• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہتے ہیں، زندگی خوش گوار اور ناخوش گوار حالات و اقعات کا مجموعہ ہے۔اچھے دن ہمیشہ نہیں رہتے، تو بُرے دن بھی گزر ہی جاتے ہیں۔ دنیا میں شاید ہی کو ئی ایساشخص ہو، جس نے کبھی نامساعد حالات، کٹھنائیوں، پریشانیوں کا سامنا نہ کیا ہو۔ کام یاب ترین انسان دشواریوں کا دریا عبور کرکے ہی کسی قابل بن پاتے ہیں۔ انگریزی کا ایک محاورہ ہے ’’Smooth seas don't make good sailors‘‘(ہم وار سمندروں سے کبھی اچھے ملّاح نہیں بنتے) اور یہی محاورہ انفرادی و اجتماعی زندگیوں پربھی بالکل صادق آتا ہےکہ مشکلات ہی ہماری خوبیوں کو نکھارتی، ہمیں مضبوط بناتی ہیںاور اُن سے ہمّت و حوصلے سےنمٹنا ہی اصل فن ہے۔ جس طرح ایک انسان مشکل حالات سے نبرد آزما ہوکر منزل تک پہنچتا ہے، بالکل اسی طرح قوموں کی پہچان بھی اُن کےاجتماعی رویّوں سے ہوتی ہے۔ 

عید الفطر کی غلطیاں ہر گزنہ دہرائیں،وَبا کا زور ٹوٹا ہے، ختم نہیں ہوئی 

ویسے تو خیر سے ہماری سڑکیں، نظامِ ٹریفک،گلی، محلّوں میں پھیلا کچرا،پبلک ٹوائلٹس کی ابترحالت ہی ہمارے عمومی رویّوں اور سوچ کی درست عکّاسی کے لیے کافی ہیں، لیکن اس میں بھی کوئی دور ائے نہیں کہ ہم نے مِن حیث ا لقوم کئی بار انتہائی مشکل حالات کا سامنا انتہائی دلیری، ہمّت و حوصلےاوریک جہتی و اتحاد سے بھی کیا ہےاور آج بھی ہمیں ایک کٹھن وقت کا سامنا ہے اور ہمیں ہی کیا، اس بار تو پوری دنیا ہی سخت مشکل میں گِھری ہے۔ چاہے سُپرپاور ہونے کے دعوے دار ممالک ہوں یا ہماری طرح ترقّی پذیر ممالک ،سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں، سب کا سامنا ’’کورونا‘‘ نامی طوفان سے ہےاور سب ہی اس سے نمٹ کربخیرو عافیت ساحل تک پہنچنا چاہتے ہیں۔

جب 26 فروری 2020ء کو پاکستان میں کورونا کا پہلا کیس رپورٹ ہوا تو لوگوں نے اسے کچھ زیادہ سنجیدہ نہیں لیا، احتیاطی تدابیر اپنانا تو کُجا، کچھ لوگوں نے تو اسے مَن گھڑت کہانی، سازش اور نہ جانے کیا کیا قرار دے دیا۔ نتیجتاً ہر گزرتے دن کے ساتھ کورونا متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلاگیا، پھرایک کے بعد ایک اموات کی خبریں آنے لگیں ، تب کہیں جا کر پاکستانیوں نے کورونا کے حوالے سےکچھ سنجیدگی اختیار کی۔صوبائی حکومتوں کے ساتھ وفاقی حکومت کی جانب سے بھی لاک ڈاؤن کیا گیا، دفاتر کے اوقاتِ کار میں کمی لائی گئی، عوام کوبلا ضرورت گھروں سے نہ نکلنے کی بار بار تلقین کی جاتی رہی اور اب بھی کی جا رہی ہے۔ ابھی ان تمام اقدامات کے بہتر نتائج بر آمد ہونا شروع بھی نہیں ہوئے تھے کہ رمضان المبارک کا مقدّس مہینہ شروع ہوگیا۔ گرچہ عوام کی حفاظت کے پیشِ نظر حکومت کی جانب سے ماہِ صیام میں بھی سخت ہدایات جاری کی گئیں، سماجی فاصلہ یقینی بنانے کے لیے علماء کی مشاورت سے مساجد میں تراویح اورباجماعت نماز پر پابندی بر قرار رکھی گئی، لیکن ان تمام احتیاطی تدابیر اور اقدامات کی کسر عید الفطر کے دِنوں میں نکل گئی، جب عید سے چند روز قبل لاک ڈاؤن میں نرمی کرکے بازار کھول دئیے گئے۔ 

