• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
غاروں کے مکین برہنہ انسان کو لباس کی منزل تک پہنچنے میں صدیاں لگی تھیں۔ برہنگی کو چھپانے کیلئے اس نے کیا کیا جتن نہ کئے؟ کیا کیا پاپڑ نہ بیلے؟ کبھی پتوں کا سہارا لیا تو کبھی بالوں کا۔ کبھی جانوروں کی کھال سے کام چلایا تو کبھی درختوں کی چھال سے ستر پوشی کی کوشش کی مگر جب وہ ترقی کی سب منازل طے کر چکا اور بڑھیا سے بڑھیا پوشاک اس کی دسترس میں آگئی، تو جانے کس جبلت کی تسکین کے لئے وہ پھر سے برہنگی کی طرف لوٹ جانے کے بہانے ڈھونڈھنے لگا راقم فروری کے مہینے میں ویانا میں تھا۔ ایک اشتہار متعددبار نظر سے گزرا، ایک مقامی آرٹ گیلری برہنہ تصویری نمائش کا اہتمام کر رہی تھی، جو اس سوسائٹی میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اس سوسائٹی پر ہی کیا موقوف، بدقسمتی سے اب تو یہ خرافات ہمارے ہاں کی نام نہاد اشرافیہ تک آن پہنچی ہیں، خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا، ویانا کی نمائش کے مدعوین کیلئے لازم تھا کہ وہ بھی لباس فطرت میں ہی آئیں۔ یہ اشتہار راقم کو چھ برس پیچھے لے گیا۔
مئی 2007 کے پہلے ہفتے میکسیکو سٹی میں آبادی سے متعلق ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ آرگنائزر کے حسن انتخاب کی داد دینا پڑتی ہے کہ آبادی کے موضوع پر کانفرنس کیلئے انہوں نے دنیا کے سب سے بڑے اور گنجان آباد ترین شہر کا انتخاب کیا تھا۔ ایک اور دانائی کی کہ کانفرنس اسی ہوٹل میں رکھی جہاں مندوبین کو ٹھہرایا گیا تھا۔ افتتاحی تقریب کی استقبالیہ تقریر میں منتظمین نے اس کی وجہ بھی بیان کردی، کہ ”میکسیکو سٹی انسانوں کا جنگل ہے اس کی وسعتوں میں گم ہونے والے بالعموم تیسرے دن ٹھکانے پر پہنچتے ہیں اور ہماری توکانفرنس ہی دو روزہ ہے، لہٰذا ہم مندوبین کے کھونے کا رسک نہیں لے سکتے تھے۔“ حسب معمول مشینی انداز میں کانفرنس کے سیشن چلتے رہے،تقریریں ہوتی رہیں اورسفارشات مرتب ہوتی رہیں،سب سے عمدہ تقریر چینی مندوب کی تھی،جس نے کہا کہ ”اتنے پیدا کیوں کرتے ہو، جنھیں سنبھال نہیں سکتے۔ اگر ہمارے بڑے دانائی سے کام نہ لیتے تو نہ جانے آج ہمارا کیا حشر ہوتا،لوگ ہمیں کثیر آبادی والی قوم کہتے ہیں،ہم کچھ زیادہ تو نہیں،میکسیکو سٹی جیسے پچاس شہروں کے برابر ہی تو ہیں۔“دانش اور طنز کا یہ خوبصورت امتزاج مندوبین کو بھلا لگا۔ راقم کے ساتھ گپ شپ میں چینی مندوب نے ایک بات اور کہی تھی کہ ”پاپولیشن مینجمنٹ کے حوالے سے آپ لوگوں کی غفلت کو ہمارے ماہرین حیرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔کہ آخر پاکستان کے عزائم ہیں کیا؟ تعجب ہے کہ اس حوالے سے اہداف واضح ہیں اور نہ پالیسی۔“
ہمارا قیام زونا روز نامی ہوٹل میں تھا۔شہر کے مرکزی چوک زوکیلو میں واقع ایک واجبی سا ٹورسٹ ہوٹل،جس میں فور/ فائیو اسٹار والی کوئی بات نہیں تھی۔ اس حوالے سے چند مندوبین نے منیجر سے شکایت کی تو جواباً موصوف نے ایک عجیب پیشکش کردی کہ وہ ہم سب کو اسی کرائے میں شہر کے بہترین فائیو اسٹار ہوٹل میں رہائش دلانے پر آمادہ ہے۔کانفرنس میں شرکت کیلئے مندوبین کی آمد و رفت کی ذمہ د اری بھی ہوٹل انتظامیہ کی ہوگی۔ بظاہر یہ پیشکش ناقابل یقین تھی،لیکن مینجر صاحب تو فوری ایکشن کیلئے تیار کھڑے تھے،کہ ہم لوگ ہاں کریں اور وہ ہمیں مع سامان ایک بڑھیا ہوٹل میں منتقل کردیں۔
