• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس میں کوئی شک نہیں کہ مختلف حلقوں کی طرف سے مسلسل ظاہر کئے گئے ان اندیشوں کے باوجود کہ کسی بھی وقت موجودہ انتخابی عمل سبوتاژ ہو جائے گا اور انتخابات ملتوی ہو جائیں گے۔ اب تک انتخابی عمل مختلف مراحل سے گزرتا ہوا اب آخری مرحلے میں داخل ہو گیا ہے مگر مختلف پارٹیوں اور خاص طور پر بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے جاری کئے گئے انتخابی منشور کا جائزہ لینے پر مایوسی ہوتی ہے کہ ان پارٹیوں نے اپنی سیاست میں منشور کی کلیدی حیثیت کو قبول نہیں کیا ہے اور شاید محض دکھاوے کی خاطر یہ منشور تیار کر کے جاری کئے گئے ہیں۔ میں نے خاص طور پر تحریک انصاف، نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کی طرف سے جاری کئے گئے منشوروں کا جائزہ لیا ہے۔ یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ان پارٹیوں نے صوبائی خود مختاری کو کوئی اہمیت نہیں دی اور نہ ہی ان میں سے کسی پارٹی نے جمہوری عمل کو یقینی بنانے کیلئے اب تک جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے اور مارشل لا لگانے والوں کو سزائیں دینے کے ٹھوس اعلانات کئے ہیں بلکہ اس سلسلے میں تو کوئی ذکر ہی نہیں کیا گیا۔ اگر بنگلہ دیش میں جمہوریت کو سبوتاژ کرنے اور مارشل لا کا ساتھ دینے کے ذمہ داروں کو اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود پھانسی کی سزائیں اور دیگر کڑی سزائیں دی جا رہی ہیں توکیا پاکستان میں بھی ماضی میں مارشل لا لگانے والوں کو ایسی سخت سزائیں نہیں دی جانی چاہئیں جب کہ اس طرز عمل کی وجہ سے آدھے سے زیادہ ملک ہم سے الگ ہو گیا۔ بلوچستان میں بغاوت کی سی صورتحال ہے اور سندھ میں لاوا پک رہا ہے۔ (جو فی الحال کسی کو بھی نظرنہیں آرہا ہے)۔ ان تینوں بڑی پارٹیوں میں سے کسی بھی پارٹی کے منشور میں جمہوریت کو تاراج کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کا اعلان نہیں کیا گیا۔ اسی طرح ان تینوں پارٹیوں میں سے کم سے کم تحریک انصاف کے منشور میں صوبائی خود مختاری کے بارے میں کسی چارٹر کا اعلان نہیں کیا گیا۔ نواز مسلم لیگ کے منشور میں اس سلسلے میں ایک آدھ جملے پر اکتفا کیا گیا ہے اور صوبوں اور خاص طور پر بلوچستان میں احساس محرومی کا ذکر کیا گیا ہے اور بس پیپلزپارٹی کے سارے منشور میں 18ویں ترمیم کا تفصیل سے ذکرکیا گیا ہے جب کہ یہ نہیں بتایا گیا کہ اگر آئندہ وہ منتخب ہو کر آئیں گے تو اس سلسلے میں مزید کتنا آگے بڑھنا چاہتے ہیں ۔ فقط ایک جگہ پر یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ 2006ء میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کے درمیان جس چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کئے گئے تھے اس کے80 فیصد پر گزشتہ پانچ سال میں عمل کیا گیاجبکہ 20 فی صد پر آئندہ عمل کیا جائے گا۔ اگر ہمیں اپنی سیاست کو عوام کی خواہشات اور ملک کی حقیقی ضروریات کے مطابق ڈھالنا ہے تو پارٹی منشور کو کلیدی حیثیت دینی پڑے گی اور اس کیلئے اگر قانون سازی کی ضرورت ہو تو وہ بھی کی جائے اور اگر اس کیلئے آئین میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہو تو وہ بھی کی جائے۔ مثال کے طور پر آئین یا قانون میں ترمیم کر کے اس بات کو لازمی قرار دیاجا سکتا ہے کہ جس طرح پارٹیاں خود کو الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ کراتی ہیں اسی طرح وہ اپنے منشور بھی الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ کرائیں بعد میں اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے پہلے حکمران پارٹی کے منشور پر بحث کی جائے کہ اس پر کس حد تک عمل ہوا ہے علاوہ ازیں اس کیلئے الیکشن کمیشن کو یا کوئی خاص ادارہ بنا کر اسے یہ اختیارات دیئے جائیں کہ وہ دیکھے کہ مذکور پارٹی نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے منشور پر کس حد تک عمل کیا ہے اور اگر اس کی کارکردگی اطمینان بخش نہ ہو تو اس پارٹی پر ایک خاص مدت کیلئے عام انتخابات میں حصہ لینے کی پابندی بھی عائد کی جا سکتی ہے۔
جہاں تک پارٹی منشور میں جمہوریت اور صوبائی خودمختاری کی اہمیت کا تعلق ہے تواس بات پر دو رائیں نہیں ہو سکتیں کہ ملک دولخت اس وجہ سے ہوا کہ جمہوریت کو بیدخل کیا گیا اورملک کو ایک وفاقی ریاست کے بجائے وحدانی طرز کے طور پر چلایا گیا۔ واضح رہے کہ مارشل لا لگنے کے بعد نظام حکومت خود بخود وحدانی ہو جاتاہے۔ جہاں تک 1973ء کے آئین کا تعلق ہے تو وہ بھی غیر سیاسی طاقتوں کے دباؤ میں تیار کیا گیا اس وجہ سے اکثر Subjects یا توکنکرنٹ لسٹ میں شامل کئے گئے یا وفاقی فہرستوں میں رکھے گئے اور صوبوں کے پاس برائے نام اختیارات تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ حکومت کے دور میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے کنکرنٹ لسٹ ختم کی گئی اور این ایف سی ایوارڈ میں کسی حد تک چھوٹے صوبوں کی طرف جھکاؤ ہے مگر وہ ابھی ناکافی ہے علاوہ ازیں مرکز ی بیوروکریسی مسلسل 18ویں ترمیم کے عملدرآمد میں روڑے اٹکاتی رہی ہے لہٰذا کئی ادارے ابھی تک صوبوں کو منتقل نہ ہو سکے اور ابھی تک کسی نہ کسی بہانے سے مرکز کے پاس ہیں جس پر چھوٹے صوبوں نے تو اعتراضات کئے ہیں مگر کسی حد تک اس بار پنجاب نے بھی اعتراضات کئے ہیں۔
اگر بلوچستان کو واپس وفاق میں لانا ہے اور اگرسندھ میں سر اٹھاتی ہوئی شدید ناراضی کو کم کرنا ہے تو آئندہ منتخب اسمبلی کو کچھ اور آگے بڑھنا پڑے گا۔ اس کیلئے نہ صرف جمہوریت کو پاکستان کے وجود کے ساتھ نتھی کرنا ہو گا مگر آئین میں ترمیم کر کے پاکستان میں ایک حقیقی وفاق کا نظام لانا پڑ ے گا جس میں مرکز کے پاس چند اختیارات ہوں اور اس نظام میں کوئی صوبہ دوسرے صوبے کے اختیارات اور وسائل پر ہاتھ صاف نہ کر سکے۔ اس سلسلے میں سندھ میں سندھ کے ٹیکنوکریٹس معاشی ماہروں اور دانشوروں کے اجلاس ہو رہے ہیں جس میں ”سندھ ایجنڈا“ کے نام سے ایک چارٹر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ بعد میں اسے ملک بھر کی سیاسی پارٹیوں اور خاص طور سے سندھ میں اپنے آپ کو قوم پرست کہلانے والی پارٹیوں کے سامنے رکھا جائے تاکہ وہ اسے اپنے پروگرام میں شامل کر کے آئندہ کیلئے لائحہ عمل تیار کر سکیں۔
سندھ کے کچھ دانشور یہ رائے رکھتے ہیں کہ جب1943ء میں سندھ کے سیاستدان جن میں خاص طور پر جی ایم سید اور شیخ عبدالمجید سندھی شامل تھے سندھ اسمبلی میں قرارداد پاکستان منظور کرائی تو اس وقت ان سے مسلم لیگ کی مرکزی قیادت نے جمہوریت اور وفاقی اصولوں پر کار بند رہنے کے سلسلے میں وعدے کئے تھے۔ یہ بات 1943ء میں سندھ اسمبلی میں قرارداد پاکستان منظور ہوتے وقت ان سندھی مسلم لیگی رہنماؤں کی تقریروں سے عیاں ہوتی ہے۔ جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو میرے سامنے اس دن کی سندھ اسمبلی کی کارروائی کی ”آفیشل رپورٹ“ کی کاپی پڑی ہوئی ہے، ان میں سے فی الحال میں صرف شیخ عبدالمجید سندھی کی تقریرکے چند اقتباسات پیش کر رہا ہوں تاکہ اندازہ ہو کہ جب سندھ کی مسلم لیگ قیادت پاکستان کے حق میں جدوجہد کر رہی تھی تو ان کے ذہن میں کیا تھا۔
