• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری نسل اور ہماری نسل سے پہلے کے لوگ وہ ہیں جنہوں نے لاہور کی ہر خوبصورت روایت کا عروج اور پھر اس کو مٹتے ہوئے دیکھا۔ آج کے لاہور کو دیکھتے ہوئے ہماری نسل کے لوگ افسوس کرتے ہیں اور پرانے دنوں کو یاد کرتے ہیں۔ پہلے ہر تنور، نائی اور پان والے کی دکان اور ہر ہوٹل میں ریڈیو سیٹ کا ہونا بہت ضروری ہوتا تھا۔ ہر ریڈیو سیٹ پر بائیں، دائیں سبز رنگ کی ٹیوب ہوتی تھی۔ اگر ریڈیو سٹیشن کی آواز صاف آتی تو گرین ٹیوب فل ہو جاتی۔ اس زمانے میں ریڈیو سیٹ ٹیوبوں والے ہوا کرتے تھے۔ ہمارے پاس بھی فلپس کا ایک ریڈیو محفوظ ہے۔ صبح ساڑھے سات بجے ریڈیو سیلون سے پرانے بھارتی گانے، دوپہر اور رات میں آل انڈیا ریڈیو سے فرمائشی گانے اور فرمائش کرنے والوں کے نام بھی نشر ہوتے تھے۔ کیا دور تھا۔ محمد رفیع، طلعت محمود، لتا، آشا، مکیش، کے ایل سہگل، پنکج ملک، کشور کمار، منا ڈے، مہندر کپور، ہیمنت کمار کے خوبصورت گانے لوگ سنا کرتے تھے۔ رات کے اندھیرے میں کہیں دور سے پرانے گانوں کی آواز، کیا دلکش سماں باندھتی تھی۔ پھر ٹرانسسٹر آ گیا جو سیلوں پر چلتا تھا اور ٹرانسسٹر گائوں گائوں آ گیا۔ لاہور کی ہر ٹیکسی اور کار میں ریڈیو، ریکارڈ پلیئر اور ریکارڈ چینجر ہوتا تھا۔ ریڈیو کا لائسنس بنوانا بہت ضروری ہوتا تھا۔ 1980کی بات ہے ہماری گاڑی میں ریڈیو لگا ہوا تھا۔ ہم جی پی او کے پاس سے گزر رہے تھے تو ڈاک خانے کے عملے نے ریڈیو لائسنس کے بارے میں پوچھا۔ ہمارے پاس نہیں تھا تو دس روپے جرمانہ اور ریڈیو لائسنس کی سالانہ دس روپے فیس علیحدہ بھرناپڑی۔ ہر بس اور بعض گاڑیوں والے ریڈیو لائسنس بنوایا کرتے تھے۔ غالباً کمرشل گاڑیوں میں ریڈیو لائسنس کی فیس پچاس روپے سالانہ، پھر گرامو فون کا زمانہ آ گیاتو اب چائے والے ہوٹلوں نے گراموفون رکھنے شروع کر دیئے۔ ایک مشین میں چابی بھر جاتی اور اس پر ہز ماسٹر وائس اور کولمبیا کے ریکارڈز بجائے جاتے۔ ریکارڈ بجانے کے لئے مخصوص سوئیاں لگانی پڑتی تھیں سوئیوں کی چھوٹی سی ڈبیہ ہوتی تھی۔ لوگ اس ہوٹل میں جانا پسند کرتے جہاں پر توے والی مشین یعنی گراموفون ہوتا تھا۔ لاہور کے بڑے ہوٹلوں میں ریڈیو گرام، ریکارڈ چینجر، اکثر ہوتے تھے۔ ریڈیو گرام میں آپ ایک ساتھ سات ریکارڈ لگا دیتے تھے اورا سٹک میں سوئی ہوتی تھی۔ وہ خود بخود ریکارڈ کا سائز لے کر ریکارڈ کے اوپر آ جاتی تھی۔ ریڈیو گرام لاہور کے امیر گھرانوں کی پہچان تھا۔ پائی، گرینڈک کے ریڈیو گرام لوگ یورپ، امریکہ، جرمنی اور برطانیہ سے لاتے تھے۔ آج بھی لاہور کے کچھ گھرانوں میں یہ ریڈیو گرام ضرور ہوں گے۔ بلکہ بعض لوگوں کے پاس پرانے ریڈیو، ٹرانسسٹر، گراموفون اور ریکارڈ چینجر بھی ہوں گے۔ امیر لوگ اپنی شادیوں پر بارلیکس مووی والوں کو بلاتے تھے جو گھروں میں اسکرین لگا کر پروجیکٹر پر آپ کی پسند کی فلمیں دکھایا کرتے تھے۔ لوگ پکنک پر ٹرانسسٹرز ضرور لے کر جاتے تھے ، اس کا لمبا سا ایریل ہوتا تھا۔ پھر ٹیپ ریکارڈر، سی ڈی، ڈی وی ڈی کا زمانہ آ گیا اور تمام حسیں یادیں اس نئے دور میں بہہ گئیں۔

