• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنگلات اسکینڈل،الزام ٹڈی دل پر ڈالنے کی خبر بے بنیاد ہے، سرکاری ترجمان

کراچی (نیوز ڈیسک) حکومت کے میڈیا ایڈووکیسی اینڈ کمیونی کیشن شعبے کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد سلیم نے دی نیوز میں 14؍ جولائی 2020ء کو شائع ہونے والی خبر ’’10؍ ارب درخت اسکینڈل پر پردہ ڈالنے کیلئے ٹڈی دل پر الزام ڈال دیا گیا‘‘ کے جواب میں کہا ہے کہ بدقسمتی سے یہ خبر غلط معلومات کی بناء پر شایع کی گئی ہے اور بدنیتی پر مبنی یہ خبر باعث بدنامی ہے۔ وزارت ماحولیاتی تبدیلی اس غلط خبر کے حوالے سے کچھ حقائق پیش کرنا چاہتی ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ ٹڈی دل کے حملے کو دس ارب درخت سونامی پروجیکٹ (ٹی بی ٹی ٹی پی) کی پنجاب میں کارکردگی کے حوالے سے جوڑنا ایک الزام ہے۔ درست معلومات یہ ہیں کہ تباہ شدہ شجرکاری کیلئے ٹڈی دل کو مورود الزام ٹھہرانے کیلئے کوئی سرکاری مہم شروع نہیں کی گئی۔ ٹی بی ٹی ٹی پی کا پہلا سال گزشتہ ماہ جون میں مکمل ہوا اور پنجاب نے جنگلات اگانے کے حوالے سے اپنے اہداف صوبے بھر میں مکمل کیے اور اس ضمن میں 90؍ فیصد کام مکمل کیا گیا۔ صوبے نے رواں سال مجموعی طور پر 5؍ کروڑ 10؍ لاکھ درخت اگائے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ٹڈی دل کے حملے تین ماہ قبل پنجاب کے کچھ اضلاع میں شروع ہوئے تھے جن میں ملتان، مظفر گڑھ، لیہ، ڈیرہ غازی خان، بہاول پور، خانیوال، لودھراں، راجن پور وغیرہ شامل ہیں، یہ حملے بنیادی طور پر زرعی فصلوں پر ہوئے تھے۔ اگرچہ ٹڈی دل بلا امتیاز ہر طرح کے سبزے پر حملہ کرتی ہیں جن میں جنگلی فصلیں بھی شامل ہیں لیکن ان اضلاع میں جنگلات کا علاقہ نسبتاً چھوٹا ہے اور محکمہ جنگلات کی طرف سے ٹڈی دل کے حملے روکنے کیلئے زبردست رد عمل کا مظاہرہ کیا گیا۔ زمینی سطح پر تحقیقات کی گئیں اور حکومت پنجاب نے باضابطہ طور پر بتایا کہ جنگلات کو کم سے کم سطح پر نقصان ہوا ہے کیونکہ فاریسٹ گارڈز اور نگہبان (کیئر ٹیکرز) نے حملے کو ناکام بنایا۔ مذکورہ خبر میں کامیابی کے جس تناسب کو 20؍ سے 25؍ فیصد بتایا گیا ہے وہ غلط اور بدنیتی پر مبنی ہے۔ خیبر پختونخوا میں بھی اس پروجیکٹ کے حوالے سے ٹڈی دل کے حملے پر الزام ڈالنے کی خبریں محض الزامات ہیں اور ان کی تردید کی جاتی ہے۔ ڈی آئی خان، لکی مروت اور قبائلی ضلع خیبر میں 600؍ ہیکٹر کے جنگلات پر پہلے ٹڈی دل کا حملہ اپریل کے پہلے ہفتے میں ہوا تھا لیکن منظم کوششوں اور پاک فوج کے تعاون سے محکمہ زراعت اور مقامی کمیونٹی نے فاریسٹ ڈپارٹمنٹ کے ساتھ مل کر ٹڈی دل کے حملے کو ناکام بنایا۔ شجرکاری کے مقامات بہترین حالت میں ہیں، ان کی تصدیق اور مانیٹرنگ کا کام مانیٹرنگ یونٹس کر رہے ہیں۔ ریکارڈ کی درستی کیلئے یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ 2014ء تا 2018ء پی ٹی آئی نے بلین ٹری سونامی پروجیکٹ، جو کے پی صوبے میں شروع کیا گیا تھا، کی تھرڈ پارٹی ایولیوشن (جائزے) سے معلوم ہوا ہے کہ یہ انتہائی پر اثر منصوبہ تھا۔ ایک ارب درختوں کا ہدف تھا لیکن نتائج اس سے بڑھ کر سامنے آئے اور ایک ارب 20؍ کروڑ سے زائد درخت لگائے گئے وہ بھی تخمینے سے کم قیمت پر۔ پی سی ون میں پروجیکٹ میں اصل تخمینہ ایک ارب درخت کیلئے 22؍ ارب روپے تھا۔ تاہم، بعد میں جب پروجیکٹ نے اندازوں سے زیادہ کامیابی حاصل کی تو کمیونٹی پروٹیکشن اور معاونت سے جنگلات دوبارہ اگانے کی وجہ سے پروجیکٹ کے تخمینے پر نظرثانی کی گئی اور اسے کم کرکے 14؍ ارب روپے کر دیا گیا، جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ، بی ٹی ٹی پی پہلا سرکاری پروجیکٹ ہے جس میں کارکردگی کیلئے آڈٹ کا کام تھرڈ پارٹی سے کرایا گیا۔ اگرچہ مالیاتی آڈٹ بھی ہوتا ہے، کارکردگی کا آڈٹ عموماً نہیں کرایا جاتا؛ وہ بھی تھرڈ پارٹی سے۔ اس معاملے میں ورلڈ وائیڈ فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) نے تین پرفارمنس آڈٹ کیے جس میں کام کے ٹھوس ہونے کی تصدیق کی گئی اور ساتھ ہی نرسریوں کی افزائش، کامیابی کے تناسب کی تصدیق کی گئی جبکہ یہ بھی بات ثابت ہوئی کہ اگائے گئے جنگلات کا 80؍ فیصد سے زائد حصہ کامیاب رہا اور جو علاقے ہریالی اور جنگلات کے لحاظ سے منفی سطح پر تھے وہاں فی ہیکٹر 2412؍ پودے لگائے گئے۔ تینوں رپورٹس میں منصوبے کو کامیاب قرار دیا گیا۔ مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں، کہ بین الاقوامی اداروں جیسا کہ آئی یو سی این اور ایف اے او نے نہ صرف پروجیکٹ کی کامیابی کو تسلیم کیا ہے بلکہ ایف اے او نے کے پی میں تسلیم کیا کہ صوبے میں بی ٹی ٹی پی کے ذریعے جنگلات میں 20؍ سے 26؍ فیصد اضافہ ہوا۔ ورلڈ اکنامک فورم نے بھی پانچ ویڈیوز اس پروجیکٹ پر بنائی ہیں اور تعریف کی ہے۔ آخر میں، سپارکو نے سیٹلائٹ امیجری کے زریعے تصدیق کی ہے کہ پروجیکٹ کامیاب رہا۔ یہ تمام باتیں انتہائی مصدقہ ہیں جنہیں ناقابل قبول اور بد قسمت میڈیا رپورٹس سے بگاڑا نہیں جا سکتا۔ انہی حقائق کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ دی نیوز میں شائع ہونے والی خبر من گھڑت، بدنیتی پر مبنی اور حقائق سے میلوں دور ہے۔ اس حوالے سے انصار عباسی کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ وزارت ماحولیاتی تبدیلی نے خبر پڑھے بغیر ہی رد عمل ظاہر کیا ہے، میری خبر کی بنیاد وہ شکایات ہیں جو مختلف حکام کو کی گئیں تھیں جن کے بعد پنجاب حکومت نے اس معاملے پر پہلے ہی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ وزارت نے یہ رد عمل کیسے دیدیا حالانکہ اب تک پنجاب حکومت کی انکوائری باڈی نے اپنا کام شروع کیا ہے اور نہ ہی اپنی رپورٹ جمع کرائی ہے۔ دی نیوز نے شکایات کی نقول حاصل کی ہیں اور ساتھ ہی پنجاب حکومت کے جاری کردہ نوٹیفکیشنز بھی موجود ہیں جن کے تحت انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی، جسے بعد میں مختلف ممبران کے ناموں کے ساتھ دوبارہ تشکیل دیا گیا۔ اسی دوران پنجاب حکومت کے آزاد ذرائع نے وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے دس ارب درخت سونامی پروجیکٹ کی کامیابی کے دعووں کو چیلنج کیا ہے۔ ان ذرائع نے وزارت سے سوال کیا ہے کہ وہ کسی ایک سینٹرل زون لاہور کے بھکر ڈویژن میں ایک رینج مینجمنٹ فاریسٹ کا انتخاب کریں اور ماہرین کی آزاد ٹیموں سے نگرانی کرائیں اور بتائیں کہ شجرکاری کا کتنا ہدف مکمل کیا گیا ہے، یہ سائٹس پانچ ہزار ایکڑ پر مشتمل ہے ، اسے دیکھ کر بتایا جائے کہ مارچ تا مئی 2020ء میں اس پروجیکٹ زمین کے جتنے حصے پر پروجیکٹ ڈائریکٹر ٹین بلین ٹری سونامی پروجیکٹ یا محکمہ جنگلات کے انتظامی محکمے کو جمع کرائی گئی رپورٹ میں جو کامیابی ظاہر کی جا رہی ہے وہ کتنی ہے۔ جہاں تک مذکورہ بالا انکوائری کمیٹی تشکیل دیے جانے کی بات ہے تو وزارت ماحولیات نے اپنی تردید میں حقائق نظر انداز کر دیے ہیں۔ ذرائع نے سوال اٹھایا ہے کہ 10؍ جون 2020ء کو تشکیل دی گئی پہلی کمیٹی کو کیوں تحلیل کیا گیا اور ایسے جونیئر افسران پر مشتمل نئی کمیٹی کیوں تشکیل دی گئی جو فاریسٹ سینٹرل زون لاہور کے چیف کنزرویٹر کے ماتحت کام کر رہے ہیں، جن کے ماتحت مبینہ طور پر یہ سب غلط کام ہو رہا ہے۔ ذرائع کا اصرار ہے کہ نہ صرف شفاف انکوائری سے یہ بات طے ہو جائے گی کہ معیار اور رقبے کے لحاظ سے پانچ ہزار ایکڑ پر مطلوبہ ہدف پورا نہیں کیا گیا جیسا کہ اپریل 2020ء کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے۔ ذرائع نے کہا ہے کہ یہ باتیں جی آئی ایس یا پھر آر ایس سسٹم سے چیک کی جا سکتی ہیں یا پھر پنجاب حکومت کے اربن یونٹس کے ڈرونز کے ذریعے بھی معلوم کیا جا سکتا ہے یا پھر ڈبلیو ڈبلیو ایف لاہور یا پنجاب فاریسٹ ڈپارٹمنٹ کی جی آئی ایس لیب سے بھی معلوم کیا جا سکتا ہے۔ ذرائع نے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ جعلی ناموں اور مشکوک میجرمنٹ بکس کے ذریعے ماسٹر رول تیار کیے گئے، جعلی انٹریوں کے ذریعے بوگ وائوچر اور بل تیار کیے گئے جبکہ لاک بکس میں بھی فراڈ کیا گیا اور ان میں ڈیزل اور استعمال شدہ موبل آئل کی انٹریاں دکھائی گئیں۔ کہا جاتا ہے کہ لاگ بک میں پیٹر انجن کی خریداری اور ان کا استعمال ان مقامات پر دکھایا گیا ہے جبکہ یہ انجن اب تک نصب نہیں کیے گئے، ڈیزل کا بھی جعلی استعمال درج کیا گیا ہے۔ یہ بوگس اور جعلی دستاویزات کس نے تیار کیں، کس نے سرکاری لاگ بکس میں پیٹر انجنز اور ٹریکٹرز، سرکاری گاڑیاں بھکر ڈویژن کی فاریسٹ رینج میں دکھائیں؟ پہلی اعلانیہ کمیٹی کیوں تحلیل کی گئی؟ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ چیف کنزرویٹر فاریسٹس لاہور نے بھی شجرکاری کے مقامات کا دورہ کیا تھا، لیکن مانیٹرنگ اینڈ ایولیوشن کی اب تک تیار کردہ رپورٹ میں کوئی انسپکشن نوٹ شامل ہے اور نہ ہی یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے۔ ایک ذریعے نے کہا کہ ’’ٹین بلین ٹری سونامی پروجیکٹ میں پنجاب کے فاریسٹ ڈپارٹمنٹ کو فراہم کردہ سرکاری فنڈز میں خرد برد اور کرپشن چیک کرنے کیلئے آپ صرف ایک رینج مینجمنٹ فاریسٹ سرکل لاہور کی کوئی ایک ڈویژن ہی اٹھا کر دیکھ لیں۔‘‘ دی نیوز اپنی خبر پر قائم ہے۔

تازہ ترین