• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل سندھ کے ٹوٹے پھوٹے اورکچے پکے راستوں پر وڈیروں کی دوڑتی ہوئی گاڑیوں کی پچھلی نشستوں پر اجرکوں کے انبار ہیں۔ پانچ سال تک اس غائب شدہ آسمانی مخلوق کے لوگ زمین پر، زمین زادوں، افتادگان خاک سندھ کی جھونپڑیوں،کچے مکانوں پر گزشتہ دو سیلابوں میں خس و خاشاک ہوتے ہوئے زمانوں میں بہہ گئے لوگوں سے پانچ سات سالہ پرانی وفاتوں کی تعزیت کرنے نکلے ہوئے ہیں۔ اجرکیں فوت ہو جانے والے پر ڈالنے کیلئے یا تعزیت کیلئے بھی دی جاتی ہیں۔ کانڈیرو، کھموں عیسو، موسو، کھبڑ، کنڈو، بیڑو، دھنگانوں خان کے نام والے جدی پشتی مفلوک الحال ہاریوں سے خان خانان، جام،رئیس،بڑے بڑے پیر گدی نشین، نوابزادے، سردار زادے، رئیس زادے یہاں تک کہ رئیسوں کی مبینہ اولادیں تک ووٹ کی بھیک مانگنے نکلے ہوئے ہیں۔ یہ وڈیرے غائب شدہ لوگ اب نیا جنم نیا روپ بہروپ لے کر واپس آئے ہیں۔ کہیں کہیں عوام ان گمشدگان کی تصویروں کو بہت کچھ سنا رہے ہیں۔ ”خبردار ہاری کہ بھوتار آئے“ یہ لازوال سطر سندھ کے نابغہ روزگار عوامی شاعرعبد الکریم گدائی نے شاید پاکستان کے قیام سے بھی بہت پہلے لکھی تھیں جو ہر وڈیرے اور الیکشن پر پوری اترتی ہے۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب سندھ کے نامی گرامی جاگیردار نواب غیبی خان چانڈیو نے حیدر بخش جتوئی جیسے سندھ کے محبوب رہنما کو درخت سے بندھوا کر اپنے لوگوں سے کہا تھا کہ وہ ان کے اوپر کتوں جیسی آوازیں نکال کر کتوں کی طرح بھنبھوڑیں۔ یہ سندھ کے وڈیرے اور ان کی سیاست تھی۔
سندھ کے عوامی شاعر گدائی نے ہاریوں کسانوں کو انتخابی نوسر باز وڈیروں سے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کریں۔ بھوتارسندھی زبان میں ”مالک“ کو کہتے ہیں جو زیادہ تر شمالی سندھ میں غریب عوام وڈیروں جاگیرداروں، سرداروں اور زمینداروں کو کہتے ہیں۔ جیسے انہیں وسطی اور زیریں سندھ میں رئیس اور مجیری کہا جاتا ہے۔ رئیس آصف علی زرداری۔
کشمور سے ٹھٹھہ تک ( اب تو کراچی جیسے میٹرو پولیٹن میں بھی شہری وڈیروں کا راج ہے) بھوتاروں کی خدائی ہے۔ ان سب کی کل تک ایک ہی پارٹی ہوتی تھی اور وہ ہے ہر دور کی برسراقتدار پارٹی۔یہ بھوتار ایک ہی پارٹی میں ہوتے ہیں۔سندھ فتح ہونے پر ان کے پُرکھے چارلس نیپئر کے ساتھ دربار ہال میں کورنشیں بجا لارہے تھے۔ یہی لوگ جناح کی مسلم لیگ میں تھے یہی اسکندر مرزا کو شکار کرانے والے تھے، یہی ایوب خان کی بی ڈی یا بنیادی جمہوریت کے نظام میں تھے، یہی یحییٰ خان کو شکارکھلوانے والوں میں شامل ہوتے تھے اور یہی جب انہی میں سے ایک پڑھا لکھا وڈیرہ اور سر کا بیٹا انتخابات میں وڈیرہ شاہی اور جاگیرداری ختم کرنے کا نعرہ لگا کر آیا تو یہی وڈیرے اس کی پارٹی میں شامل ہوگئے۔ وہ جو ہاریوں مزدوروں بے آوازوں کو زبان دینے والا بنا ہوا تھا۔ بھٹو نے یہ کہہ کر پیروں، میروں، سرداروں کا سحر توڑ دیا تھا ” تمہاری عورتیں کپاس چنتی ہیں، اب غلام مصطفی جتوئی کی بیوی بھی کپاس چنے گی“ بھٹو نے مورو میں اپنے ایک انتخابی جلسے میں اپنے دوست، پارٹی کے ساتھی اور سندھ کے سب سے بڑے جاگیردار کی بیوی کیلئے کہا تھا۔ بھٹو نے سریوال جیسے وڈیرے کو تین وال کے نام سے یاد کیا۔لیاری کراچی میں دادل شیرل جیسے بدمعاشوں کی بدمعاشی اور ہارونوں کی سیاست پر اکٹھی توڑ دی تھی۔ ”مجھ سے بڑا بدمعاش کوئی نہیں، عوام سے بڑا بدمعاش کوئی نہیں“ بھٹو نے کہا تھا۔ لیاری اور کراچی کے پرانے لوگوں کو دادل شیرل کی کھلی جیپ مکران سات آج بھی یاد ہے جوکراچی کی سڑکوں پر دہشت کے ساتھ فراٹے بھرتی پھرتی تھی۔ اسی لیاری میں بھٹو نے انتخابات جیتنے کے بعد ککری گراؤنڈ کے جلسے میں کہا تھا ”پاکستان پیپلزپارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد میری پارٹی کے وزیر لیاری کی سڑکوں پر جھاڑو دیں گے“۔ بھٹو کے نام پر تین بار اقتدار میں آنے والے وزیروں نے لیاری میں جھاڑو ضرور پھیری لیکن لیاری والوں کی قسمت اور زندگیوں پر۔ سندھ اور لیاری بھٹو خانوادے کی سیاسی جاگیر بن گئی۔ لیاری کا ذکر پھر کبھی سہی لیکن لیاری والوں کی کالے سانپ کی یادداشت والے ذہن میں جو تصویر جم کر ٹھہر گئی ہے وہ اس شخص کی ہے جس نے لیاری اور سندھ کے وڈیروں کی سیاست کے نقشے کی کایا پلٹ دی ہوئی ہے۔ وہ شخص ہے صدر آصف زرداری کا مبینہ بھائی ٹپی رزداری جس کے ٹھٹھہ ضلع کی ساحلی پٹی کے علاقے سے پی پی پی کے ٹکٹ دینے کی وجہ سے سندھ کی تاریخ کے اس بغداد، دمشق، سمرقند و بخارا کے ہم پلہ شہر ٹھٹھہ کے سفید و سیاہ کے مالک شیرازی پی پی پی کے انتخابی ٹکٹ واپس کر کر قومی خبروں کی بڑی سرخی بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ٹپی جو کہ خود شہری بچہ تھا اور جس کے جم پل سے لیکر جوانی تک کی زبانی تاریخ آپ آل کراچی سینما گیٹ کیپرز ایسوسی ایشن کے کسی بھی پرانے رکن سے پوچھ سکتے ہیں اب تمام وڈیروں کا وڈیرہ بنا ہوا ہے۔ یہ بھی سندھ کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے کہ وڈیروں نے پی پی پی کے انتخابی ٹکٹ واپس کئے ہیں۔ پی پی پی کی قیادت ٹکٹیں لئے پھرتی ہے طاقتور وڈیرے ہیں کہ ٹکٹ نہیں لے رہے۔
”میر جو نہ پیر جو ووٹ بینظیر جو“ (میر کا نہ پیر کا ووٹ بینظیر کا) شاید آنے والے مئی کے انتخابات میں سندھ کے سادہ لوح عوام پر اب اس نعرے کا سحر نہ چل پائے۔ جادو ٹوٹ رہا ہے۔سندھ میں پی پی پی کے سابق وزیروں کا استقبال لوگ بہت سے دیہاتوں میں گائے بھینسوں کے تازہ اپلوں اور پاؤں ننگے عوام مختلف برانڈ کے شوز یا چپل کی مصنوعات سے کر رہے ہیں۔ دادو کے پیارو گوٹھ اور رکن گاؤں میں پیر مظہر اور لاڑکانہ میں ایاز سومرو کے ساتھ تو یہی ہوا ہے۔ ان کے حلقوں میں لوگوں نے ان کے آنے پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔
یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ سندھ کے ادیب اور شاعر ٹھٹھہ میں عوام سے ٹپی کو ووٹ نہ دینے کی زبردست مہم چلانے نکلے ہوئے ہیں۔ سندھی رائٹرز اور تھنکرز فورم والوں نے ٹھٹھہ کے عوام کو پمفلٹوں کے ذریعے ٹپی کے مبینہ عزائم کے بارے میں خبردار کیا۔ گویا کہ ٹپی زرداری کے خلاف انتخابی جنگ سندھ کے وجود کیلئے لڑی جانے والی لڑائیوں میں سے ایک ہے جو ٹھٹھہ کی سرزمین پر کئی مختلف ادوار میں لڑی گئی تھیں۔ عرب، ارغون، ترخان، مغل اور پورچوگیز۔ یہ جو ٹھٹھہ کے شیرازی ہیں یہ امیر خانی حکمرانوں کے دربار کے مراعات یافتہ تھے۔ آج بھی ہر سال جو ان کی شان میں گھوڑوں، اونٹوں پرٹھٹھہ کا نوابی جلوس نکلتا ہے جسے دیکھ کر لگے گا کہ آپ ارغونوں، ترخانوں کے دور میں آگئے ہیں۔
مجھے سندھ کے ایک نوجوان شاعر نے انٹر نیٹ پر کہا ” لگتا ہے پی پی پی کی سندھ میں حمایت کرنا اب بلاسفیمی بن گیاہے لیکن پھر میں میں سمجھتا ہوں کہ پی پی پی کے مدمقابل پی پی پی والوں سے زیادہ گئے گزرے ہیں“۔
شیرازیوں نے بھی ٹپی کے ٹھٹھہ میں آنے کو ٹھٹھہ کا ان کے پیروں کے نیچے سے چلے جانا قرار دیا ہے۔ شیرازی وہ وڈیرے ہیں جن کو اپنے ووٹروں کے دو ہزار نام زبانی یاد ہوتے ہیں۔ جو گاڈ فادر اور فادر کا سا انداز ساتھ ساتھ رکھتے ہیں لیکن لگتا ہے کہ جناتی بابا کے جن ٹپی کو جتوا دیں گے۔ مانچسٹر یونیورسٹی میں سندھ و پاکستان کے جاگیرداروں پر پڑھانے والے بائیں بازو کے دانشور اور سماجیات کے پروفیسر حمزہ اے علوی نے سوچا بھی نہ ہوگا کہ اس کا رشتے میں کزن سندھ کا نگران وزیر اعلیٰ بن کر وڈیروں کے انتخابات کروارہا ہوگا۔ نہ ہی یہ کسی نے سوچا تھا کہ میر مرتضیٰ بھٹو کی لاش کو مبینہ طور پر لات مارنے والا پولیس کا سابق افسر بھی نگران وزیر اور سندھ کی سرکاری زمینوں پر اختیاری بنا دیا جائے گا۔
کراچی اور اسلام آباد میں لیپ ٹاپ دانشور جو سمجھتے ہیں کہ جاگیردار وڈیرے قصہ پارنیہ بن چکے وہ شمالی سندھ میں گھوٹکی کے مہر سرداروں کا اثر و رسوخ تو معلوم کریں کہ جن کے خاندانی درزی کے بھتیجے کے خلاف اپنی بھتیجی کے ساتھ زیادتی کی شکایت کرنے والے ایک فریادی ماسٹر بسنت کمار کے پندرہ سالے بھتیجے گیان چند کو زندہ جلا دیا گیا ہے اور پھر کہا گیا کہ اس نے اپنی موٹر سائیکل سے تیل نکال کر خود کو آگ لگا کر خودکشی کرلی۔
سید قائم علی شاہ کے کاغذات نامزدگی پر اعتراضات کرنے والے وکیل کا سر لہولہان کرنے والے کرائے کے گوریلوں کو اس بات سے کیا سروکار کے ستّر میں انتخابات میں لاڑکانہ میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار جیسی حرکتیں بھٹو کی پھانسی کا پھندہ بنی تھیں۔اب یہ نہیں کہ وڈیرے کس پارٹی میں ہیں اب یہ ہے کون سے وڈیرے کے کس جنرل اور کس عرب شہزادے سے تعلقات ہیں۔ اب وڈیرے آگے ہیں اور پارٹیاں ان کے پیچھے۔
تازہ ترین