حالاں کہ بازار وغیرہ کھولنے سے قبل حکومت کی جانب سے ہدایات جاری کی گئیں کہ لین دین، خریداری میں احتیاطی تدابیر اپنائی جائیں، لیکن عوام النّاس نے تمام تر احتیاطی تدابیر، ایس او پیز کو بالائے طاق رکھتے ہوئےنہ صرف عید کی شاپنگ کی ، بلکہ عید بھی روایتی جوش و خروش سے منائی۔اور پھرعید تو سب نے ہنسی خوشی منالی،مگر بعد ازاں، اس بے احتیاطی کے شدید نتائج کورونا متاثرین کی تعداد میں دُگنے اضافے کی صُورت سامنے آئے۔ متعدّد خاندانوں نے اپنے پیارے کھود ئیے ۔ اور یہ سلسلہ تا حال رُکا یا تھما نہیں۔البتہ، الحمدُللہ ،خوش آیند بات یہ ہے کہ اب کورونا کیسز میں کچھ کمی واقع ہونا شروع ہوگئی ہے، مگر یہ کمی آٹے میں نمک کے برابرہی ہےکہ آج بھی وطنِ عزیز کے مختلف صوبوں میں اسپتال کے اسپتال کورونا متاثرین سے بَھرے پڑےہیں، گھر پر قرنطینہ افراد کی تعداد الگ ہے ، جب کہ ان افراد کا تو کوئی ذکر ہی نہیں، جو کورونا پازیٹیوہیں، لیکن کسی قسم کی احتیاط کر رہے ہیں، نہ یہ بات ماننے پر راضی ہیں کہ وہ کورونا سے متاثر ہیں۔

عید الاضحی کی آمد آمد ہے۔ ہمارا ایک ایسا مذہبی تہوار کہ جس میں پروردگار کی دو مخلوقات قربان کرنے اور قربان ہونے کے باہمی جذبے سے شریک ہوتی ہیں، توکورونا کے دنوں میں یہ قربانی کیسے ہو گی، کیا طریقۂ کار، لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا؟ یہ سوال حکومت سے بھی ہے ، معاشرے سے بھی،خواص سےبھی ہےاور عوام سے بھی۔ اس بار ہر عاقل و بالغ پر قربانی کے ساتھ ایک اور ذمّے داری بھی عائد ہوتی ہے کہ اپنی ، اہلِ خانہ اور ارد گرد کے لوگوں کی حفاظت بھی یقینی بنانی ہے۔ سنّتِ ابراہیمیؑ پر توضرور عمل کریں، لیکن احتیاطی تدابیر کا خاص خیال رکھیںکہ حکومت اکیلےکچھ نہیں کر سکتی۔ اسی طرح تنہا عوام بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ حکومت، طبّی عملےاور علما وغیرہ کی جانب سے عوام سے پُر زور اپیل کی جا رہی ہے کہ عیدِ قرباںکے موقعے پر بے احتیاطی ہر گز نہ کریں، ورنہ عید الفطر سے بھی بد تر نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں کہ عیدِ قرباں کے موقعے پر تو ویسے ہی منڈیوں میں خوب رش دیکھنے میں آتا ہے، گلی محلّوں میں بھی جگہ جگہ شامیانے لگائے جاتے ہیں، جانوروں کو دیکھنے والوں کا ہجوم لگا ہوتا ہے، جن میں پیش پیش بچّے ہی ہوتے ہیں اور کورونا سے سب سے زیادہ خطرہ بچّوں اور بزرگوں ہی کو ہے۔ 

