• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عام انتخابات سر پر آ چکے ہیں لیکن جس طرح ماضی میں ہمارے ملک میں انتخابات کی سرگرمیاں عروج پر ہوا کرتی تھیں ویسی گہما گہمی، شور شرابا اور جوش و جذبہ نظر نہیں آ رہا۔ اس کی شاید یہ وجہ بھی ہے کہ عوام اب سیاسی لیڈروں کے جھوٹے دعوؤں، وعدوں اور کھوکھلے نعروں سے نہ صرف تنگ بلکہ بھرے بیٹھے ہیں۔ دوسرے نگران حکومت کے بار بار کہنے کے باوجود بعض سیاستدانوں کو الیکشن بروقت ہوتے نظرنہیں آ رہے۔ ماضی میں توکبھی کارنر میٹنگیں بھی بڑی زوردار ہوا کرتی تھیں۔
ہمارے ملک کے سیاستدان کبھی بھی اپنے ضمیر کے ہاتھوں شرمندہ نہیں ہوئے بلکہ بعض سیاستدان، سیاست چھوڑنے کا اعلان کرتے ہیں پھر دوبارہ سیاست میں آجاتے ہیں ۔ بقول جگر مراد آبادی:
الٰہی ایک دل ہے توہی اس کا فیصلہ کر دے
وہ اپنا دل بتاتے ہیں ہم اپنا دل سمجھتے ہیں
دوسری طرف عوام مہنگائی اور بدترین لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں اپنی زندگیوں سے بیزار ہو چکے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء تیار کرنے والی ملکی فیکٹریوں، بیکریوں اور باہر سے درآمد کرنے والی کمپنیوں کے لئے نگران حکومت کا دور سب سے بہترین ثابت ہو رہا ہے کیونکہ نگران حکومت شفاف الیکشن، امن و عامہ اور سکیورٹی کے چکروں میں پڑی ہوئی ہے۔ نجم سیٹھی کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں شاید کسی نے قید کر لیا ہے وہ جلد سے جلد الیکشن کرا کے اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء بنانے والے اداروں نے کوالٹی اور مقدار کم کر کے اور قیمتوں کو پرانی سطح پر رکھ کر ایک نیا دھوکہ شروع کیاہواہے مثلاً جام (پینے والا نہیں ، جو بچے ڈبل روٹی اور کبھی کبھی بڑے بھی لگا کر کھاتے ہیں) کی بوتل بمعہ جام کے وزن 690 گرام تھی اور قیمت 125 روپے تھی اب جام بمعہ بوتل وزن 530 گرام ہے اور قیمت 125روپے ہے ۔ پہلے جام کی شیشی میں جام کا وزن 450گرام تھا اور اب وزن 340گرام ہے یعنی 110گرام جام کم کرکے بھی قیمت 125روپے ہے جام کی کوالٹی خراب اور پانی کی مقدار بڑھا دی گئی ہے ۔ جیسے ہمارے ملک میں پانی ملا گوشت فروخت ہو رہا ہے آخر اتنی دولت اکٹھی کرکے کہاں لے جانی ہے ؟ کیا انسان اپنی قبر کے لئے یہ ایندھن اکٹھا نہیں کر رہا ؟
آئس کریم پہلے دو لیٹر 360روپے کی تھی اب پونے دو لیٹر 360روپے کی ہے کیا کوئی حکومتی ادارہ اس کو چیک کر رہا ہے ؟ الیکشن کے ان چند ہفتوں میں ہر چیز مہنگی کی جا رہی ہے کیوں ؟
ہمارے لوگ چائے کے بہت شوقین ہیں کچھ عرصہ قبل 100ٹی پیک کا ڈبہ 260روپے کا تھا اب 360روپے کا ہے دہی 450گرام یعنی آدھا کلو سے بھی کم 70روپے کا ہے پانی کی ڈیڑھ لیٹر بوتل 42روپے کی فروخت ہو رہی ہے ۔ دال چنا 90روپے اور مونگ 110روپے ، کس کس چیز کی قیمت بتاؤں ایک خشک دودھ کا ڈبہ جو عموماً بزرگوں کو دیا جاتا ہے سال پہلے 675روپے کا تھا اب 875روپے کا ہے ۔ قیمتوں کا تعین کون کرتا ہے ؟ کس کو یہ اختیار حاصل ہے سیاسی حکومتیں تو اس بارے میں ہمیشہ خاموش رہیں۔ کاش نگران حکومت ہی کچھ اس بارے میں فرما دے ۔
ایک پرانا بھارتی گانا ہے
ہم تو لٹ گئے تیرے پیار میں
جانے تجھ کو خبر کب ہوگی
تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ
ہم تو مر گئے مہنگائی کے ہاتھوں
جانے تجھ کو خبر کب ہو گی
اس ملک کو سیاست دانوں نے ہمیشہ مل کر ہی لوٹا ہے لیکن اب کی بار تو بیورو کریسی نے بھی خوب ہاتھ رنگے ۔ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے والے بیوروکریٹس نے تو حدیں ختم کر دیں ۔
ہمیں تو لوٹ لیا ملکر حسن والوں نے
کالے کالے بالوں نے گورے گورے گالوں نے
تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ
ہمیں تو لوٹ لیا ملکر سیاست دانوں نے
لمبے لمبے دعوؤں نے چکنی چکنی باتوں نے
نگران وزیر اعظم پتہ نہیں یہ پڑھ سکیں البتہ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب سے ضرور درخواست ہے کہ وہ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کا فوری طور پر جائزہ لیں اور عوام کو اس خوبصورت دھوکے سے بچائیں کہ چیز کی قیمت تو نہیں بڑھائی ہے مگر کوالٹی اور مقدار دونوں کم کر دیئے ہیں ۔
