• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت جو تبدیلی اور کرپشن کو روکنے اور اور اس کے خاتمے کے نام پر آئی تھی، آج دو سال بعد اُس کی کارکردگی مایوس کن نظر آتی ہے۔ عمران خان کی 50رکنی کابینہ میں بڑی تعداد غیرمنتخب عوامی نمائندوں کی ہے جس میں 27وفاقی وزراء، 4وزیر مملکت، 5وزیراعظم کے مشیر اور 14معاونِ خصوصی شامل ہیں لیکن زیادہ تر وزارتوں کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ آٹا، چینی، گھی، دودھ، بجلی، پٹرول مافیا سرگرم ہے اور جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق ان میں سے کچھ کا تعلق حکومت میں شامل بعض بااثر افراد سے ہے، جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔ پاکستان کی 71سالہ تاریخ میں ہم نے صدارتی نظام، ڈکٹیٹر شپ اور پارلیمانی نظام کے مختلف ادوار دیکھے۔ پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ہے جس میں گروتھ کا بےانتہا پوٹینشل پایا جاتا ہے لیکن گڈگورننس نہ ہونے کی وجہ سے ہم آج خطے کے دیگر ممالک کی طرح خوشحالی حاصل نہ کر سکے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی سطح پر ہم آہنگی پیدا کی جائے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے بحث کی جائے کہ پاکستان کیلئے کون سا نظامِ حکومت موزوں ہے جس کو رائج کرکے ہم وہ مقاصد حاصل کر سکیں جن کا خواب بابائے قوم نے پاکستان کیلئے دیکھا تھا کہ غریب کو عزت سے دو وقت کی روٹی، تعلیم صحت کی بنیادی سہولتیں، قانون کی بالادستی اور عوام کو فوری اور سستا انصاف مل سکے۔ ملک میں سب کا احتساب ہو اور ملکی وسائل لوٹنے والوں کو احتساب کے کٹہرے میں لایا جاسکے، سیاسی مداخلت کے بغیر قابلیت اور میرٹ کی بنیاد پر تعیناتی ہو تاکہ ادارے مضبوط ہو سکیں، وہ بنیادی سہولتیں ہیں جن کے 70سال سے عوام متلاشی ہیں۔

حکومت کی موجودہ پارلیمنٹری حکومت میں منتخب نمائندوں کے بجائے غیرمنتخب وزیراعظم کے مشیروں اور معاونینِ خصوصی کی اہم وزارتوں میں مایوس کن کارکردگی سے یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ کیا پاکستان میں موجودہ طرز حکومت میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟ پاکستان میں اب تک صدارتی یا پارلیمانی نظام حکومت اپنایا گیا۔ فوجی حکمرانوں نے صدارتی نظام پسند کیا جبکہ جمہوریت پسندوں نے پارلیمانی نظام رائج کرنے کی کوشش کی۔ قیام پاکستان سے اب تک 71سال میں مجموعی طور پر 12حکومتیں وجود میں آچکی ہیں جن میں سے 7صدارتی نظام کے تحت اور 5پارلیمانی نظام کے تحت قائم کی گئیں۔ پارلیمانی نظام میں کابینہ کے وزراء قومی اسمبلی اور سینیٹ کو جوابدہ ہوتے ہیں جبکہ صدارتی طرز حکومت میں تمام تر انتظامی اختیارات صدر مملکت کے پاس ہوتے ہیں۔ پاکستان میں سب سے پہلے صدارتی نظام 1956 میں صدر میجر جنرل اسکندر مرزا نے نافذ کیا جو 2سال 7ماہ تک صدر رہے۔ اس کے بعد جنرل ایوب خان اور پھر جنرل یحییٰ خان نے بھی باوردی صدر بننے کا سلسلہ جاری رکھا اور 1971تک 13سال ملک میں باوردی صدارتی نظام نافذ رہا۔ 