ایڈ کو مشورہ دیا کہ یہ سفارشات فیڈریشن، چیمبرز اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز سے بھی شیئر کی جائیں تاکہ سفارشات صرف فائلوں کی نذر ہونے کے بجائے پرائیویٹ سیکٹر ان پر عملدرآمد بھی کرا سکے۔ مذاکرات میں پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو زیادہ فوکس کیا گیا جس کی تفصیلات بیان کرنے سے پہلے میں چاہوں گا کہ اپنے قارئین کو پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے پس منظر سے آگاہ کروں۔
افغانستان میں کوئی بندرگاہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ زمینی راستے سے اپنی تمام امپورٹ ایکسپورٹ کرتا ہے جس میں زیادہ تر ٹریڈ پاکستان کے راستے کی جاتی ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت پاکستان نے 1996ء میں افغانستان کے ساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ(ATTA) کا ایک معاہدہ کیا۔ معاہدے کے تحت پاکستان نے افغانستان کو دو سرحدی راستوں پشاور تورخم اور چمن اسپن بالدک کے راستے ٹرانزٹ ٹریڈ کی اجازت دی جس کے تحت17 مصنوعات کے علاوہ تمام مصنوعات کو بغیر کسٹم ڈیوٹی، رعایتی پورٹ اور ٹرانزٹ چارجز پر امپورٹ کی اجازت دی جس سے پاکستان کی معیشت پر اچھا اثر پڑا اور پاکستان میں مقامی طور پر تیار کئے جانے والے ٹیلیویژن کی افغانستان ایکسپورٹس سالانہ72000 یونٹ سے بڑھ کر 2002ء میں 2,88000 یونٹ سالانہ ہوگئی جس کو دیکھتے ہوئے حکومت نے2005ء میں منفی لسٹ کو صرف 3 ممنوع اشیاء تک محدود کردیا جس میں تمباکو، خوردنی تیل اور گاڑیوں کے اسپیئر پارٹس شامل ہیں لیکن اس سہولت کا ناجائز فائدہ اٹھایا گیا اور چائے ، اسٹیل، آئرن اور غیر ملکی فیبرک کی مصنوعات کی امپورٹ میں 40% تک اضافہ ہوگیا اور پاکستان میں ان اشیاء پر زیادہ کسٹم ڈیوٹی ہونے کی وجہ سے انہیں افغانستان ایکسپورٹ کرنے کے نام پر دوبارہ پاکستان اسمگل کردیا جاتا تھا جس سے پاکستان کی مقامی صنعت اور قومی خزانے کو نقصان پہنچ رہا تھا۔ 2001ء میں پاکستان اور افغانستان کی باہمی تجارت صرف 170 ملین ڈالر تھی جو 2008ء میں بڑھ کر1.2/ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ اس طرح پاکستان 37.5% تجارت کے ساتھ افغانستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بن گیا۔ دوسرے نمبر پر یورپی یونین (15.9%)اور تیسرے نمبر پر امریکہ (12.5%)آتے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت میں بے شمار رکاوٹیں اور دشواریاں ہیں جس میں افغانستان کی سرحد پر کسٹم کی سست اور ناقص سہولتیں، کرپشن، کارگو کی اضافی انشورنس اور ٹرانسپورٹ کی لاگت، افغانستان ایکسپورٹ کرنے کے بعد کسٹم اور ٹرانزٹ ٹریڈ کیلئے جمع کرائی جانے والی انشورنس گارنٹیوں کی منسوخی میں انتہائی تاخیرقابل ذکر ہیں جنہیں دور کرنے سے پاکستان سے افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ممالک سے تجارت کے فروغ کا بے انتہا پوٹینشل موجود ہے۔ جون2011ء میں ہم TDAP کے چیف ایگزیکٹو اور فیڈریشن کے صدر سینیٹر حاجی غلام علی کے ساتھ پی آئی اے کی چارٹرڈ فلائٹ میں 100 پاکستانی بزنس مینوں کے ایک وفد کو تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے لے کر گئے تھے جہاں ہماری ملاقاتیں تاجکستان کے صدر، وزیراعظم، وزیر خارجہ ، وزیر تجارت سے ہوئیں۔ تاجکستان کے صدر کی ہمارے صدر کے ساتھ ذاتی تعلقات ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور تاجکستان کے مابین تجارت بڑھے جس کیلئے پاکستان نے دوشنبے میں نیشنل بینک کی برانچ قائم کی ہے۔ میں نے یو ایس ایڈ کو بتایا کہ چترال سے براستہ افغانستان، تاجکستان کی سرحد وخان (Wakhan) صرف 36 کلومیٹر دور ہے اور اگر یو ایس ایڈ پاکستان، افغانستان اور تاجکستان کے سہ فریقی معاہدے کے تحت یہ روڈ نیٹ ورک بنا دے تو پاکستان سے تاجکستان اور دیگر وسط ایشیائی ممالک چند گھنٹوں میں پہنچا جاسکتا ہے جو علاقائی تجارت کے فروغ میں نہایت سود مند ثابت ہوگا۔ میری ایک اطلاع کے مطابق امریکہ کی ڈپارٹمنٹل اسٹورز کی سب سے بڑی چین Wallmart وسط ایشیائی ممالک میں 500/اسٹورز کھولنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ گوادر پورٹ کی بحالی کے بعد گوادر ویئر ہاؤسنگ ٹریڈ کیلئے ایک آئیڈیل مقام ثابت ہوگا۔
پاکستان کی امریکہ کو ایکسپورٹ بڑھانے کے موضوع پر میں نے یو ایس ایڈ کے نمائندوں کو بتایا کہ چند سال پہلے جب میں پاکستان کے ممتاز ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کے ایک وفد کو امریکہ لے کر گیا تھا تو امریکی ٹریڈ نمائندگانUSTRکے انچارج مائیکل ڈینلے اور گیلز اسٹرکلر نے ہمارے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کی امریکہ کے 100 ممتاز برانڈز اور اسٹورز کے نمائندوں سے جیوت سینٹر میں ون ٹو ون ملاقات کرائی تھی جس سے ہمارے ایکسپورٹرز کو ان بڑے خریداروں تک براہ راست رسائی کا موقع ملا۔ میں چاہوں گا کہ یو ایس ایڈ، USTR کے ساتھ مل کر دوبارہ ہمارے ایکسپورٹرز کو ٹیکسٹائل کے بڑے امریکی خریداروں سے بی ٹو بی میٹنگز کرائے۔ میں نے یو ایس ایڈ کے معاشی گروتھ کے سربراہ جیفری منوٹ کو بتایا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا مرکزی اتحادی ہے جس کے باعث امن و امان کی ناقص صورتحال کی وجہ سے بیرونی خریدار پاکستان نہیں آرہے، جس کی وجہ سے پاکستان کی ٹریڈ پالیسی میں ہمارے ایکسپورٹرز کو بیرون ملک اپنے مارکیٹنگ دفاتر کھولنے پر 3 ملازمین اور آفس کے کرائے پر 50% سبسڈی دینے کا اعلان کیا گیا تھا جس کے تحت ہمارے ایکسپورٹرز نے اہم بیرونی منڈیوں میں اپنے مارکیٹنگ دفاتر کھولے لیکن مالی مشکلات کے باعث حکومت اب یہ اسکیم جاری نہیں رکھ پا رہی اور ہمارے ایکسپورٹرز ان دفاتر کو بند کرنے پر مجبور ہیں۔ یو ایس ایڈ اپنے پاکستانی ایکسپورٹس کے فروغ کے پروگرام کے تحت ان کی مدد کر سکتی ہے۔ آدھے دن جاری رہنے والے اس راؤنڈ ٹیبل ڈسکشن میں علاقائی تجارت کے فروغ میں حائل رکاوٹوں اور درپیش چیلنجز کو دور کرنے کیلئے یو ایس ایڈ کو نہایت مفید سفارشات دی گئیں تاکہ یو ایس ایڈ اپنے پاکستانی ٹریڈ پروجیکٹ (PTP) کا مالی و تیکنیکی تعاون جو جون 2013ء میں ختم ہورہا ہے کو مستقبل میں جاری رکھنے کیلئے ترجیحی شعبوں میں تعاون کیلئے اپنے نئے پروگرام تشکیل دے سکے۔
تازہ ترین