نگران وزیر اطلاعات و نشریات عارف نظامی کے بعد اب نگران وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی نے بھی صحافیوں، کالم نگاروں اور ایڈیٹروں کو کھانے دینے شروع کر دیئے ہیں خوش کرنے کے لئے نہیں صرف گپ شپ کرنے کے لئے پچھلے ہفتے نگران وزیر اعلیٰ کی طرف سے امجد بھٹی نئے ڈی جی پی او کا پیغام ملا کہ کھانے پر بلایا گیا ہے ۔
نگران وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی صحافیوں کے درمیان بیٹھے ہوئے اینکر پرسن اور تجزیہ نگار بھی لگ رہے تھے جو بڑی صاف گو ئی سے ہر محکمے کی خرابی اور اپنے بندھے ہوئے ہاتھوں کا ذکر کر رہے تھے جو کبھی کسی بھی عوامی وزیر اعلیٰ نے اس کھلے دل سے ان خرابیوں کا اعتراف نہیں کیا ۔ پچھلے 34برس سے وزیر اعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس میں جانے کا اتفاق رہا ہے لیکن اس مرتبہ فضا زیادہ دوستانہ اور کھلی لگی ۔ گیٹ پر انتہائی کم سٹاف بلکہ صرف دو افراد تھے جنہوں نے گائیڈ کیا ۔ اور کھانا صرف کرتے ہوئے بھی صرف تین چار افراد تھے جبکہ عوامی وزیر اعلیٰ جتنے بھی آئے ان کے ہاں تو سٹاف تو ہمیشہ سے فوج ظفر موج کی طرح موجود رہا ۔ دوسری اچھی بات یہ لگی کہ نجم سیٹھی نے ساری بات چیت پنجابی زبان میں کی ۔ پاکستان کے دیگر صوبوں کے وزراء اعلیٰ بھی جب مختلف اجلاس کی صدارت کرتے ہیں تو وہ مادری زبان میں بات کرتے ہیں سیٹھی نے پنجابی زبان میں بات کرکے زیادہ خوبصورت انداز میں دل کی باتیں کیں ہمارے ہاں پچھلے دور میں انگریزی بولنے پر بہت زور رہا ۔نگران وزیر اعلیٰ کچھ اچھی روایات اور اچھے کام کرنے کا سوچ رہے ہیں ۔
ہم تو صرف ان سے یہ عرض کریں گے کہ اس وقت تمام سرکاری ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز کی شدید کمی ہے اور مصنوعی سانس کی مشینوں کی کمی کے باعث کئی مریض اور زخمی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔اس حوالے سے خصوصی فنڈز جاری کرکے تمام سرکاری ہسپتالوں میں ان کی تعداد ڈبل کرا دیں ۔ لاہور جنرل ہسپتال میں صرف بارہ وینٹی لیٹر ہیں اور وہاں کوئی بھی وینٹی لیٹر خالی نہیں رہتا ۔ یہی حال دیگر سرکاری ہسپتالوں کا ہے ۔کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ بعض سیاسی لیڈروں کی حفاظت پر حکومت کے کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں اور شعبہ صحت فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے مسائل میں گھیرا ہوا ہے ۔ خسرہ پھیل رہا ہے کالی کھانسی اور ڈینگی کی آمد آمد ہے ۔ پنجاب کی وزیر صحت سلیمہ ہاشمی کہتی ہیں کہ خسرہ کے خلاف مہم جون میں شروع کریں گے بچے اب مر رہے ہیں اور مہم جون میں شروع کریں گے لگتا ہے الیکشن کے بعد بھی نگران حکومت رہے گی یا پھر الیکشن نہیں ہو رہے؟حکومت کو چاہئے کہ وہ امیر ترین سیاسی لیڈروں کو ایک مقررہ تعداد تک تو سکیورٹی عملہ فراہم کریں اور جن کو زیادہ عملے کی خواہش ہے حکومت ان کو مزید سکیورٹی سٹاف مہیا کرکے ان سے چارج کرے ۔کیونکہ ہمارے ہاں سیاست امیر لوگوں کا شوق ہے اور کاروبار ہے خدمت نہیں جو شخص ملک کی گندی گلیوں اور بازاروں سے منتخب ہو کر وزیر اعلیٰ یا وزیربنے گا اسے کسی سکیورٹی کی اتنی لمبی ضرورت نہیں ہو گی بھارت کی ایک ریاست کے ایک وزیر اعلیٰ اپنے بھائی کے کوارٹر میں رہتے تھے اور وہیں سے سائیکل رکشا میں سفر کیا کرتے تھے۔
حضرت عمر  کے دور کا ذکر کرنے والے یہ تو بتائیں کہ حضرت عمر  کے پاس کتنی سکیورٹی تھی ؟ اگر اس طرح سابق وزراء اعلیٰ اور وزراء پر سکیورٹی کے اخراجات اور عملہ مقرر کیا جاتا رہا تو ایک وقت آئے گا تمام پولیس فورس کا بجٹ اور فورس صرف اپنی وی وی آئی پی حضرات کے لئے رہ جائے گی آخر میں سیاست دانوں کی طرف سے عوام کو یہ پیغام
وفاؤں کی ہم سے توقع نہیں ہے
مگر ایک بار آزما کے تو دیکھو
اور عوام کا پیغام ہے
جفائیں بہت کی ہیں بہت ظلم ڈھائے
کبھی اک نگاہ کرم اس طرف بھی
تازہ ترین