1973میں پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو متفقہ آئین دے کر قیام پاکستان کے 26سال بعد دوبارہ پارلیمانی نظام حکومت قائم کی جس نے ذوالفقار علی بھٹو کو وزیراعظم منتخب کیا لیکن 4سال بعد 5جولائی 1977کو جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار بھٹو کو وزیراعظم کے عہدے سے ہٹاکر دوبارہ صدارتی نظام نافذ کردیا جو 10سال صدارت کے عہدے پر فائز رہے۔ 17اگست 1988کو ضیاء الحق کی وفات کے بعد آئین کے تحت چیئرمین سینیٹ غلام اسحاق خان ملک کے پانچویں طاقتور صدر بن گئے جن کا دور صدارت تقریباً 5سال رہا۔ 16نومبر 1988کو انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی ایک بار پھر اقتدار میں آگئی لیکن غلام اسحاق خان نے دو سال کے دوران بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کردی۔ اس کے بعد نواز شریف کی حکومت بنی لیکن جولائی 1993میں نواز شریف اور غلام اسحاق خان اپنے عہدوں سے ہاتھ دھوبیٹھے اور پیپلزپارٹی کے فاروق لغاری ملک کے صدر بنے۔ انہوں نے 1996میں اپنی پارٹی کی حکومت کو کرپشن کے الزام میں برطرف کردیا۔ 1997میں نواز شریف بھرپور اکثریت سے وزیراعظم منتخب ہوئے اور فاروق لغاری کو مستعفی ہونا پڑا جن کی جگہ 1998میں سپریم کورٹ کے سابق جج رفیق تارڑ ملک کے صدر بنے لیکن صدر کے اختیارات میں بتدریج کمی کی جاتی رہی۔ 12اکتوبر 1999کو جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کو برطرف کردیا اور 20جون 2001کو باوردی صدر بن گئے اور ملک میں ایک بار پھر صدارتی نظام نافذ ہو گیا۔ 2007میں بینظیر بھٹو کی شہادت اور 2008کے انتخابات میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کے بعد جنرل پرویز مشرف کو مستعفی ہونا پڑا اور 9ستمبر 2008کو آصف علی زرداری نے صدر کا عہدہ سنبھالا جنہوں نے 58بی کے اسمبلی تحلیل کرنے کے صدارتی اختیارات ختم کرائے اور پارلیمانی نظام حکومت میں وزیراعظم اور کابینہ کو بااختیار کیا۔ اس طرح صدارت مسلم لیگ (ن) کے ممنون حسین اور پی ٹی آئی کے عارف علوی تک پہنچی۔ 71سال میں مجموعی طور پر پاکستان میں 12صدور بنے جن میں سے 6فوجی اور 6سویلین تھے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لینے سے صدارتی اور پارلیمانی نظام حکومت کی جنگ نظر آتی ہے۔ صدارتی نظام میں اختیارات فرد واحد کے پاس ہوتے ہیں جبکہ پارلیمانی نظام میں عوام کے منتخب نمائندے ہی پارلیمنٹ کا رکن بن سکتے ہیں۔ ہمارا موجودہ آئین پارلیمانی نظام پر ہے، صدارتی نظام لانے کیلئے اِسے دو تہائی اکثریت سے دونوں ایوانوں میں تبدیل کرنا پڑے گا یا اس پر ریفرنڈم کے ذریعے عوامی رائے لی جا سکتی ہے۔ حکومتی اتحادی سینیٹر بیرسٹر محمد علی سیف نے حال ہی میں سینیٹ میں صدارتی نظام پر بحث پر مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین رکن قومی اسمبلی بلاول بھٹو نے اس کی سخت مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صدارتی نظام سے ملک کو نقصان ہوا لہٰذا اس اہم معاملے پر بحث سے قومی رائے ہموار کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کے بہتر مستقبل کیلئے ہمیں ایسے نظام حکومت کی ضرورت ہے جو عوام کو موجودہ مشکلات سے نکال سکے۔

تازہ ترین