• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چولھے میں آگ جل رہی تھی ۔نارنجی ، نیلے شعلوں پر ہانڈی رکھی تھی ، جس میں سالن پک رہا تھا او ر پورے گھر میں گوشت، مسالوںکی خوش بُو پھیلی ہوئی تھی ۔نفیسہ کی چھے سالہ پوتی چولھے پر رکھی ہانڈی کے گرد چکر لگارہی تھی اور دادی سے بار بار پوچھ رہی تھی کہ ’’دادی! سالن پکنے میں کتنا وقت ہے ؟‘‘دادی،پوتی کے گل نا ر چہرے کو دیکھ رہی تھی کہ آج یہ کتنی خوش ہے ۔کتنا انتظار تھا اسے بڑی عید کا ۔بار بار پوچھتی کہ ’’بڑی عید کب آئے گی ؟جب ہمارے گھر بھی ڈھیر سارا گوشت پکے گا۔

مجھے تو آپ بریانی پکا کر کھلائیے گا۔‘‘ سچّی بات تو یہ تھی کہ نفیسہ نے بھی آج پہلی بار اپنے گھر کے آنگن میں ایک بڑے سے تھال میں اتنا گوشت رکھادیکھاتھا ، جس میں سےوہ پلیٹ بھر بھر کر محلے میں بھی بانٹ رہی تھی ۔ اسکول کی پرنسپل امینہ باجی نے قربانی کا ایک پورا حصّہ جو اس کے سپرد کر دیا تھا کہ وہ خود بھی جی بھر کےگوشت کھائے اور محلّے کے گھروں میں بھی تقسیم کرے ۔اسی لیے نفیسہ نے عید پر اپنی بیٹی کو بھی آنے کے لیے کہہ دیا تھا کہ وہ بھی دوچار دن رُک جائے گی،تو وہ بھی گوشت کے پکوان کھا لے گی۔

نفیسہ کا شوہر،اکبر ایک بنگلے میں مالی کا کام کرتا تھا ۔صاحب کا لان اُس کی محنت سے خوب صُورت پھول پودوں، پیڑوں سے بھر گیا تھا۔صاحب اور بیگم صاحبہ اس کے کام سے بہت خوش رہتےتھے ۔ اور ان ہی کی مہربانیوں کے سبب وہ اپنے لیے سر چُھپانے کا ایک ٹھکانہ بنانے میں کام یاب ہوا تھا۔ بیٹے اور بیٹی کی شادی بھی کر دی۔مگر وہ زیادہ عرصہ جی نہ سکا۔ اصغر، باپ کی زندگی میں بھی بے روزگار تھا۔ کبھی نوکری مل جاتی تو کھانا پینا ہو جاتا، ورنہ ایک وقت کی روٹی بھی مشکل سے مل پاتی ۔ 

سمیرا، اصغر کی بڑی بیٹی تھی، جو دادی کی جان تھی۔ نہ وہ دادی کو چھوڑتی، نہ دادی اُسے ۔ سمیرا کو دادی نے صبر کا سبق پڑھا دیا تھا ،سو وہ کم عُمری میں بھی والدین سے زیادہ فرمایشیں نہ کرتی۔مگر عیدیں تو جیسے نفیسہ کے لیے امتحان ہی بن جاتیں ۔ چار پانچ لوگوں کا کنبہ اور تہوار کا موقع ۔کتنی حسرتیں دل میں دبی رہ جاتیں۔ ’’کاش! میری پوتی ،پوتے کو بھی عید پر نئے کپڑے پہننا نصیب ہوں، ہمارے گھر بھی اچھا کھانا پکے۔‘‘ وہ اکثر عید کے موقعے پر سوچتی ۔ سمیرا اس کے پہلو سے لگی رہتی، اس کا دل چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے ہُمکتا اور دادی پلّو میں بندھےتھوڑے سےپیسوں کو بار بار گنتی ، آنسو پونچھتی اور واپس پلّو کا کونا لپیٹ لیتی ۔ آرزوؤں کے ستارے جگمگانے سے پہلے بجھ جاتے اور وہ پوتی کو محض تسلّی ،دلاسے اور اُمید ہی دیتی رہتی ۔

باجی امینہ محلّے کے اسکول کی نئی پرنسپل تھیں ۔چھوٹا سا اسکول، جہاں وہ بچّوں کو تعلیم بھی دیتیں اور زندگی گزارنے کا سلیقہ بھی سکھاتیں۔سمیرا اور اس کا بھائی بھی وہیں پڑھتے تھے۔ فیس برائے نام اور باجی امینہ کی باتیں دل موہ لینے والی تھیں۔وہ ہر لمحہ صبر ، شکر، نیکی، بھلائی ،دوسروں کے ساتھ اچھےسلوک اور ربّ پر بھروسے کا درس دیتی رہتیں ۔ان کی گفتگو کا محورفقط یہی باتیں ہوتیں۔

نفیسہ بھی اسی اسکول میں صفائی ستھرائی کا کام کرنے لگی، جس کا اسے معقول معاوضہ بھی ملتا، مگرسچ تو یہ تھا کہ وہ معاوضے سے زیادہ باجی امینہ کی محبّت میں اسکول جاتی تھی۔ ’’ باجی! بڑی عید آنے والی ہے۔‘‘ اُس نے باجی امینہ سے باتوں باتوں میں کہا۔’’ آپ قربانی کرتی ہیں ؟‘‘ ’’تمہیں پتا ہے نفیسہ! یہ قربانی کیوں کی جاتی ہے ؟ ‘‘’’مجھے کیا پتا باجی ، میں کوئی پڑھی لکھی تھوڑی ہوں ۔‘‘’’یہی تو افسوس کی بات ہے کہ ہم میں سے بہت سوں کو علم ہی نہیں اور اگر علم ہے توقربانی کی روح سے آشنائی نہیں۔‘‘’’ باجی کبھی کبھی آپ بہت مشکل باتیں کرتی ہیں ۔‘‘ نفیسہ نےکھسیانی سی ہو کر کہا۔’’ چلو، سب بچّوں کو جمع کرو، آج ہم قربانی پر بات کریں گے ۔‘‘بچّے اسکول کے صحن میں جمع ہوئے تو امینہ باجی نے بات کا آغاز کیا’’آپ کو پتا ہے بقر عید آنے والی ہے؟‘‘ جس پر سب بچّے یک زبان ہو کر گویا ہوئے۔ ’’جی…‘‘’’ اللہ کے دوست، اللہ کے خلیل ،اللہ کے پیغمبر ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کی اطاعت اور فرماںبرداری میں ہر طرح کی مشکلات اٹھائیں ۔ 

آگ میں ڈالے گئے ،اپنا وطن چھوڑا اور پھر بڑھاپے کی اولاد ،فرماں بردار بیٹے، حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان تک کرنے پر راضی ہوگئے۔تو اللہ تعالیٰ نے ان کی اطاعت اور محبّت کی اس انتہا کو قبول فرمایااورحضرت اسماعیل ؑ کی جگہ مینڈھا چُھری تلے رکھ دیا۔ اور یہی نہیں، پھررہتی دنیا تک اس سنّت کی پیروی مسلمانوں پر فرض کر دی۔‘‘ نفیسہ پڑھی لکھی تو نہیں تھی، مگر سمجھ دار تھی۔

وہ سوچنے لگی کہ قربانی تو عزیز چیزوں کو اللہ کی راہ میں دینے کا نام ہے اور سب سے عزیز تو اپنی خواہشیں ،اپنا نفس ،اپنی پسند ہوتی ہے، تو ہم میں سے کوئی اللہ کی خاطر اُسے قربان کرنےکو کیوںتیار نہیں ہوتا۔ وہ ابھی یہی سب سوچ رہی تھی کہ باجی امینہ نے اُسے اپنےپاس بلایا اور قربانی کے ایک حصّے کے پیسے پکڑا دئیےتاکہ وہ مسجد جاکر اپنے ہاتھ سے قربانی کے پیسے دے اور پھراس کے گھر بھی گوشت آئے ۔

یہی وجہ تھی کہ آج عید والے دن اس کے گھر کی رونقیں ہی الگ تھیں ۔وہ اپنے ہم سائے میں بھی گوشت تقسیم کروا رہی تھی، جہاں اس کے جیسے تنگ دست لوگ ہی رہتے تھے۔ بیٹی بھی آگئی تھی اور ماں کے گھر کی امیری پر حیران تھی ۔ چولھے پر بریانی کا گوشت چڑھا تھا ۔ کباب تیار ہو رہے تھے۔ گویا عیدِ قرباں کے حقیقی رنگ نفیسہ کے گھر نظر آرہے تھے۔ پہلی بار بڑی عید پر اس کا گھر گوشت اور پکوان کی خوش بوؤںسے مہک رہا تھا اورامینہ باجی کے لیے نفیسہ کے دل سے نکلنے والی دعائیں آسمان تک جارہی تھیں۔

تازہ ترین