• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

24دسمبر 2018، احتساب عدالت اسلام آباد میں سکوت چھایا ہوا تھا، سب کو فیصلے کا انتظار تھا۔ جج ارشد ملک نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7سال قید کی سزا سنائی۔ فیصلے میں حیران کن طور پر، مجموعی طور پر 23بار لفظ فرض کیا، مفروضہ یا قیاس کا استعمال کیا گیا۔ یعنی مفروضے کی کھوکھلی اینٹ کو بنیاد بناتے ہوئے میاں نواز شریف کو ملزم سے مجرم قرار دے ڈالا۔ چشمِ تصور میں لائیے عدالت کا ماحول، فیصلے کے بعد تاسف بھری آوازیں اُبھریں، بعد ازاں جج کی طرف دیکھتے ہوئے میاں محمد نواز شریف سنجیدہ اور بھاری بھرکم لہجے میں بولے ’’میں اپنا فیصلہ اللہ پر چھوڑتا ہوں‘‘۔ اس موقع پر جج ارشد ملک میاں محمد نواز شریف سے نظریں بھی نہ ملا پائے۔ کیسا ہوگا وہ منظر، منصف نظریں چرا رہا تھا جبکہ جبراً ٹھہرایا گیا مجرم سر اُٹھا کر عدالت میں پُروقار طریقے سے کھڑا تھا۔ میاں صاحب کے ساتھی اُن کا حوصلہ بڑھانے کیلئے وہاں موجود تھے۔ مخالفوں کی خام خیالی ہی تھی کہ میاں نواز شریف ٹوٹ جائیگا لیکن میاں نواز شریف ایک بار پھر مضبوط لہجے میں بولے ’’میں اپنا فیصلہ اللہ پر چھوڑتا ہوں‘‘۔ تاریخ گواہ رہے گی کہ میاں صاحب کے سامنے انکی بیٹی کو بغیر کسی جرم کے گرفتار کیا گیا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں لیکن سلام ہے اس قومی رہنما پر جس نے کمال حوصلے سے معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا اور پھر اسی رب نے اسکے ساتھ انصاف کر دیا۔ آخرکار ایک سال چھ ماہ نو دن بعد 3جولائی 2020بروز جمعہ کو لاہور ہائیکورٹ کے سینئر ججوں پر مشتمل انتظامی کمیٹی نے جج ارشد ملک کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر برطرف کردیا۔ جس سے ثابت ہوا کہ جج ارشد ملک کا طرز عمل انصاف کے تقاضوں کے برعکس تھا۔ ماضی میں عوام اور وکلاء نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے غیرعَلانیہ جوڈیشل مارشل لا پر شدید تنقید کی تھی اور اب بھی کررہے ہیں، وہ کھلے عام جوڈیشل ایکٹوازم کے سدِباب اور خاتمے کو زیر بحث لارہے ہیں۔ جج ارشد ملک کی برطرفی کے بعد سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی نااہلی اور سزا کے پس منظر میں رچائی گئی سازشوں کی پرتیں ایک ایک کرکے کھلتی چلی جارہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ العزیزیہ کیس میں سنائی گئی سزا کے حوالے سے میاں محمد نواز شریف کی بریت کا راستہ کھل گیا ہے۔ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب نواز شریف ایک بار پھر عدالت سے سرخرو ہوں گے۔ موجودہ حکومت نے دو سال کے عرصہ میں ہر وہ عوام کش کام کر ڈالا ہے جو شاید کسی بھی عوامی ہونے کا دعویٰ کرنے والی حکومت نے سوچا بھی نہ ہوگا۔ بنی گالہ پر جی حضوری کی مجسم ڈوئی بننے والوں کی حاضری میں تیزی آتی چلی جارہی ہے۔ چمچہ گیری کے وصف میں وہ اس قدر تاک اور سکہ بند ہیں کہ جو مقابلہ پر آئےمنہ کی کھائے۔ نازک معاملات پرسے عوامی توجہ ہٹا کر نئے کٹے کھول کر تسلسل کو ایسے برقرار رکھتے ہیں جیسے کھیر میں چلائی جانے والی چمچہ رانی ہوں۔ بوقتِ ضرورت وہ کفگیری روپ اختیار کر لینے کا بھی ملکہ رکھتے ہیں۔ اگرچہ حکومت کی کامیابی کیلئے کما حقہ جتن کئے گئے لیکن اسکی نااہلیوں اور غلط فیصلوں کی طویل فہرست نے ان کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ ایک وزیر کے کہنے پر بہ یک جنبش قلم پی ٹی ڈی سی کے چار سو افراد کو فارغ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے اساتذہ کی تنخواہوں میں ایک تہائی کٹوتی سے حکومت نے معاشرے کے قابل ترین اساتذہ کی حمایت بھی کھو دی ہے۔ حزبِ مخالف پابندِ سلاسل، میڈیا پر پابندیاں، اشتہاروں کی بندش یعنی اقتدار کی کھلی شاہراہ پر حکومت کا کوئی مقابل نہیں لیکن پھر بھی حکومت منزل سے کوسوں دور، شتر بےمہار کی مانند لڑھکتی چلی جارہی ہے۔ انڈسٹری خوفناک طریقے سے بیٹھتی چلی جارہی ہے جس کا کوئی پُرسان حال نہیں۔ پنشن کے خاتمے اور ریٹائزمنٹ کی حد عمر کو کم کرنے جیسی عوام کش تجاویز پر بڑی تیزی سے کام جاری ہے جس کا ردِ عمل بہت شدید ہو گا۔ سرکاری شعبے ہوں یا نجی کاروباری طبقے، ان کیلئے ضروریات زندگی کا حصول مشکل سے مشکل ترین ہوتا چلا جارہا ہے۔ روٹی اور نان کی قیمتوں میں اضافے پر ترجمان وزیر کا موقف کس قدر ظالمانہ ہے کہ کیا ہوا روٹی 150اور نان 200کا تو نہیں ہوا نا۔ صبر کریں تبدیلی آجائیگی۔

تازہ ترین