معاملہ کی ٹوہ لگائی تو پتہ چلا کہ اگلی شام یعنی 5 مئی 2007 کو ہوٹل سے متصل چوک میں ایک طرفہ تماشہ ہونے والا تھا جس کی وجہ سے اس زون میں واقع ہوٹلوں کی اہمیت بے حد بڑھ گئی تھی۔ رہائشی کمرے تو رہے ایک طرف وہاں تو گیلری میں کرسی بچھانے کے دام بھی چھوٹے موٹے کمرے سے کم نہیں تھے۔ 6 مئی کو ہم کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے باہر نکلے تو پورے علاقے میں جشن کا سماں تھا۔ چوک میں بیسیوں بینڈ باجے موجودتھے اور سڑک پر چونے کی لائینں کھینچی جا رہی تھیں۔ ہوٹل کے گیلری کرسیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی جہاں سے چوک میں ہونے والی ساری کارروائی آسانی سے دیکھی جا سکتی تھی۔ہوٹل کے ریسیپشن پر رنگ برنگے پمفلٹوں کے ڈھیر لگے تھے ایک ہم نے بھی اٹھا لیا اور کمرے میں آگئے۔مذکورہ پمفلٹ سامنے والے چوک میں اس شام ہونے والے فنکشن کے بارے میں تھا۔ فنکشن کیا تھا انسانی گوشت کی نمائش لگنے والی تھی اس کا کرتا دھرتا اسپنسر ٹیونک نامی ایک ادھیڑ عمر امریکی تھا۔پیشے کے اعتبار سے فوٹوگرافر مسٹر ٹیونک کا شعبہ تخصیص بے لباس تصاویر تھیں جب اس سے جی بھر گیا تو زندہ انسانی گوشت کے شو منعقد کرنا شروع کردیئے۔
جن میں شرکت کرنے والے مرد و خواتین کی تعداد بتدریج بڑھتی گئی پچاس ننگے انسانوں کا پہلا شو جولائی 1999 میں لندن کی ایک نواحی بستی میں ہوا جب کہ جون 2003 میں بارسلونا میں ہونے والے اس نوعیت کے شو میں شریک ہونے والوں کی تعداد سات ہزارتھی۔ آج شام ٹیونک میکسیکو سٹی کے اس چوک میں اپنا ہی پچھلا ریکارڈ توڑنے آیا تھا۔ اس بار اس نے اٹھارہ ہزار انسانوں کو جمع کیا تھا۔ ہر عمر، جنس اور طبقے کے مادر زاد برہنہ جسم جو شب بھر موصوف کے اشاروں پر ناچتے رہے۔ جدید ایتھلیٹکس سے لیکر کتھک ڈانس تک کا کوئی سیٹ ایسا نہیں تھا جس پر ان سے پرفارم نہ کرایا گیا ہو۔ فوجی مارچ اور جھنڈے کو سلامی اس پر مستزاد تھی۔ فوٹو شوٹ کے تکنیکی زاویوں کو اجاگر کرنے کے لئے موصوف نے دو کرینوں کا بھی بندوبست کر رکھا تھا۔ شب بھر یہ تماشہ چلتا رہا، جو صبح سے ذرا پہلے بینڈ کی دھنوں پر ایک ترانہ نما گیت کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔ آخر میں ٹیونک کو خطاب کی دعوت دی گئی، اس کی اٹھارہ ہزاری سپاہ اسٹینڈ ایٹ ایز ہو گئی۔ اس نے کہا ”مجھے خوشی ہے کہ آج ہم بارسلونا کو بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں اور ہمارے دوستوں کی تاحد نگاہ انسانی گوشت دیکھنے کی خواہش پوری ہوگئی۔ مجھے اپنے نقادوں کی افتاد طبع پر افسوس ہے مگر ان کی سنتا کون ہے؟ نہ جانے وہ کس دنیا میں رہتے ہیں؟ میں کوئی غلط کام تو نہیں کررہا۔ انسانی وجود کو celebrate کرنے کی رسم ڈالی ہے۔ آپ کو ناپسند ہے تو اس میں حصہ نہ لیں اور نہ ہی اسے دیکھنے آئیں“
ڈیلیگیٹس کیلئے ہوٹل انتظامیہ نے بالکونی میں خصوصی نشستوں کا اہتمام کیا تھا۔ مگر یہ سب دیکھنے کیلئے بڑے دل گردے کی ضرورت تھی۔ محض ایک جھلک سے ہی راقم کا تو ذہن ماؤف ہو گیا تھا اور متلی اور ابکائی شروع ہوگئی تھی اور باقی وقت اپنے کمرے میں لیٹا سوچتا رہا کہ مغرب کی ” ترقی“ کی یہ کونسی قسم ہے۔
تازہ ترین