لاہور میں بڑے خوبصورت اور تاریخی چرچ (گرجا گھر) بھی ہیں۔ لاہوریوں کو لاہور کا ککڑ گرجا تو یاد ہو گا۔ کیتھڈرل چرچ کو لاہور کا ککڑ گرجا بھی کہا جاتا ہے۔ اس چرچ کے اوپر ہوا کا رخ معلوم کرنے کے لئے ایک ککڑ (مرغا) لگا ہوتا تھا جس کو Weather Cookبھی کہتے ہیں۔ چنانچہ لاہوریوں نے اس گرجے کا نام ہی ککڑ گرجا ڈال دیا۔ جو اب صرف بابے لاہوریوں کو یاد ہو گا۔ فن تعمیر کے لحاظ سے کیتھڈرل چرچ اور لارنس چرچ بڑے خوبصورت ہیں۔ لاہور میں اس وقت سینٹ میری مگلینی چرچ، سینٹ جوزف چرچ 150برس قدیم ہیں۔ کیتھڈرل سیکرڈ ہارٹ چرچ کو پتھر گرجا کہا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہاں پر ایک مسیحی لڑکی کو مار دیا گیا تھاپھر اس کی ممی بنا کر گرجا گھر میں رکھی گئی تھی،اس ممی کے بال اور ناخن بڑھتے رہتے تھے۔بعد میں اس ممی کو روم میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ لاہور کا پہلا گرجا اکبر بادشاہ کے دور میں شاہی قلعے میں پرتگال سے آنے والے لوگوں نے بنایا تھا۔ اس کو چیپل بھی کہتے ہیں۔ بہت کم لاہوریوں کو اس کا علم ہو گا کہ شاہی قلعے کے نیچے پورا ایک قلعہ ہے آپ جو اوپر شیش محل اور دیگر عمارتوں کو چلتے پھرتے دیکھتے ہیں اس کے نیچے پورا قلعہ ہے اور اس کے نیچے پھر کئی کمرے ہیں۔ ہم نے قلعے کے نیچے والا سارا قلعہ تو دیکھا ہوا ہے مگر اس کے نیچے پھر کئی کمرے ہیں جو عقل کے اندھوں نے بند کر دیئے ہیں اور قلعہ کی تمام خوبصورتی اور مرمت کا کام اوپر کی منزل پر کرتے رہتے ہیں۔ یہ نیچے والے کمرے جو دراصل بنیاد بھی ہیں اگر ان میں کوئی تعمیراتی خرابی آ گئی تو اس کا انہیں کبھی پتہ نہیں چلے گا اور اگر نیچے بنیادیں ہی تباہ ہو گئیں تو اوپر کی عمارت بھی گر جائے گی۔ بہرحال جہانگیر کے زمانے میں اور پھر انگریزوں کے زمانے میں شاہی قلعے میں دو گرجا گھر رہے ہیں۔ شاہی قلعے میں ایک مزار بھی ہے۔ لاہور میں چار قدیم ترین چرچ ہیں۔ انار کلی کے مقبرے میں بھی لاہور کا باقاعدہ پہلا چرچ رہا۔ جہاں اب مختلف دفاتر اور چیف سیکریٹری کا دفتر ہے۔ انار کلی کے مقبرے کو سینٹ جیمس چرچ بھی کہا جاتا ہے اور یہاں پہلا کراس کا نشان بھی نصب کیا گیاتھا جو اب کیتھڈرل چرچ میں لگا دیا گیا ہے۔ قارئین آئندہ کالم میںآپ کو لاہور کے چار قدیم ترین چرچ یعنی گرجا گھروں کے بارے میں کچھ بتائیں گے۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین