• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبردادخان
معتبر انگریزی اخبارات میں بیشتر کووڈ 19حوالہ سے چانسلر رشی سونیک ایم پی کو بلند مقام پر بھٹائے ہوئے ہیں کیونکہ انہوں نے اس بیماری کے اردگرد معاملات پر عوامی دولت اس طرح لٹائی ہے جیسے کہ جو کچھ کرنا ہے آج ہی کرلو، علم نہیں اگلی صبح ہو کہ نہ ہو؟ یہ جان لیوا بیماری برطانیہ میں پنتالیس ہزار لوگوں کی جان لے چکی ہے۔ شمالی برطانیہ کے کئی بڑے شہروں میں آباد لوگوں میں ’’اور کرائوڈنگ‘‘ اور غریب طبقات کی اکثریت کی وجہ سے شرح اموات ان علاقوں کی نسبت کہیں زیادہ موجود پائی جارہی ہے جہاں رہنے والوں کا معیار زندگی بلند ہے اور جہاں غربت کے آثار کم ہیں۔ وہاں لوگوں میں ورزش کے رحجانات بھی زیادہ ہوتے ہیں لہذا لوگ کئی گنا زیادہ صحتمند پائے جاتے ہیں۔ یہ تضاد ملک بھر کے تمام حصوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ چانسلر کے حالیہ مالی بیان کے بعد اخراجات کے ضمن میں 398 بلین پوند کے اعلانات ہوچکے ہیں اور اس خطیر رقیم کا بیشتر حصہ جن سیکٹرز کیلئے مخصوص کیا گیا تھا۔ ان سیکٹرز کو مل چکا ہے اور مل رہا ہے۔ ہوائی جہازوں کی کمپنیاں ہوں، ملٹی نیشنل کارپوریشنز ہوں، بس اور ریل کے فرنچائزز ہوں یا سیلف ایمپلائیڈ کا ہجوم ہو یہ تمام چانسلر کے ان اقدامات سے اچھی طرح مستفید ہوئے ہیں۔ جلدی میں کئے گئے ان اقدامات میں سے کئی غلط طریقہ سے استعمال ہوئے جس سے یقیناً قومی خزانہ کو نقصان پہنچا۔ چانسلر جہاں کمپنی ملازمین (جنکے کاروبار بند کردیئے گئے تھے) کو مالی مدد دے رہے تھے کو ہدایت کرنی چاہئے تھی کہ جب تک لوگ یہ ریاستی مدد لے رہے ہیں انہیں کوئی دوسری ملازمت اختیار نہیں کرنی چاہئے۔ ایسا نہیں ہوا اور اس Loope Hole سے لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔ جن طبقات کو ان منصوبہ جات سے تحفظ فراہم کیا گیا ان میں سے اکثریت پہلے سے کنزرویٹو ووٹر ہیں اور ان پر جماعتی گرفت مضبوط طریقہ سے قائم رکھنا فلاحی کم اور سیاسی فیصلہ زیادہ تھا۔ اس حوالہ سے مزید مشکلات اکتوبر کے آغاز سے سر اٹھانا شروع کریں گی جب گھر بیٹھے بٹھائے پوری تنخواہ کی نرمی ختم ہوجائے گی اور کمپنیاں اور بڑے ادارے اپنے مالی معاملات درست کرنیکی طرف بڑھنا شروع کردیں گے۔ جسکے نتیجہے میں بے روزگاری میں اضافہ کا اندیشہ ہے۔ کووڈ 19 نے ہماری پاکستانی اور بنگلہ دیشی کمیونتیز کو بالخصوص اور ایشیائی آبادی کو بالعموم متاثر کیا ہے۔ وجوہات ڈھکی چھپی نہیں ہیں سرکاری اعدادوشمار میں ان کمیونتیز کے نفسیاتی اور جانی نقصانات کو تسلیم کیا گیا ہے مگر معاملات میں بہتری لانے کیلئے اقدامات کا کہیں ذکر نہیں ہوا۔ دو ماہ قبل NHSکی ایک رپورٹ میں کل کووڈ 19اموات میں سے 34% کا تعلق ایشیائی اور ایفروکریبین لوگوں سے بتایا گیا ہے۔ اخبارات میں آنیوالے کئی جائزے بھی ایسی اموات کی بھاری اکثریت بنگلہ دیشی مسلمانوں کی بیان کرتے ہیں۔ ہر شہر میں جاننے والے کووڈ 19اموات کو کل اموات کا بڑا حصہ ہونیکا ذکر کرتےہیں۔ انرگیزی اخبارات لکھ نہیں رہے ہیں اور حکومت اس طرف توجہ نہیں دے رہی۔ ہر کسی پر خوف جو کبھی اس معاملہ پر زیادہ گفتگو سے پرہیز کرتے دیکھنے میں ملتا ہے اور کبھی اپنے کئی بھائی بندوں کی طرف سے کووڈ حوالہ سے ناقابل یقین تاویلات سننے کو ملتی ہیں۔ دونوں صورتوں میں یہ ایک غیر حقیقی صورتحال ہے۔ بات کرنے والے اور خاموشی اختیار کرنیوالے دونوں ہماری کمیونٹی کے ذمہ دار لوگ ہیں مگر وہ جو کچھ بھی کررہے ہیں یہ انکی نارمل روٹین نہیں ہے۔ یہ ایک مشکل صورتحال ہے اس سے جتنا جلدی ہوسکے ہمارے لوگ باہر آنے چاہیں۔ لوگ بتاتے ہیں ڈاکٹر توجہ ہی نہیں دیتے اور نہ ہی ہمارے بہن بھائی غیر ضروری طور پر لوگوں سے الجھنا چاہتے ہیں کیونکہ ہم سے کوئی بھی ڈاکٹر کو ناراض نہیں کرنا چاہتا اور بسااوقات اس صورتحال کے متاثرین کو خود علم نہیں ہوتا کہ انکا طرز عمل ایسا نہیں ہے جو کووڈ 19سے پہلے تھا۔ کمیونٹیز کو یہ پریشان کن صورتحال اپنے درمیان زیر بحث لانے کی ضرورت ہے تاکہ بات شہر کے ڈاکٹروں اور دیگر NHS معالجین کی توجہ میں آسکے۔ روزنامہ جنگ لندن اور جیو کو کووڈ آگاہی کیلئے اشتہارات ملتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں سے اٹھنے والی آوازیں حکومتی اداروں تک پہنچتی ہیں۔ ہمارے ان دو اداروں کو بھی یہ صورتحال حکومت پر واضح کرنیکی ضرورت ہے۔ اکثر کووڈ اموات جلدی میں ہوجاتی ہیں متعلقہ خاندانوں، دوست احباب اور کمیونٹی کو اس طرح رحلت کر جانے والوں کو عزت و احترام سے سپردخاک کرنے کے مواقع نہیں مل پا رہے۔ لوگوں کو مل بیٹھنے کی بھی اجازت نہیں اسطرح (احتیاطی تدابیر کی وجہ سے) لوگ اپنے دکھ درد بانٹ نہیں پا رہے۔ بیشتر لوگ اپنے غموں کی لپیٹ میں زندگی گزار رہے ہیں اور اس ہمہ گیر نفسیاتی کیفیت کی کمیونٹی کے درمیان موجودگی ماہرین صحت کیلئے تشویش کا سبب ہونی چاہئے جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ پہلے قدم کے طور پر ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ جی پیز کو چھ دن کھولنے کیلئے کہے اور ہر سرجری ایک دن ’’کووڈ 19‘‘ اثرات سے نمٹنے کیلئے مختص کردے اور تمام کیمسٹس کو بھی چھ دن کھلا رہنے کا پابند کیا جائے۔ ’’کووڈ متاثرین‘‘ خاندان بھی چانسلر کی توجہ کے اسی طرح مستحق ہیں جس طرح انہوں نے روزگار کے معاملات میں کمزور اور عام طور پر نہ دیکھے جانے والوں کو تحفظ فراہم کیا۔ کووڈ 19 سیناریو میں متاثرہ خاندانوں کیلئے جنکے ذریعہ لوگوں کو اپنے رنج و غم پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے ایسے اقدامات دیکھنے کو نہیں مل رہے جسکی وجہ سے لوگوں کی ذہنی اور جسمانی صحت متاثر ہورہی ہیں اور بہتوں کی رائے میں اگر بروقت اقدامات نہ اٹھائے گئے اور لوگوں کے جانی نقصانات کے اثرات سے نہ نمٹا گیا تو یہ صورتحال NHS کیلئے آنیوالے وقتوں میں ایک چیلنج کی صورت اختیار کرلے گی۔ ایشیائی اور کریبین ایسے خاندانوں کیلئے جو ’’کووڈ متاثرہ‘‘ ہونے کی تعریف میں آتے ہیں کیلئے ’’ہالیڈے ووچرز‘‘ کا اجراء ایک ضروری قدم ہے جس سے مستفید ہوکر لوگ اپنے آپ کو Regroupکرنے میں کامیاب ہوکر ایک بار پھر Normality کا حصہ بن کر فعال معاشرہ کا حصہ بن سکتے ہیں۔ ووچر کی حد آٹھ سو پونڈ فی خاندان ہو اور یہ پابندی ہو کہ یہ رقم برطانیہ ہی میں خرچ کی جائے۔ یہ ایک مثبت معاشرتی حکومتی قدم ہوگا جس کی انتہائی ضرورت ہے۔ مولائے قدوس تمام متاثرہ خاندانوں کو صبر اور ذہنی سکون کی نعمتوں سے نوازے۔
تازہ ترین