• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مائیکل کریپن نے نیویارک ٹائمز میں ”برصغیر میں ایٹمی دوڑ“ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے جس میں انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی دوڑ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اگر خرگوش کی چال چل کر ایٹمی اسلحہ بنا رہا ہے تو بھارت کچھوے کی رفتار سے چل رہا ہے مگر ساتھ ساتھ اس کی پشت پر اُس کی معیشت کھڑی ہے جو پاکستان کی معیشت سے کئی گنا زیادہ ہے۔ نتیجتاً بھارت کو ہی اس دوڑ میں آگے نکل کر آنا ہے جبکہ پاکستان کے وارہیڈ تقریباً سو کے قریب پہنچ چکے ہیں تو بھارت اس سے بہت پیچھے نہیں ہے، جو جلد پاکستان کو آلے گا اور آگے بڑھ جائے گا۔ مائیکل کریپن سے میری ملاقات مارچ 1997ء میں کراچی میں ہوئی تھی وہ اس وقت ایک تھنک ٹینک کے سربراہ تھے اور بعد میں ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے ڈائریکٹر بن کر بھارت اور پاکستان کے دورے کرتے رہے۔ بظاہر مقصد یہ تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان عوامی رابطہ اس طرح بڑھایا جائے کہ ایٹمی جنگ نہ ہو۔ ملاقات کے دوران انہوں نے یہ الزام لگایا تھا کہ پاکستان نے امریکہ سے دھوکہ کیا کہ سوویت یونین اور افغان جنگ کے تناظر میں وہ ایٹمی طاقت بن بیٹھا، جو وعدہ خلافی تھی۔ اگر دوسرے زاویئے سے دیکھا جائے تو امریکہ واحد سپر طاقت بن گیا تو پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا اس لئے پاکستان امریکہ کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتا۔
ہمیں لگتا ہے کہ میرے یکم اپریل 2013ء کے مضمون ”ایٹمی اثاثہ جات۔ ردعمل8 سیکنڈ میں“ کے پس منظر میں یہ مضمون لکھا گیا ہے اور اِس مضمون میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو کمزور معیشت پر کھڑا ہوا دکھایا گیا ہے جبکہ بھارت کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں لکھا ہے کہ اُسے مضبوط معیشت کی پشت پناہی حاصل ہے جس کی وجہ سے پاکستان عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے تاہم اُن کے نزدیک پاکستان کے ایٹمی اثاثہ جات قومی ہیرے ہیں اور اُن کی تعداد میں اس وقت تیزی سے اضافہ شروع ہوا جب جارج بش نے بھارت کے ساتھ سول ایٹمی معاہدہ کر لیا۔ یہ درست ہو سکتا ہے مگر پاکستان اپنی سلامتی کیلئے جو کچھ کرسکتا ہے اُس کو حق حاصل ہے، اب شمالی کوریا جیسے ملک نے امریکہ پر حملہ کرنے کے اجازت نامہ پر دستخط کردیئے ہیں، گو پاکستان نے ذمہ داری کا ثبوت دیا مگر امریکہ کسی طور پاکستان کو ایٹمی طاقت ماننے کو تیار نہیں ہے مگر امر واقعہ یہ ہے کہ ہم ایٹمی طاقت ہیں اور اپنی اِس صلاحیت کو بڑھاتے رہیں گے اور ساتھ غیرمتحرک جنگ یا موسمی تغیراتی جنگ میں بھی پیشرفت کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ مائیکل کریپن کو آج بھی اور اس سے پہلے 1997ء میں بھی یہ اعتراض تھا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ملٹری کے پاس ہے جبکہ بھارت کی ملٹری کی ضرورتوں تک کو انڈین سول حکمران ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتے ہیں۔ 1997ء میں نہ صرف مائیکل کریپن بلکہ پیٹر لیوائے بھی اسی قسم کی لن ترانی کرنے کراچی آئے تھے اور اُن سے بھی ملاقات ہوئی تھی اور یہ دونوں حضرات پاکستان کو ایٹمی دھماکا نہ کرنے اور چین سے پاکستان کو دور کرنے کی کوشش پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ روکنے کے جلو میں کرتے رہے۔ اب ایک اور امریکی ولیم مائلن نے نیویارک ٹائمز میں لکھا ہے کہ پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں مگر وہ ملک مسلکی خونریزی میں الجھا ہوا ہے اور بہت طاقتور ملٹری کا حامل ملک ہے اور جس کے سول ادارے کام کرنے سے معذور ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں ایک جمہوری حکومت نے پہلی مرتبہ اپنا پانچ سالہ دور مکمل کرلیا ہے مگر یہ کافی نہیں ہے کیونکہ ادارے تو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور ایک مشکلات سے گھری ریاست ہے اور اس کے غیرمستحکم ہونے کا گراف اوپر سے اوپر چڑھ رہا ہے۔ انہوں نے سرہلیری کا ذکر کیا ہے کہ اُن کے خیال کے مطابق پاکستان اپنی طاقت سے بڑھ کر گھونسا مارنے کی کوشش کرتا ہے اور اسی بات نے سویلین کو ملٹری کے لوگوں سے کمتر بنا کر رکھا ہوا ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان بھارت کے خلاف خفیہ جنگ لڑتا رہا ہے۔ مائیکل کریپن اور ولیم مائلن نے پاکستان کے خلاف وہی الزامات دہرائے ہیں جو بھارت1947ء سے پاکستان پر لگاتا رہا ہے اور وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان امریکہ کے خلاف بھی خفیہ جنگ لڑتا رہا ہے مگر امریکہ جو کچھ بھی پاکستان میں کرتا رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ پہلے ہم بھارت کے بارے میں کہتے تھے کہ اس نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا اور اُس کو توڑنا چاہتا ہے اور اب امریکہ اس دوڑ میں شامل ہوگیا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو تسلیم نہ کرکے پاکستان کے خلاف جنگ کی ابتدا کر چکا ہے۔ اس پر ایک امریکی دانشور رون پال نے لکھا ہے کہ کیا ہم امریکی پاکستان کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں؟ ہم اس کی تائید کرتے ہیں کہ ایسا ہی ہے پاکستان کے خلاف نہ صرف بھارت بلکہ پورا مغرب برسرپیکار ہے اور کسی نہ کسی صورت سے اس کے خلاف نبردآزما ہے۔ خفیہ سازشیں کررہا ہے اور یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ امریکی دانشوروں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ پاکستان نے امریکہ اور مغرب کی تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کو افغانستان میں ناکام بنا دیا۔ پاکستانی ایجنسی نے افغان طالبان کے قریب بھی مغرب کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو پھٹکنے نہیں دیا۔
اس گفتگو سے قطع نظر امریکہ اور مغرب کا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں منفی رویہ رہا ہے جو دُنیا کے استحکام کیلئے خطرہ ہے۔ ہر دوسرے دن وہ پاکستان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور بھارت کو مضبوط کرنے کے لئے اور مراعات، اعلیٰ ٹیکنالوجی تک رسائی دے دیتے ہیں۔ ایک تو یہ درست نہیں ہے کہ پاکستان عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ یہ عدم استحکام کی کوشش امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف سے کی گئی۔ سابق امریکی سفیر ریان سی کروکر کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کے افغانستان سے نکلتے ہی پاکستان مستحکم ہوجائے گا اُس کی معاشی حالت بہتر ہوجائے گی اور ہم خود سمجھتے ہیں کہ امریکہ کے پیدا کردہ یہ حالات اُس کی افغانستان سے واپسی کے ساتھ ختم ہوجائیں گے۔ اس نے جن لوگوں کی فنڈنگ کی ہے وہ رک جائے گی، دہشت گردی سوکھ جائے گی۔ مائیکل کریپن کے جواب میں ہم یہی کہیں گے کہ پاکستان ایٹمی قوت ہے بلکہ وہ ایک مضبوط ایٹمی طاقت ہے اور اُسے اپنی سلامتی اور تحفظ کے لئے ہر قدم اٹھانے کا حق حاصل ہے۔ اُس کی معیشت بھی بہتر ہوجائے گی اور اُس کے ادارے بھی اپنے جوہر دکھانے لگیں گے اور وہ عدم استحکام کا بھی شکار نہیں ہوگا۔ ہم اُن سے یہی کہیں گے ”ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں“۔
تازہ ترین