اس حوالے سے وزیرِاعظم عمران خان نے بھی عوام سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’عیدالاضحی سادگی سے منائیں اور اس عید پر وہ لاپروائی نہ کریں جو عیدالفطر پر کی تھی۔‘‘انہوںنے یہ بات نیشنل ڈیزاسٹرمنیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی جانب سے وبائی امراض کے لیے بنائے گئے خصوصی آئسولیشن اسپتال کے افتتاح کے موقعے پر کہی۔وزیرِاعظم کا مزید کہنا تھا کہ ’’عیدالاضحی آنے والی ہے ،مَیں سب سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ نہ کریں، جو عیدالفطر کے موقعے پر کیاتھا۔ پچھلی عید پر ہم نے بےپروائی کا مظاہرہ کیا ،اس بات کا خیال نہیں کیا گیا کہ یہ وائرس ایک جگہ لوگوں کے جمع ہونے سے زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے،اس لیے عید کے موقعے پر وائرس انتہائی تیزی سے پھیلا ، نتیجتاً ہمارے اسپتالوں اور فرنٹ لائن ورکرز پر دباؤ آگیا اور بدقسمتی سے اموات میں بھی اضافہ ہوا۔اگر ہم نے بڑی عید پربھی لاپروائی کی، تو خطرہ ہے کہ وائرس ایک مرتبہ پھر تیزی سے پھیلے گا ۔اس لیے میری اپیل ہے کہ عید سادگی سے منائی جائے۔ اس وقت احتیاط کرنا بہت ضروری ہے ۔ اگر احتیاط کی گئی تو ہم بہت بہتر طریقے سے اس مشکل وقت سے نکل جائیں گے۔‘‘

بقر عید... بھر پور احتیاطی تدابیر کے ساتھ
ڈاکٹر فیصل محمود

’’وبائی ایّام میں عید الاضحی کس طرح منانی چاہیے ، کس طرح کی احتیاط برتنی چاہیےاور کیا گوشت کے ذریعے بھی کورونا پھیل سکتا ہے؟‘‘اس حوالے سے ہم نے آغا خان یونی وَرسٹی اسپتال کے شعبۂ وبائی امراض کے سربراہ، ایسوسی ایٹ پروفیسر، ڈاکٹر فیصل محمود سے بات چیت کی ،توان کا کہنا تھا کہ ’’اللہ پاک کا بے حد شُکر ہے کہ پاکستان میں کورونا کیسز میں کچھ کمی آنی شروع ہوئی ہے، مگرہر صوبے میں متاثرین کی تعداد الگ ہے ۔ اس لیے ابھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ سندھ میں زیادہ کمی آئی ہے یا پنجاب میں یا کسی اور صوبے میں۔ عید الاضحی بہت قریب ہےاور عید الفطر کی نسبت اس عید پر میل جول، روابط اور آنا جانا زیادہ ہوتا ہے، ہجوم زیادہ لگتا ہے، تو مَیں عوام النّاس سے یہ کہنا چاہوں گا کہ عیدِ قرباں پر،میٹھی عید کی غلطیاں دُہرانے سے گریز کریں۔ اُس عید پر کی جانے والی بے احتیاطی، غلطیوں اور کوتاہیوں کا خمیازہ ہم اب تک بھگت رہے ہیں، جب کہ اس میں تو ملنا جلنا بھی زیادہ نہیں ہوتا، لیکن اگر عید الاضحی پر سماجی فاصلے کا خیال نہیں رکھا گیا، ایس او پیز کو ہنسی مذاق میں اُڑایا گیا، بے احتیاطی برتی گئی تو اس کے خطرناک نتائج بر آمد ہوسکتے ہیں۔لہٰذا چاہے منڈی جانا ہو، قربانی کرنی ہو یا عزیز و اقارب ، ضرورت مندوں میں گوشت تقسیم کرنا ہو، گلوز اورماسک کا استعمال ہر گز نہ بھولیں۔ 

یاد رکھیں! کورونا وائرس ہاتھ، منہ اور ناک کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہوتاہے، یہ ہلاکت خیز وائرس ہر کسی کے لیےجان لیوا ثابت نہیںہوتا، لیکن ہم یہ بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ اس سےمتاثرکون سا شخص صحت یاب ہوگااور کون سانہیں، کس کی قوتِ مدافعت زیادہ ہے اور کس کی کم۔ کیا ضروری ہے کہ قربانی کا جانور خریدنے گھر کےچار، پانچ افراد، کئی کئی دوست ہی جائیں؟ کوشش کریں کہ بس گھر کے ایک دو افراد ہی خریداری کرلیں۔اسی طرح گوشت بانٹنے کے لیے بھی بچّوں یا بزرگوں کوہر گز ساتھ نہ لے جائیں، بلکہ زیادہ سے زیادہ بس دو افراد ہی باہر نکلیں۔علاوہ ازیں،صرف اس برس ہی نہیں، ہر برس ہی عید الاضحی کے موقعےپر خاص احتیاط برتنی چاہیے کہ ہر سال اس موقعے پرکانگو وائرس پھیلنے کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ 

یہ وائرس جانوروں میں پایا جاتا ہے اور کورونا ہی کی طرح ہاتھ، ناک اور منہ سے انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے۔ اس لیے جو بھی منڈی جائے، اسے چاہیے کہ گھر آتے ہی فوراً نہائے اورپہنے ہوئے کپڑے دھوڈالے۔ کانگو وائرس جانور کے کان کے پیچھے یا کھال میں ہوتا ہے، تو کوشش کرنی چاہیے کہ قربانی کے بعدکھال کوعلیحدہ رکھیں اور پھر جہاں دینی ہے،جلد از جلد دے دیں۔ دوسری جانب، اس بات کا بھی خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ جب کسی کے گھر سے کوئی حصّہ آئے تو گوشت لینے کے فوراً بعد ہاتھوں کو صابن یا ہینڈ واش سےاچھی طرح دھوئیں اور گوشت کو بھی خُوب اچھی طرح پکائیں ۔ یاد رکھیں! ہم میں سے کئی ڈاکٹرز صرف آپ لوگوں کی خاطر اپنے گھر والوں سے دُور ہیں، اسپتالوں میں کئی کئی گھنٹے ڈیوٹیز دے رہے ہیں تاکہ ہمارے لوگ جلداز جلد صحت یاب ہوجائیں، تو آپ لوگوں پر بھی ذمّے داری عاید ہوتی ہے کہ اپنا خیال خودبھی رکھیں۔ زندگی رہی، صحت رہی تو ہم سب پھر سےخوشیوں بھری، بے فکر عیدیں منائیں گے۔ بس فی الحال یہ وبا کے دن ہیں، توان میں احتیاط کو خود پر لازم کرلیں۔‘‘

یہاں ایک قابلِ ذکر امر یہ بھی ہے کہ کورونا وائرس کے باعث مُلک بھر میں آن لائن شاپنگ یا ای کامرس خوب فروغ پا رہی ہے۔ عید الفطر کےموقعے پر بھی کئی ذی شعور افراد نے بازار جانے کے بجائےآن لائن شاپنگ کو ترجیح دی، تو اسی رجحان کے پیشِ نظر عید الاضحی پر بھی آن لائن جانوروں کی خریداری کا زور رہا۔دیکھا جائے تو قربانی کے جانور کی آن لائن خریداری کوئی بُرا آئیڈیا نہیں ۔ بس گھر بیٹھے اپنا مَن پسند جانور دیکھا اور بکنگ کروالی۔ ’’قربانی کے جانورکی آن لائن خریداری کے حوالےسے شریعت میں کتنی گنجایش ہے، نبی ﷺ یا صحابہ کرام ؓکو کبھی عید کے موقعے پر کسی وبا کا سامنا ہوا یا ان کا وبائی دنوں میں کیا طرزِ عمل تھا؟‘‘ اس حوالے سے ہم نے معروف مذہبی اسکالر، مولانا ولی رازی سے بات چیت کی، توان کا کہنا تھا کہ ’’سب سے پہلے تو ایک بات واضح کردوں کہ مَیں مفتی ہوں، نہ میری بات فتویٰ۔ اپنے علم کی روشنی میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ آن لائن قربانی کی کئی شکلیں ہیں۔ جن میں سے تین انتہائی اہم ہیں۔ 

بقر عید... بھر پور احتیاطی تدابیر کے ساتھ
مولانا ولی رازی

پہلی صُورت تو یہ ہے کہ کوئی شخص یا ادارہ، جو جانوروں کی خریدو فروخت کرتا ہے، اس سے رابطہ کرکے کہہ دیا جائے کہ مجھے گائے، اونٹ یا بیل میں اتنے حصّے چاہئیں یا بکرا خریدنا ہے ، پھر آپ اُسے پیسے دے دیں ۔ جانور دیکھیں، نہ قربانی اور وہ آپ کا حصّہ یا قربانی کا گوشت گھر پہنچا جائے۔ دوسری صُورت یہ ہے کہ ایک شخص دیارِ غیر میں مقیم ہو اور وہ وہاں سے اپنے کسی بھائی یا عزیز رشتے دار کو پیسے بھجوادے اور کہے کہ میرے نام سے قربانی کردینا کہ مَیں تو غیر مُلک میں ہوں اور یہاں قربانی کرنا آسان نہیں۔ 

تیسری صُورت یہ ہے کہ جانوروں کےکسی بیوپاری سے ٹیلی فون یا انٹرنیٹ پر رابطہ کرکے کہا جائے کہ مجھے فلاں جانور چاہیے، تم گھر لے آؤ ،پہلے مَیںاُسے دیکھوں گا،پھر خریدوں گااور پھر وہ جانور آپ کچھ دن گھر ہی میں رکھیں، پالیں اور اس کی قربانی کریں۔ ان تینوں صورتوں میں سے سب سے بہتر آخرالذّکر ہے۔ مگر قربانی کا اصل طریقہ یہی ہے کہ اپنی مرضی سے خود جانور خریدا جائے، اسے اچھی طرح دیکھا جائے کہ وہ بیمار ، بچّہ یا اس میں کوئی نقص تو نہیں ہے، پھر اُسے کچھ دن پالا جائے ، پھرقربانی کی جائے۔اب جہاں تک بات ہے ،وَبا میں عید منانے کی یا نبی ﷺ کے زمانے میں ایسا کچھ ہوا یا نہیں تو ایک بار مسجدِ نبویﷺ میں وبا پھیلی ہوئی تھی، تو جب اذان دی گئی تو ’’حیّ علی الصلوٰۃ ‘‘ کے بعد ’’اپنے گھروں میں نماز ادا کریں‘‘ بھی کہا گیا، کیوں کہ مسجدوں میں جانے سے وبا پھیلنے اور جان جانےکا خطرہ لاحق تھا۔ میری نظر میں توکورونا وائرس بہت خطرناک وبا نہیں۔ مگر جو لوگ احتیاط کر رہے ہیں ،اچھی بات ہے، لیکن قربانی تو بہر حال ضرور ہونی چاہیے، بس احتیاطی تدابیر کاخاص خیال رکھیں، ویسے بھی صفائی نصف ایمان ہے، تو ہمیں کسی بیماری کے ڈر سے نہیں، اپنے ایمان کی مضبوطی کے لیے اوراللہ کو راضی کرنے کی نیّت ہی سےپاک صاف رہنا چاہیے۔ ‘‘

یاد رہے،حکومت15 ستمبر سے تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان کر چُکی ہےتو اس ضمن میں والدین پر دُہری ذمّے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ اگر اپنے بچّوں کے تعلیمی مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیںاورچاہتے ہیں کہ جلد از جلد کورونا کا خاتمہ ہو، بچّوں کا تعلیمی سلسلہ دوبارہ شروع ہو ،تو انہیں عید کے دنوں میں ایس او پیز پر سختی سےعمل در آمد کرناہوگا کہ یہی ہم سب اور خصوصاً نسلِ نو کےمفاد میں ہے۔ ورنہ پچھلےکچھ روزمیں مریضوں کی تعداد میں جوکمی آئی ہے، وہ بڑھ بھی سکتی ہے۔سو، عید منائیں، مگر احتیاط کے ساتھ۔

تازہ ترین