• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

راجن پور میں جنگلات کی زمین پر با اثر افراد کی غیر قانونی کاشتکاری

اسلام آباد (انصار عباسی) ایک کیس ایسا بھی سامنے آیا ہے جس میں راجن پور میں با اثر افراد جنگلات کی 800؍ ایکڑ (6400؍ کنال) زمین غیر قانونی طور پر گندم اور تمباکو کی کاشت کیلئے استعمال کر رہے ہیں جبکہ علاقے کے سرکاری عہدیدار اس جرم پر آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔

باخبر ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ طرز حکمرانی کی افسوس ناک حالت یہ ہے کہ کسی کو یہ خلاف ورزی روکنے کی توفیق ہوئی اور نہ ہی کسی نے خلاف ورزی میں ملوث افراد کیخلاف کوئی کارروائی کی تاوقتیکہ ایک مقامی شخص نے لاہور میں محکمہ جنگلات سے رجوع کرکے شکایت درج کرائی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ صرف محکمہ جنگلات کے حکام نے با اثر لوگوں کے ساتھ ملی بھگت کرکے یہ جرم کیا ہے ب لکہ اینٹی کرپشن محکمے کے حکام بھی اس معاملے میں ملوث ہیں۔ سرکاری تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ راجن پور میں رکھ خانوا میں 1827؍ ایکڑ زمین میں سے 882؍ ایکڑ دریا برد ہوگئی جبکہ 945؍ ایکڑ زمین اب بھی موجود ہے۔

950؍ ایکڑ میں سے 800؍ ایکڑ پر قبضہ کر لیا گیا ہے جس پر تمباکو اور گندم کاشت کی جا رہی ہے اور اس مقصد کیلئے کاشتکاری کا کام گزشتہ سال اکتوبر نومبر میں شروع کیا گیا تھا۔

جنگلات کی زمین پر قبضہ کرنے والوں نے آبپاشی کیلئے 30؍ بور اور پیٹر انجن نصب کر رکھے ہیں۔ لیکن اس جرم میں ملوث افراد کیخلاف کوئی کارروائی کی گئی ہے اور نہ ہی محکمہ جنگلات کو کسی نے اس معاملے پر شکایت کی ہے۔ جس وقت ایک جونیئر فاریسٹ افسر نے اعتراف کیا ہے کہ یہ معاملہ حکام بالا تک نہیں پہنچایا گیا، اس وقت کے ریجنل فاریسٹ افسر نے بھی اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے متعلقہ حکام سے رکھ خانوان بیٹ میں محکمہ جنگلات کی زمین پر غیر قانونی طور پر گندم اور تمباکو اگائے جانے کے معاملے پر وضاحت طلب نہیں کی۔

علاقے میں ڈسٹرکٹ فاریسٹ افسر (ڈی ایف او) نے کہا ہے کہ انکوائری میں ریجنل فاریسٹ افسر نے غلط حقائق پیش کیے اور جنگلات کی وسیع زمین پر غیر قانونی کاشت کاری کے حوالے سے بات چھپائی۔ انکوائری رپورٹ میں اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ غیر قانونی طور پر کاشت کاری کی گئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1824؍ ایکڑ زمین 1958ء میں محکمہ جنگلات کو دی گئی تھی۔ اس زمین پر پہلے بھی قبضہ ہوا تھا جسے 2015ء میں واگزار کرایا گیا لیکن لینڈ مافیا جنگلات کی زمین پر غیر قانونی طور پر کاشت کاری میں کامیاب ہوگئی اس کی وجہ محکمہ جنگلات کے مقامی افراد کی ملی بھگت ہے۔

انکوائری رپورٹ میں سفارش کی گئی تھی کہ اس واقعے میں ملوث سرکاری ملازمین کیخلاف کارروائی کی جائے اور ساتھ ہی ڈی ایف او راجن پور اور فاریسٹ کنزرویٹر ڈی جی خان کو پابند کیا جائے کہ غیر قانونی طور پر اگائی گئی فصلیں ضبط کرکے انہیں نیلام کریں اور ساتھ ہی غیر قانونی طور پر کاشت کاری میں ملوث افراد کیخلاف کارروائی کی جائے۔

اس کے علاوہ یہ سفارش بھی کی گئی تھی کہ علاقے میں جنگلات کی بحالی کیلئے ڈی ایف او راجن پور کو ضروری فنڈز فراہم کیے جائیں تاکہ جس زمین پر قبضہ ہوا ہے اس پر دوبارہ جنگلات اگائے جا سکیں تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔

تازہ ترین