ایک جگہ پر شیخ عبدالمجید سندھی کہتے ہیں ”میرے قابل احترام دوست جی ایم سید نے کہا ہے کہ سوویت یونین کی اکائیوں کی طرز پر ہمارے صوبوں کو بھی حق خودارادیت اور آزادی حاصل ہوگی۔ ان اکائیوں کو حق ہو گا کہ وہ چاہیں تو الگ ہو سکتی ہیں۔ روس کے آئین میں ایک کلاس ہے جس میں صوبوں کو یہ حق دیا گیا ہے“۔
ایک اور جگہ پر شیخ عبدالمجید سندھی کہتے ہیں کہ ” اگر اس قرارداد کے اصول کو تسلیم کیا جائے تو مسلم لیگ اور کانگریس میں مفاہمت ہو سکتی ہے۔ سر اسٹرا فورڈ کرپس جس کی تجاویز کو کانگریس نے قبول نہیں کیا ان میں بھی یہ اصول شامل تھا۔ سر اسٹرا فورڈ کرپس کے اصولوں کے چار حصے تھے۔ایک حصے میں کہا گیا تھا کہ جنگ کے بعد اکائیاں آزاد ہوں گی۔ یہ اکائیاں اگر چاہیں تو اپنی سا لمیت برقرار رکھ سکتی ہیں اور اگر چاہیں تو آل انڈیا یونین میں شامل ہو سکتی ہیں۔ جب کہ کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے ایک قرارداد کے ذریعے اعلان کیا کہ اگر کسی اکائی نے یونین سے باہر رہنا چاہا تو اسے یونین میں زبردستی شامل ہونے کے لئے دباؤ نہیں ڈالا جائے گا“۔
اپنی تقریر کے دوران شیخ عبدالمجید سندھی نے ایک مرحلے پر کہا کہ ”صوبہ سندھ کے پاس ساحل سمندر ہے۔ ہمیں اس ساحل کی حفاظت کیلئے بحریہ کی ضرورت پڑے گی یہ بحریہ صرف سندھ کے ساحل ہی کی حفاظت نہیں کرے گی بلکہ دیگر صوبوں مثلاً پنجاب اور این ڈبلیو ایف پی صوبوں کا بھی دفاع کر سکے گی۔ اس قسم کے لئے سوالات اٹھ سکتے ہیں۔ ہمیں بحریہ، ایئرفورس اور زمینی فوج قائم کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ یہ بات ضرور قابل غور ہے کہ ان فورسز پر آنے والے اخراجات صرف صوبہ سندھ کیوں برداشت کرے۔ میں اس بات کو ناممکن نہیں سمجھتا کہ نظریاتی اختلافات طے ہو جانے کے بعد ایک ایسے ”مرکزی ادارے“ کی ضرورت پڑ جائے جو بین الصوبائی تنازعات حل کرے۔ سندھ کے فائدے میں ہے کہ وہ سر اسٹرافورڈ کرپس کی تجویز کو قبول کرے جسے برطانوی حکومت نے ابھی واپس نہیں لیا ہے۔ ہر صوبے کے پاس قدرت کے تحفے ہیں۔ سندھ کو کراچی کی شکل میں ایک قدرتی تحفہ ملا ہوا ہے۔
اس بات کا ذکر کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ اس وقت سندھ اسمبلی کے ایک ممبر سردار محمد عثمان سومرو بھی تھے جن کا تعلق ٹھٹھہ سے تھا اوران کے پوتے عبدالواحد سوسرو ختم ہونے والی سندھ اسمبلی کے ممبر تھے اور ان کا تعلق پی پی سے ہے۔ سردار عثمان سومرو نے بھی قرارداد پاکستان کے حق میں ووٹ دیا تھا مگر ساتھ ہی اپنی تقریر میں انہوں نے نہ صرف کچھ تحفظات کا ذکر کیا تھا بلکہ آزاد سندھ کی بات بھی کی تھی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ”یہ بدقسمتی ہے کہ کرپس مشن کی تجاویز نہ ہندوؤں نے نہ مسلمانوں نے اور نہ کانگریس نے منظور کی لہٰذا سرکرپس واپس لوٹ گئے۔ یہاں ہندو اور مسلمان کا سوال نہیں ہے۔ ہر ایک سندھ کو آزاد دیکھنا چاہتا ہے۔
تازہ ترین